الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے
جارہ کردہ ووٹر لسٹ کے مطابق مذہبی اقلیت کے 28لاکھ ووٹ درج ہیں ، ان میں
سرفہرست ہندو برادری ہے جن کے چودہ لاکھ سے زائد ووٹ ہیں ۔ہندو برادری کے
نوے فیصد ووٹرز کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ ہندو
برادری کے پچانوے فیصد ووٹرز شیڈولڈ کاسٹ کے زمرے میں آتے ہیں جو کہ مزدور
اور کسان طبقے سے تعلق رکھتے اور ہندو دھرم کے ’ورن فلسفے ‘کے اعتبار سے
انہیں لوئر کاسٹ یا شوار کہا جاتا ہے ، تاریخی اعتبار سے یہ سندھ کے سب سے
قدیمی باشندے اور دراوڑ نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔میگواڑ ، کولہی ، بھیل اور
دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے سندھ کے ان اوائل اور قدیمی باشندوں کی
اکثریت کھیتی باڑی سے وابستہ رہی ہے اور سندھ کی زرعی معیشت میں ان کا اہم
کردار رہا ہے۔جاگیردارنہ نظام اور برہمن ازم کے ستائے ہوئے ان لوگوں کی
تاریخ مصائب مشکلات اور مسائل سے بھری ہوئی ہے۔قیام پاکستان کے وقت ان
لوگوں کے ایک خاندان نے بھی یہاں سے نقل مکانی نہیں کی بلکہ اپنی دھرتی سے
جڑے رہنے کا عزم کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی حمایت کی۔دراوڑں پر قلم
اٹھانے والے لکھاریوں کا کہنا ہے کہ کل یہ لوگ بر ہمن ازم کا شکار تھے اور
آج نام نہاد جاگیردارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔چونکہ ان لوگوں
کا تعلق سندھ کے دیہی علاقوں اور کھیتی باڑی سے ہے۔قیام پاکستان کے بعد
بانی پاکستان قائد اعظم نے ان کی جانب خصوصی توجہ دی اور پاکستان کے پہلے
وزیر قانون کا قلمدان ایک شیڈو لڈ کاسٹ رہنما جوگندھ ناتھ منڈل کو سونپا،
لیکن بعدازاں ملک میں جاگیر دارنہ نظام کو پروان چڑھاتے ہوئے اَپر کاسٹ
ہندو اشرافیہ کو اقتدار و ایوانوں میں لاکر شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں کو پیچھے
دھکیل دیا گیا۔ ان تما م حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شیڈولڈ کاسٹ کے لوگوں
نے ہمت نہیں ہاری ، محنت مزدوری کے ساتھ تعلیم کی طرف بھی توجہ دی ، آج
سینکڑوں ڈاکٹرز ، انجینئرزاور پروفیسرز کے علاوہ سی ایس ایس پاس کرنے والے
اعلی افسران بھی ہیں ، اس کے علاوہ سینکڑوں قلمکار ، صحافی، ادیب سندھ میں
جانے پہچانے جاتے ہیں جبکہ آج بھی ان کی اکثریت کھیتی باڑی اور مزدورں سے
منسلک رہتے ہوئے پسماندہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔سندھ کے تمام اضلاع میں یہ
لوگ بستے ہیں جبکہ تھرپارکر اور عمر کوٹ میں تمام ووٹرز میں شیڈولڈ کاسٹ
ووٹرز کی تعداد 45فیصد سے بھی زائد بتائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سندھ
کے تمام انتخابی حلقوں میں ان لوگوں کے ووٹ فیصلہ کن ہوتے ہیں، لیکن ستم
ظریفی یہ ہے کہ ان کی حالات زار بدلنے میں کسی کو بھی دلچسپی نہیں ہے اس
لئے برسوں سے یہ لوگ آواز اٹھاتے اور جدوجہد کرتے آئے ہیں کہ انھیں ایوانوں
میں نمائندگی دی جائے۔ گذشتہ الیکشن میں سندھ کے مختلف اضلاع خصوصا عمر کوٹ
، مٹھی ، میر پور خاص ، ماتل ، جھڈو ، ڈگری ، کوٹ غلام احمد ، حیدرآباد ،
سامارو،ٹنڈو الہ یار ، سانگھڑ،بدین ، ٹنڈو محمد خان اور میٹاری میں شیڈولڈ
