سانحہ واہگہ ٹاؤن پر عالمی نقطہ نظر
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
بتایاجاتاہے کہ سانحہ واہگہ ٹاؤن
شہید ہونے کی تعدادکی تعداد 55 ہوگئی ہے، جس کے بعد وہاں پرچم کشائی کی
تقریب کو عام لوگوں کیلئے تین دن کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔پولیس حکام کا
کہنا ہے کہ خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کی سربراہی
میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اس ٹیم میں پولیس کے علاوہ
ایف آئی اے یعنی وفاقی تحقیقاتی ادارہ، انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی
شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق سانحہ واہگہ ٹاؤن کی کالعدم انتہا پسند گروہ جند اﷲ
نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اسے قبائلی علاقوں میں پاک فوج کی
کارروائی کا انتقام قرار دیا ہے۔ اس حملہ سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت
گردی کے خلاف لڑائی طویل اور جاں گسل ہے۔چند ماہ پہلے شمالی وزیرستان میں
ضرب عضب کے نام سے پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ اس
وقت تک تین چوتھائی علاقوں کو صاف کروایا جا چکا ہے اور انتہا پسندوں کے
متعدد ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج کی مدد کے لئے پاک فضائیہ کے
طیارے بھی انتہا پسندوں کی پناہ گاہوں اور مورچوں کو تباہ کرنے کے لئے
بمباری کر رہے ہیں۔ اس آپریشن میں اب تک گیارہ سو کے قریب دہشت گرد مارے جا
چکے ہیں جبکہ ایک سو فوجی جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں
انتہا پسندوں کی بیخ کنی کی جائے گی۔ تاہم اب یہ اندازہ قائم کیا جا سکتا
ہے کہ ملک میں انتہا پسندوں کو ختم کرنے کی کارروائی مشکل ، طویل اور جاں
گسل ہو گی۔ یہ عناصر صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں ہیں۔ البتہ فوج کے
مربوط اور پرعزم آپریشن کے نتیجے میں یہ تتر بتر ضرور ہوئے ہیں اور ان کی
طاقت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ تاہم واہگہ میں ہونے والے بم دھماکہ سے یہ
بات واضح ہو جاتی ہے کہ ملک میں دہشت گرد قوتوں کے پاس ابھی تک امن و امان
تباہ کرنے اور پولیس و سکیورٹی فورسز کا حصار توڑ کر حملے کرنے کی صلاحیت
موجود ہے۔ آپریشن ضرب عضب جون میں شروع کیا گیا تھا اور شروع میں یہ اندازہ
تھا کہ یہ کارروائی چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔ البتہ ساڑھے چار ماہ
گزرنے کے باوجود فوج ابھی تک شمالی وزیرستان کے تمام علاقوں کو کلیئر نہیں
کر سکی ہے۔ دس لاکھ سے زائد بے گھر ہونے والے افراد بنوں اور خیبر پختونخوا
کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
البتہ ملک کی حکومت اور فوج نے بجا طور پر طالبان اور ان کے دیگر انتہا
پسند ساتھیوں کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ وہ بندوق کی نوک پر پاکستانی
حکومت کو اپنی شرائط ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اس طرح جون میں شروع کئے
جانے والا فوجی آپریشن درست اور بروقت اقدام تھا۔ اس آپریشن نے انتہا
پسندوں کی کمر توڑ دی ہے اور وہ ایسی محفوظ پناہ گاہوں سے محروم ہو چکے ہیں
جہاں وہ جرائم کرنے کے بعد روپوش ہو جاتے تھے۔آپریشن ضرب عضب کا انتقام
لینے کے نام پر مختللف انتہا پسند گروہ گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد
کارروائیاں کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ ان میں سے بعض مواقع پر انہیں کامیابی
بھی ہوئی ہے لیکن بہت سی صورتوں میں سکیورٹی فورسز نے ممکنہ تخریبی
کارروائیوں کو ناکام بنایا ہے۔ اس مستحسن اقدام کے لئے سکیورٹی فورسز کی
توصیف کرنا بھی ضروری ہے۔
ملک کے انتہا پسند قبائلی علاقوں سے فرار ہونے کے بعد ان مراکز پر منتقل ہو
سکتے ہیں جو شہری آبادیوں کے بیچ میں قائم کئے جاتے ہیں اور درپردہ وہ
انتہا پسندوں کی پناہ گاہ بنتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے
کہ ملک میں پولیو کے 20 فیصد واقعات کراچی میں رونما ہوئے ہیں۔ کراچی کی
متعدد آبادیوں میں پولیو ٹیموں پر حملے بھی ہوتے رہے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ
کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ تخریبی عناصر اب کراچی کے نواحی علاقوں میں
قوت پکڑ چکے ہیں۔ یہ صورتحال قبائلی علاقوں میں ان کی پناہ گاہوں سے زیادہ
خطرناک ہے۔ واہگہ کا دھماکہ ان اندیشوں کی تصدیق کرتا ہے کہ دہشت گرد منتشر
اور کمزور تو ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے ناپاک مقاصد سے دستبردار نہیں
ہوئے۔
بین الاقوامی میگرین میں شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ ان حالات
میں یہ بات بھی نظر انداز نہیں ہونی چاہئے کہ ملک میں انتہا پسندی میں
مصروف عناصر کو بیرونی طاقتوں سے امداد ملتی رہتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ غیر
ملکی ایجنڈے پر ملک میں انتشار پیدا کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔ معاشرے میں
فروغ پانے والے منفی رویے ایسی ملک دشمن قوتوں کی سرپرستی کا سبب بن رہے
ہیں۔اس ضمن میں طالبان اور عراق کی دہشت گرد تنظیم داعش کے درمیان رابطوں
کی خبروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ داعش ایک ایسا خطرناک اور
دہشت گرد گروہ ہے جو صرف انسانیت سوز قتل و غارتگری پر یقین رکھتا ہے۔ شام
اور عراق میں پاؤں جمانے اور وہاں مالی وسائل حاصل کرنے کے بعد یہ طالبان
جیسے گروہوں کے تعاون سے پاکستان میں دسترس حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پوری قوم ، افواج اور حکومت کو اس صورتحال میں چوکنا رہنے اور فوری مناسب
اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اہم ہے کہ انتہا پسند شام اور عراق نہ جا سکیں
اور اسی طرح داعش کے نمائندے کسی صورت پاکستان کے انتہا پسند گروہوں تک
رسائی حاصل نہ کریں۔ اس حوالے سے کسی قسم کا تساہل یا کمزوری کا مظاہرہ
خطرناک مضمرات کا حامل ہو گا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو تمام دہشت گردی کے واقعات سے نمٹانے کیلئے
تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی کارگردکی کی رپورٹ حاصل
کرنا ہو ں گی۔خصوصاّ محکمہ پولیس کے ملازمین کی جس سے دہشت گردی کے واقعات
پرکنٹرول کرنے میں مددملے گی۔ |
|