انتہا پسندی

یوم عاشور تو خیریت سے گزر گیا،لیکن اس دن پیش آنے والے دو واقعات میرے دل ودماغ کو جھنجوڑ گئے،پہلا واقعہ مرید کے قبرستان میں پیش آیا دوسرا کوٹ رادھا کشن ،شیخو پورہ میں نمودار ہوا،قبر پہ مٹی ڈالنے کیلئے آنے والے خود ہی قبر میں پہنچ گئے دوسری جانب مبینہ گستاخ میاں بیوی کو زندہ جلا دیا گیا،یہ انتہا پسندی نہیں تو کیا ہے؟ اس کو ظلم کا نام دیں،معاشرتی بگاڑ کہیں یا کوئی اور عنوان دیں،معاشرے کو ذمہ دار ٹھہرائیں یا حکومت کو برا بھلا کہیں،کیا کریں،یتیم بچوں کے والدین تو واپس تو نہیں آئینگے نا!

انتہا پسندی ملک کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے ،اس انتہا پسندی کا پاکستان کو ایک دہائی سے سامنا ہے،پہلے مذہبی انتہا پسندی ملک کیلئے ناسور بنی ہوئی تھی کہ اب سیاسی انتہاپسندی سب سے بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے،امن و امان اور سلامتی کے معاملات پر اس کے نتائج بری طرح پڑ رہے ہیں،سیاسی قائدین ہی صرف اس کے ذمہ دار نہیں بلکہ میڈیا بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔

دانشوروں تک عدم برداشت کا شکار ہیں،معاشرے کو جنہوں نے محبت،امن کا درس دینا تھا وہی نفرتیں بانٹ رہے ہیں،وہی تقسیم در تقسیم کے در پہ ہے،سیاسی اداکار معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھا رہے ہیں،،کہیں مہاجر کی آوازیں آرہی ہیں،کہیں ’’نیا پاکستان‘‘تو کہیں ’’انقلاب‘‘کی بولی لگ رہی ہے،اندرون سندھ میں ’’روٹی،کپڑا اور مکان،، کی دکان سجی ہے،پنجاب میں ترقی کے نام پر’’لوہا ‘‘بک رہا ہے،کہیں کہیں سے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی بھی آواز ابھر رہی ہے،بلوچستان علیحدگی کے نام پرقتل ہورہا ہے،دہشتگرد ہیں تو وہ اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے موقع کی تاک میں رہتے ہیں،پاکستان تو نہ ہوا ’’انقلابستان‘‘ ہوا۔

پاکستان کے اس بحران زدہ سیاسی کلچر کو فرقوں کے درمیان امن اور ہم آہنگی، سیاسی اور سماجی اقدار کے ساتھ تباہ کر دیا ہے۔زیادہ تر سیاسی قیادت اور اداروں میں اعتماد کی کمی ہے. اس صورتحال میں بنیاد پرستی انتہا پسندی کو پنپنے کیلئے زرخیز زمین فراہم کرتی ہے،ظلم، انصاف اور سیاسی و اقتصادی عدم مساوات کی کمی جیسے عوامل ملک میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی طرف مضبوط کردار ادا کر رہے ہیں،پاکستانی ریاست اور معاشرہ کو مارجن پر وحشت اور نفرت کو ہوا دی گئی ہے ۔

اقتصادی، سماجی، سیاسی معاملات پرامن معاشروں کو تباہ کررہے ہیں، سیاسی، قانونی اور شہری مساوات نہیں ہوگی تو امن ناممکن ہے۔

ذلت، سیاسی شکایات اور موجودہ ثقافت یا سیاسی ڈھانچے کی خرابی کا احساس پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں انتہا پسندی کے پیچھے چھپے عوامل ہیں. بنیاد پرست دہشت گردوں کی حکمت عملی کا انتخاب ہیں. بنیاد پرستی - سیاسی مقاصد کے لئے طاقت کے استعمال - بیبسی، اخراج، وحشت اور مایوسی کے لئے معاوضہ کرنے کے لئے ایک طریقہ ہے. یہ انتہا پسندوں کی حیثیت کو بہتر بناتا ہے. اس طرح کی حیثیت کے اجزاء طاقت، استحقاق اور وقار ہیں۔

اسلامی قوم پرستی کو فروغ دینے میں اپنی تشویش کے حوالے سے، پاکستانی معاشرے بلاشبہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سماجی اور ثقافتی ثقافت کے عوامی عمل کی شرائط میں زیادہ قدامت پسند بن گیا ہے. ایک مخصوص فرقے کی طرف سے عمل کے طور پر اس سماجی تبدیلی مذہب کی سخت تشریح لیکن کسی کی بڑھتی ہوئی عدم برداشت presaged اگرچہ، یہ، سب سے زیادہ حصہ کے لئے، تشدد کے واقعات میں خود اظہار نہیں کیا.

عوام نے ہمیشہ سیاسی قیادت کے قومی ترقی اور سیاسی جماعتوں کے بلند و بالا دعوے میں ووٹ دیا،قائدین نے بے مثال بلندیوں تک قوم کو لینے کے لئے وعدہ کیا،کیا ترقی یافتہ بنا دیا؟ نہیں ناں،حکمران لیک بار پھر وعدے کرکے بھول گئے ہیں۔ملک اسی طرح اگ اور خون میں سلگ رہا،دیرپا حل کیلئے کوئی پالیسی نہیں،کوئی قانون کو ماننے کو تیار نہیں،جس کا جی چاہتا ہے گستاخی کا الزام لگا کر اپنے مخالفین کو موت کی وادی میں پہنچا دیتا ہے۔مرنے والا مر جاتا ہے لیکن یتیم بچوں کے بارے کوئی نہیں سوچتا کہ ان کا کیا حال ہوگا،ہم نے روش نہ بدلی تو لاشیں اٹھتی رہیں گی،بچے یتیم ہوتے رہیں گے۔۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68364 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.