کاسٹ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے پریس کلب کے سامنے مظاہرے اور بعض
جگہوں پر کیمپ قائم کئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے 95فیصد
ووٹرز کو نظر انداز کرکے اقلیتوں کیلئے قومی اسمبلی کی دس اور سندھ اسمبلی
کی 9نشستوں پر 99فیصد ٹکٹ اپر کاسٹ سرمایہ دار ہندوؤں کو دئیے ہیں ، یہاں
دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن 2013ء میں مختلف جنرل نشستوں پر بھی شیڈولڈ کاسٹ
سے تعلق رکھنے والے امیدوار سامنے آئے ہیں اس سلسلے میں ضلع عمر کوٹ سے دس
اور ضلع تھر پارکر سے 25امیدوار میدان میں تھے۔جن کا تعلق میگواڑ ، بھیل
اور کولہی قبائل سے ہے ۔شیڈولڈ کاسٹ برادریوں کے علاوہ دیگر ووٹرز ان تینوں
روایتی اور مورثی امیدوارن میں منقسم ہوگئے ہیں۔
تھرپارکر میں46فیصد اقلیتی ووٹر ہونے کے باوجود ارباب گروپ نے اقلیتوں کو
مکمل طور پر نظر انداز کیا ۔اس طویل تمہید کا مقصد یہ تھا کہ گذشتہ دنوں
پاکستان ہندو کونسل کی جانب سے قومی اسمبلی میں پاکستانی ہندؤوں کو زبردستی
مسلمان بنائے جانے کا متنازعہ الزام عائد کیا گیا اور متعدد بار یہ بھی کہا
جا چکا ہے کہ پاکستان سے ہندوؤں کی بڑی تعداد ہجرت کرکے بھارت جا چکی ہے
اور جا رہی ہے، جبکہ اصل حقائق اسکے برخلاف ہیں ، پاکستان میں ہندو برداری
کو خود اپنے اونچی نسل کے ہندومذہب سے تعلق رکھنے والوں کی وجہ سے شدید
پریشانی کا سامنا ہے۔بالا تفصیلات کا مقصد یہی ہے کہ ہم اس بات کو جان سکیں
کہ اونچی ذات کے حامل ہندو زشرافیہ کی جانب سے انھیں مسلسل تکالیف اور حق
تلفی سامنا ہوتا ہے کیونکہ سیاست میں بھی سیاسی جماعتیں کسی شیڈولڈ کاسٹ
ہندو کا نمائندہ بنانے کے بجائے اشرافیہ سے ہی ہندو نمائندہ منتخب کرتی ہے
جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے من مانے پروپیگنڈے کرکے پاکستان کی بد نامی کا
سبب بھی بنتے ہیں۔جبکہ سندھ میں ہندو برداری کے ساتھ نہ صرف حکومتی رویہ
بہتر ہے بلکہ عوام کی جانب سے بھی ہندو برداری کی جان و مال کا تحفظ کیا
جاتا ہے ، ورنہ بھارت میں جس طرح مسلمانوں کا جینا حرام کردیا گیا اور
انھیں وہاں چوتھے درجے کا شہری بھی نہیں مانا جاتا بلکہ اسلامی رسومات کو
تیغ و بالا کیا جاتا ہے ، زبردستی روزے کھلوائے جاتے ہیں ، اذانوں پر
پابندی عائد کی جاتی ہے ، جبکہ حال ہی میں بھارت کے ایک گورنر نے اعلان کیا
کہ گائے کو ذبیح کرنے والے بھارت کو چھوڑ دیں ، مسلم شہرت یافتہ شخصیات کو
مشہور علاقوں میں رہائش نہیں دی جاتی ، بلکہ اخبارات میں اشتہارات لگائے
جاتے ہیں کہ مسلمان رابطہ کرنے کی زحمت نہ کریں ، غرض یہ ہے کہ بھارت کی
انتہا پسند ہندو حکومت جس قسم کا جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اگر
پاکستان کے مسلمان اس ایک فیصد ردعمل بھی ظاہر کرتے تو پاکستان میں رہنے
والے ہندوؤں کیلئے کافی مشکلات پیدا ہوسکتیں تھیں ، جبکہ بعض لوگوں نے
پاکستان سے بھارت جاکر خود ساختہ مہاجر بننے کی کوشش کی ، رپورٹس کے مطابق
ان کے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتا اور انھیں بھارت سرکار کی
جانب سے پاکستانی جاسوس سمجھا جاتا ہے جس بنا ء پر پاکستان چھوڑ کر جانے
