میری ماں ۔ بے حد نفاست پسند اور سلیقہ مند
(Dr. Nasreen Shagufta, Karachi)
وراثت میں ملے گھر کسی کو، کسی
کے حصے میں دکان آئے
تمنا میری بس یہ ہے کہ میرے حصے میں ماں آئے
رمضان میں امی کے انتقال کو ایک سال ہو گیا۔مجھے یقین ہے کہ دنیا سے رخصت
ہونے کے بعد بھی مائیں اپنی اولاد کے لئے فکر مند اور دعا گورہتی ہیں اور
یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ امی اللہ کے حکم سے میری پریشا نی میں مدد کے
لئےآتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ خالق حقیقی میری پریشانی دور کر کے مجھے پر
سکون کرتا ہے۔
جمعہ ۱۴ جون ۲۰۱۳ء میرے لئے بڑا خوش نصیب دن تھا کہ حقیقت میں میرے حصہ میں
میری ماں آئی۔ دراصل امی کا قیام ان کے اکلوتے بیٹے کے ہاں تھا۔ امی نے ۸۵
سال کی عمر پائی۔ چند سالوں سے کمزوری بہت بڑھ گئی تھی۔آنکھوں سے کم نظر
آتا تھا۔ ایک دفعہ وہ چلتے ہوئے گھر میں گر گئیں۔ سر میں چوٹ آئی۔اندرونی
چوٹ کی وجہ سے معلوم نہیں ہوسکا کہ سر میں خون جم گیا ہے۔ ڈاکٹر سے چیک
کروایا تو اس نے ایکسرے کے بعد بتایا کہ ان کے سر کا آپریشن ہونا ہے۔ اگر
آپریشن نہیں کروایا تو یہ کومہ میں جا سکتی ہیں۔ لہذا ہم بھائی اور بہنوں
نے فیصلہ کیا کہ اللہ کا نام لے کر سرجری کروالی جائے۔ کمزور اتنا ہو چکی
تھیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آپریشن کے بعد ہوش میں آئیں گی
یا نہیں۔ان کو ہسپتال لے کر پہنچے۔ چونکہ ۲۹ مئی ۲۰۱۳ء کو میرے پیر کا
فریکچر ہو گیا تھااس وجہ سے میں ہسپتال نہ جا سکی۔ جسکا مجھے دلی افسوس
تھا۔امی کے لئے ہم سب نے قرآنی آیتیں، سورتیں اور دعائیں پڑھنی شروع
کردیں۔ اللہ کے فضل سے آپریشن کامیاب رہا وہ جلد ہی ہوش میں آگئیں۔۱۰
دنوں تک ہسپتال میں رہیں ڈاکٹرز نے انکی اچھی دیکھ بھال کی۔
میری اور میرے بچوں کی خواہش تھی کہ امی ہسپتال سے ہمارے گھر آئیں۔ بہت
امید کے ساتھ بھائی سے امی کو اپنے گھر لانے کی اجازت مانگی تو کہنے لگے کہ
آپ کی شدید خواہش اور محبت کو دیکھتے ہوئے میں اجازت دیتا ہوں کہ آپ امی
کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میرے بچے بھی نانی سے
بہت محبت کرتے تھے ان کی عید آگئی۔ میں نے امی کو اپنے پاس بلوالیا۔ میرے
پیر کے فریکچر کے باوجود وہیل چیئرپر امی کی خدمت اور خیال رکھنے کی کوشش
کرتی رہی۔ یہاں ایک افسوسناک خبر بتادوں کہ آپریشن کے بعد امی کی جو
معمولی سی بینائی تھی وہ بھی ختم ہو گئی، دیکھنے سے قاصر ہوگئی تھیں۔ لیکن
وہ بڑی بہادر اور حوصلہ مند خاتون تھٰیں انھوں نے کبھی مایوسی کااظہار نہیں
کیا کہ ان کو نظر نہیں آرہا اور وہ مشکل میں ہیں۔ اپنے ہاتھ سے کھانا
کھانا اور اپنے تمام کام خود ہی کرنے کی کوشش کرتیں۔ ان کی آخری سانس تک
میں، میرے بیٹے اور میری بہوئیں امی کی خدمت کرتے رہے۔ بھائی اور بہنیں بھی
وقتا فوقتا امی کی خدمت کے لئے آتے رہے اور کبھی رات کوبھی رک جاتے تھے۔
ماں کے جو قریب ہوتے ہیں
دشمن بھی ان کے حبیب ہوتے ہیں
ماں جن کے پاس ہوتی ہے
وہ لوگ کہاں غریب ہوتے ہیں
ماں جن کی زندہ ہوتی ہے
وہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں
والدہ محترمہ کی پیدائش انڈیا کے شہر علی گڑھ کی ہے۔ اپنے والد کے انتقال
کے دو مہینے بعد یتیم پیدا ہوئیں۔ سید گھرانے کی چشم و چراغ تھیں۔ دو بہنیں
