تحریر۔۔۔مشی ملک
انیس سو اٹھاسی میں پولیو نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دنیا بھر کے
بیشتر ممالک اس بیماری سے محفوظ نہ رہ سکے۔ 1988ء میں دنیا کے تقریباََ
125ممالک پولیو کی لپیٹ میں آئے اور ان 125ممالک میں پولیو متاثرین کی
تعداد ساڑھے تین لاکھ ریکارڈ کی گئی، جس نے تمام دنیا کو ہلا کررکھ
دیا۔مناسب اقدامات کی مدد سے یورپ اور امریکہ نے 1980ء کی دہائی میں پھیلنے
والی اس بیماری کو اپنے ممالک میں جڑ سے ہی ختم کردیا۔ اس مرض کے خلاف اتنا
بہتر انداز میں کام کیا گیا کہ 2011ء میں دنیا بھر میں پولیو کیسز کی تعداد
ساڑھے چار سو رہ گئی۔ بنگلہ دیش پولیو فری ملک بن چکا ہے، بھارت میں پچھلے
چند سالوں میں پولیو کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔ مگر بد قسمتی سے
پاکستان میں اس بیماری پر قابو نہیں پایا جاسکا اور رواں سال میں پولیو
کیسز کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ فاٹا اور پہاڑی
علاقوں میں یہ مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
پولیو، جسے بچوں کا فالج بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک وائرل انفیکشن ہوتا ہے جس
سے جسم کا ایک حصہ ساکت ہوجاتا ہے اور اسکی گروتھ رک جاتی ہے۔ اس مرض کی
وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔ یہ وائرس انسان کے خون میں شامل
ہوجاتا ہے اور قوّتِ مدافعت کو بری طرح متاثر کرتا ہے جسکی وجہ سے انسان
اعصابی کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔
پولیو کی کئی اقسام ہیں لیکن زیادہ تر اس میں جسم کے کسی بھی حصے کا ساکت
ہوجانا ، ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں رواں برس اس بیماری نے
پہلے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ BBCکی ایک رپورٹ کے مطابق مئی2014ء میں
67نئے پولیو کے کیسز سامنے آئے اور پھر یہ تعداد بڑھتی گئی۔ جولائی2014ء
میں مزید 91پولیو کیسز رپورٹ ہوئے اور نومبر میں یہ تعداد 231تک پہنچ گئی۔
حکومتِ پاکستان نے بیشمار پولیو مہم شروع کیں لیکن پاکستان کے پسماندہ
علاقوں میں لوگوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطروں سے محروم رکھا۔ ان میں
پہاڑی علاقے، فاٹا اور وزیرستان کے علاقے سرِفہرست ہیں۔اسکے علاوہ
دہشتگردوں کی جانب سے پولیو ٹیمز پر قاتلانہ حملے بھی بڑی تعداد میں کیے
جاتے ہیں ۔ اسکی بڑی وجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا نام جعلی پولیو ٹیم کے ساتھ
منسلک ہونا ہے۔ بن لادن کیس میں جعلی انسدادِ پولیو ٹیم کی وجہ سے قبائلی
علاقوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور عوام انسدادِ پولیو ٹیمز اور پولیو
ویکسین کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں عموماََ یہ تاثر پایا
جاتا ہے کہ اس پولیو ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ وہ
لوگ پولیو ویکسین اپنے بچوں کو پلانا گناہ سمجھتے ہیں۔ اسکی بڑی وجہ بعض
انتہاء پسند گروہوں کی جانب سے دیا گیا یہ فتویٰ ہے کہ پولیو ویکسین کے
ذریعے مسلمانوں کی آبادی کو کم کیا جارہا ہے اور پولیو ویکسین پلانا گناہ
ہے ۔ اس کی وجہ سے قبائلی عوام پولیو ویکسین اور انسدادِ پولیو ٹیمز سے
متنفّر ہوگئے۔ پاکستان کے دیگر اکثر علاقوں میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ
اسلام کے دشمن کچھ این جی اوز کا سہارا لیکر بچوں کو پولیو ویکسین پلاکر
مسلمانوں کی نسل کشی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ فرسودہ اور زنگ زدہ
خیالات کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے بچوں کو پولیو ویکسین نہیں پلاتے اور
انتہاپسند گروپ انسدادِ پولیو ٹیمز کو ٹارگٹ کرکے مار رہے ہیں اور انہیں
ڈرایا دھمکایا بھی جارہا ہے۔ ان سب کی وجہ سے پولیو مہم بری طرح سے متاثر
ہورہی ہے اور پولیو ورکرز ڈر کے مارے اپنے فرائض سرانجام نہیں دے پارہے۔
اسکی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پولیو کے
بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پاکستان کو سفری پابندیوں کا سامنا بھی کرنا
پڑرہا ہے۔
حکومتِ پاکستان کو پولیو کے مکمل خاتمے اور انسدادِ پولیو ٹیمز کی مکمل
سکیوریٹی کا عزم و بندوبست کرنا ہوگا۔ جن علاقوں میں یہ بیماری تیزی سے
پھیل رہی ہے، وہاں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ تمام پاکستانیوں کو
بھی حکومتِ پاکستان کی انسدادِ پولیو مہم کا ساتھ دینا ہوگا اور ایک ایک
ایسے پاکستان کی تصویر دنیا کو دکھانی ہوگی جس میں پولیو کا کوئی بھی دھبہ
نہیں ہوگا۔ انشاء اﷲ |