والے ہندوؤں کی بڑی تعداد پاکستان واپس بھی آچکی ہے ، باقی ہندو اشرافیہ کا
تجارتی طبقہ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آزادنہ کاروبار کرتا ہے ،
رہائش اختیار کرتا ہے کیونکہ ان کے رشتے دار وہاں پر ہیں اس لئے انھیں
انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ردعمل سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔زبردستی مسلمان
بنائے جانے واقعات میں مبالغہ آرائی کا عنصر زیادہ ہے ، جب اس قسم کے
واقعات پر عدلیہ نے نوٹس لیا تو مسلمان ہونے والی خواتین نے عدلیہ میں بیان
دیا کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئیں ہیں اور اپنی پسند کی شادی کی ہے جیسے
روکنے کیلئے ہندو اشرافیہ مذہبی جذبات میں اشتعال پیدا کرنا چاہ رہا ہے ،
یہی صورتحال بھارت میں بھی موجود ہے کہ وہاں مذہب کی تخصیص کے بغیر لاتعداد
مسلمان ، ہندوؤں سے اور ہندو ، مسلمانوں سے شادیاں کرلیتے ہیں ۔ اس بات سے
قطع نظر کہ اسلام میں اہل کتاب کے علا وہ کسی دوسرے مذہب میں مردوں کے
علاوہ کسی عورت کو بھی شادی کی اجازت نہیں ہے ، کراچی جیسے حساس شہر میں
متعدد جگہوں پر مندر اور مذہبی جگہیں موجود ہیں لیکن تمام تر متشدد رجحانات
کے باوجود کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہندو برادری کو کسی بھی مسلم جانب سے
پریشان کیاگیا ہو۔اندرون سندھ کا اپنا ایک کلچر ہے جس میں ایک غریب مسلم
ہاری بھی اپنے وڈیرے کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہے، اگر کسی شیڈولڈ کاسٹ
ہندو کو کسی بھی پریشانی کا سامنا ہے تو یہ صدیوں سے پروریش پانے والے کلچر
کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے لیکن اسلام ان باتوں کی اجازت نہیں دیتا ، ان تمام
تر الزامات کا مقصد صرف پاکستان کو دنیا میں بد نام کرنیکی سازش ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے ہندوؤں کی دیوالی میں سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان کرکے فراخ
دلی و مساوات کی اچھی مثال قائم کی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندؤ برادری
اپنے حقوق کیلئے اپنی ہی ذات ، کاسٹ سے اپنے نمائندہ منتخب کریں تاکہ ان کے
حقیقی مسائل سے پاکستان کی عوام بھی درست آگاہ ہوسکے اور بے بنیاد
پروپیگنڈوں سے غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا
کہ کسی فرد واحد کی جانب سے نا پسندیدہ عمل رونما ہوسکتا ہے لیکن اس حوالے
سے تمام مسلمانوں یا سلام کے خلاف ہزہ سرائی مناسب نہیں ہے ، اسلام کے نام
پر حاصل کئے گئے اس پاکستان میں مسلم سمیت تمام مذہبی اقلتیوں کو مساوی
حقوق دئیے گئے ہیں ، جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی سب سے بڑی عدلیہ کے
چیف جسٹس رہنے والے بھگوان داس ہیں اور مخصوص نشستوں پر منتخب کئے جانے
والے ہندو ، عیسائی ، وغیرہ ہیں ۔یہ پاکستان کی جانب سے نہیں بلکہ اسلامی
روا داری اور بھائی چارے کی مثالی مثال ہے ، ایسے چند عناصر اپنے ذاتی
مفادات کے لئے سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، لیکن اس عمل میں ہندو
برادری کو ازخود اپنی کاسٹ سے نمائندے منتخب کرنا ہونگے۔ |