اور دو بھائی تھے۔ امی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ گھر والوں
کی لاڈلی ہونے کے باوجود اچھے کردار کی مالک تھیں۔ اپنی ماں کا بھرپور خیال
رکھنا، گھر کے سارے کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتی تھیں۔ بڑوں کی
فرمانبرداری کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔ ہماری نانی نے اپنے بچوں کی
تعلیم و تربیت بہت محنت اور سلیقہ سے کی۔ امی کے والد کا پیشہ حکمت تھا۔
امی اور ان کی ہمشیرہ نے گھر پر ہی دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی۔ کیونکہ
انکے یہاں پردے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ بھائیوں نے تعلیم حاصل کرنے کے
بعد کاروبار کو نوکری پر ترجیح دی۔ تقسیم ہند کے وقت ۱۹۴۷ میں والدہ کا
خاندان پاکستان منتقل ہوگیا۔
میرے والد کا تعلق انڈیا کے شہر جے پور سے تھا۔ ان کا خاندان بھی تقسیم ھند
کے بعد ہی پاکستان آگیا تھا۔ دونوں خاندانوں نے کراچی میں ہی رہائش اختیار
کی۔ ابو کے دو بھائی اور پانچ بہنیں تھیں۔ اپنے ماں باپ کے سب سے بڑی اولاد
تھے۔ میرے والدین کی شادی کراچی میں ہوئی۔ ہم سب بھائی بہنوں کی پیدائش بھی
کراچی کی ہے۔ ہمارے گھر کا ماحول مذہبی اور تعلیم یافتہ تھا۔ والد فارسی
اور انگریزی کے ماہر تھے۔ مختلف اداروں میں ملازمت کی۔ کمشنر آفس میں خدمات
انجام دیں۔ اس کے بعد سوشل سیکریٹری پھر آخر میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کراچی
میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ابو کے مختلف شہروں میں
تبادلوں کی بنا پرہم نے کوئٹہ، لسبیلہ، اتھل، کشمیر، جہلم، میرپورخاص اور
فیصل آباد وغیرہ میں رہائش اختیار کی اور ان شہروں کو دیکھنے کا موقع ملا۔
۱۹۶۹ سے مستقل کراچی میں قیام پزیر ہیں۔
میرے والد ایماندار، مہنتی اور سچے انسان تھے۔ خاندان، محلہ اور ملازمت کے
دوران سب ہی جگہ بہت عزت اور محبت ملی۔ نماز کی پابندی کرتے اور ہمیں بھی
ہدایت دیتے۔ رمضان میں عبادت کا خاص اہتمام ہوتا۔ دوسرے اسلامی تہواروں پر
دعوتوں اور ایصال ثواب کے ساتھ ساتھ قرآن خوانی اور محفل میلاد کا گھر پر
ہی انتظام کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گھر میں خیروبرکت تھی۔ زکوۃ
کی ہمیشہ پابندی کی۔ صدقہ خیرات اور خاموشی کے ساتھ غریبوں کی امداد کا
خیال رکھا۔ حج کی ادائیگی اپنی اہلیہ کے ساتھ وقت پر کی۔ خوشحال اور پرسکون
زندگی گزاری۔ ۲۸ اگست ۱۹۹۷ میں ۷۴ سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ کراچی میں
مدفون ہیں۔
میری ماں علی گڑھ کے ایک مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ کیونکہ ان کے
بھائی کاروبار کرتے تھے، اس لیے گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ امی
شادی ہو کر جس گھرانے میں گئیں وہاں گورنمنٹ کی ملازمت کے سبب کم تنخواہ
میں گزارہ کرنا اور گھر چلانا کوئی آسان بات نہ تھی۔ لیکن سلیقہ اور
سگھڑاپے سےتمام معاملات لے کر چلیں۔ کفایت شعاری کو اپنا شیوہ بنایا۔ بچت
بھی کرتیں تاکہ اولاد کی پڑھائی اور شادیوں پر اخراجات کو بحسن و خوبی نبٹا
سکیں۔ ابو اپنی پوری تنخواہ امی کے ہاتھ پر رکھ دیتے تھے۔ ان کو معلوم تھا
کہ فضول خرچی کی عادت نہیں۔ شادی کے چند سال بعد ہی ناظم آباد میں ذمین
خرید کر گھر بنوا لیا۔ ہم بھائی بہنوں نے کبھی گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں
دیکھی۔ پرورش دیکھ بھال اور خدمت اس طرح کی کہ کسی کو کبھی شکایت کا موقع
نہیں ملا۔ خیروبرکت کی وجہ سے پھل، میوہ اور کھانے پینے کی تمام اشیاء کی
فراوانی تھی۔ ضرورت کی ہر چیز موجود تھی کہ محلے اور خاندان والے چیزیں اور
قرضہ مانگنے آتے تھے۔ امی کی ڈکشنری میں انسانوں سے مانگنے کا لفظ نہیں
لکھا۔ کبھی کسی سے ادھار یا قرض نہیں مانگا۔ اللہکا شکر ہے کہ یہی خوبیاں
امی کی اولاد میں موجود ہیں۔
کوئی پوچھے دنیا کی بہتریں خاتون کون ہیں تو میرا جواب ہوگا "میری ماں"۔
دنیا میں آنے کے بعد اللہ کا نام سیکھنے کے ساتھ ہی ماں پکارنا سب سے پہلے
سیکھتا ہے۔ ماں کا نعمل بدل کوئی نہیں۔
پوچھتا ہے جب کوئی دنیا میں محبت ہے کہاں؟
مسکرا دیتی ہوں میں اور یاد آجاتی ہے ماں
ہر ماں اپنی تمام اولاد سے یکساں محبت کرتی ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا
تھا کہ امی سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی ہیں۔ میرا خیال رکھنا، بیمار
ہوجاؤں تو تیمار داری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی تھیں۔ امی کی گود میں
سر رکھ کر ایسا لگتا جیسے ساری تکلیف ختم ہوگئی۔
ذرا سی چوٹ لگے،تووہ آنسو بہا دیتی ہے
اپنی سکون بھری گود میں ہم کو سلا دیتی ہے
کرتے ہیں خفا ہم جب،توچٹکی میں بھلا دیتی ہے
ہوتے ہیں خفا جب ہم،تودنیا کو بھلا دیتی ہے
مت گستاخی کرنا لوگو! اس ماں سے کیونکہ
جب وہ چھوڑ کے جاتی ہے،تو کبھی لوٹ کے نہیں آتی
میری شادی کے بعد امی اپنے گھر میں میری پسند کا کھانا پکا تیں تو میرے
لئےضرور رکھتیں اور میری منتظر رہتیں۔ میں امی کی سب سے زیادہ فرمانبردار
اولاد تھی۔ میں نے کبھی کسی بات پر ضد نہیں کی،امی کی خواہشات کو اپنی ہر
خواہش پر مقدم رکھا۔ اپنے بڑوں، شوہر اور سسرال والوں کی عزت کی، یہی وجہ
ہے کہ آج تک سسرال میں میری عزت ہے۔
میں بہت خوش ہوں کہ اس ماں کی بیٹی ہوں۔ میں نے ان کی فرمانبرداری میں بہت
کامیاب زندگی گزاری اور اب بھی ماشاءاللہ بہت پرسکون زندگی گزار رہی ہوں۔
کبھی کسی معاملہ میں پریشان نہیں ہوتی کیونکہ ہر معاملہ اللہ کی رضا سے
ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا میں راضی ہونے والے بندے پر اس کا خاص کرم ہوتا ہے۔
امی نے اولاد کو اساتذہ کی عزت کرنے اور حکم ماننے کی تاکید کی۔ میں نے
ہمیشہ اپنے بڑوں کی عزت کا خیال رکھا یہی وجہ ہے کہ میری اولاد بھی میرے
ساتھ عزت اور حسن سلوک سے پیش آتی ہے۔ میری دعائیں ہر وقت ان کے ساتھ ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اللہ انکو کبھی مشکل میں نہیں ڈالے گا، انشاءاللہ۔
ماں کی مہارت فقط یہ نہیں کہ وہ اچھی خدمت کرے بلکہ اس کی اصل مہارت یہ ہے
کہ ایک اچھا بچہ تربیت کرے،ایک اچھا انسان بنانا ماں کا اصل ہنر ہے۔ یہ
خوبی امی میں تھی، اسی لئے انکی اولاد اپنے اپنے کردار کو نیک نیتی سے
نبھارہی ہے۔ ہم بہنوں کی شادیوں پر رخصتی کے وقت امی کی نصیحت ہوتی تھی کہ
سسرال جا کر اپنے شوہر اور ساس کو خوش رکھنا، ان کی عزت اور خدمت کرنا۔
کبھی بھی اپنے شوہراور ساس کو ناراض کرکے میرے گھر آئیں تو میرے گھر کا
دروازہ تمہارے لئے نہیں کھلے گا۔ لڑکی جب رخصت ہو کر سسرال جاتی ہے تو وہاں
بہت مختلف ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ماں کی تربیت اور نصیحت کی
وجہ سے ہم بہنوں نے کبھی بھی اپنی امی کو مایوس نہیں کیا جسکا انکو فخرتھا۔
ماں نے محبت اور خلوص سے خاندان کے ہر فرد کا دل جیت رکھا تھا اللہ تعالٰی
نے اپنے فضل سے دنیا کی ہر نعمت سے خوب مالامال کیا۔ ماں کا وجود ہم اولاد
کے لئے گھنی چھاوں کی مانند تھا۔
امی نفاست پسند اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ کشادہ پیشانی، گول اور مسکراتا
چہرہ، گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں،نفیس اور صاف ستھرا لباس، درمیانہ قد اور
باوقار شخصیت کی مالک تھیں۔اپنے خاندان کے افراد، شوہر اور بچوں کا خاص
خیال رکھتیں۔ کوئی بھی بیمار ہو جائے تو بھرپور تیمارداری کرتیں۔ سب کے لئے
اور خصوصی طور پر اولاد کی تکلیف اور پریشانی میں اللہ سے دعائیں کرتیں۔
اترنے نہیں دیتی مجھ پر کوئی آفت
میری ماں کی دعائوں نے آسمان کو روک رکھا ہے
سر کے آپریشن کے بعد امی تیزی سے صحتیابی کی طرف لوٹ آئیں تھیں۔ سوچا بھی
نہ تھا کہ اتنی جلدی دنیا سے رخصت ہو جائیں گی۔ جولائی ۲۰۱۳ء اور رمضان کا
مہینہ ہے ۲۰ جولائی سے طبیت ناساز ہونا شروع ہوئی۔ ڈاکٹر کو بلایا اس نے
ہسپتال میں چیک اپ کراوانے کو کہا، ڈاکٹر نے دوائیاں لکھ کر دیں۔ دوائیاں
استعمال کرانے کے باوجود امی کی طبیعت نہیں سنبھلی، تیزی کے ساتھ کمزوری
بڑھتی گئی۔ شاید آخری وقت آگیا تھا۔۲۴ جولائی سے کھانا حلق سے نہیں اتر
رہا تھا۔ غذا کی نلکی لگادی گئی۔اس کے ذریعہ جوس اور دودھ دیا جانے لگا۔
کمزوری کیوجہ سے بیٹھ نہیں سکتی تھیں۔ ۲۵ جولائی کو سانس بھی صحیح نہیں چل
رہی تھی۔ ۲۶ جولائی ۱۶ رمضان جمعہ کی صبح میں سحری کرنے کے بعد حسب معمول
امی کے کمرہ میں گئی تو دیکھا کہ جو غذا نلکی کے ذریعہ دی تھی وہ قے کے
ذریعہ باہر آگئی۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے انکے کپڑوں اور بستر کی صفائی کی۔
صبح ساڑھے چھ بجے کا وقت ہے۔ سانس اکھڑنی شروع ہو گئی تھی۔ مجھے محسوس ہوا
انکا آخری وقت آگیا ہے۔ بھائی بہنوں کو فون کیا۔ میرے بیٹے اور بہوویں
میرے ساتھ موجود تھے۔ میں امی کے سرہانے کھڑی تھی۔ امی کا سر سہلا رہی تھی
کہ اچانک ۷ بجے امی کی سانس چلنا بند ہو گئی۔ میری نظروں کے سامنے میرے
ہاتھوں میں امی نے دم توڑ دیا۔ انالللہ وانا الیہ راجعون۔امی اس دنیا سے
رخصت ہوگئیں۔ ہم بہنوں نے اپنے ہاتھوں سے غسل دیا، کفن پہنایا۔ بھائی نے
خواہش ظاہر کی کہ میت انکے گھر سے اٹھائی جائے۔ میں نے بھائی کی خواہش کا
احترام کیا۔ ان سے کہا کہ سب رشتہ داروں کو اطلاع کرو تاکہ وہ تمہارے گھر
پہنچیں۔ان کے بیٹھنے کا انتظام کرو۔ جمعہ کی نماز سے قبل میں امی کی میت لے
کر تمہارے گھر پہنچ جائونگی۔ بیٹوں سے کہا کہ قبر کی تیاری کرو۔ قریب کے دو
تین قبرستان دیکھے سب سے بہتر سی او ڈی کا قبرستان لگا۔ ساڑھے بارہ بجے ھم
بہنیں امی کو لے کر بھائی کے گھر پہنچ گئے۔ عزیز اوررشتہ دار پہنچنا شروع
ہوچکے تھے۔ مسجد قریب ہی تھی۔ جمعہ کی نماز میں نماز جنازہ پڑھائی گئی۔
میرے گھر کے قریب سی او ڈی کے قبرستان تک امی نے آخری سفر کیا اور اس دنیا
سے رخصت ہو گئیں۔ لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ ذندہ رہیں گی۔ دعاء ہے کہ اللہ
رب العزت انھیں جنت الفردوس کے اعلی درجات میں جگہ دے۔ آمین۔ |
|