امریکہ کیجانب سے انکی انتہائی حساس محکمے
کی رکن رابن رافیل پر جاسوسی کے الزامات کے تحت سیکورٹی کلیئر نس واپسی
لینے کے علاوہ ان کے آفس و گھر کی تلاشی لینے کی خبر میڈیا میں شائع ہوئی ۔
ان خاتون کو جنھیں پاکستان دوست سفیر کیا جاتا ہے ، ان کی شہرت کی ایک وجہ
ان کی ایک نام کی عرفیت بھی ہے انھیں ’لیڈی طالبان‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ
تو ثابت ہوچکا ہے کہ مغرب میں اسلام کے خلاف جتنے بھی پروپیگنڈے کئے جاتے
ہیں اس کے منفی اثرات کے بجائے مثبت نتائج ہی نکلتے ہیں، غیر مسلم، اسلام
سے متعلق کتابوں اور خاص کر قرآن کریم کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں اگر انھیں
عربی یا تراجم کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے تو خود عربی زبان
سیکھ کر لغات کے ذریعے قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ
امریکہ میں سب سے زیادہ خریدی جانے والی کتاب مقدس ’قرآن کریم ‘ ہے اور نو
مسلموں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر اس بات کی توقع کی جا رہی ہے اگر یہی
صورتحال رہی تو بہت جلد امریکہ میں اسلام کے ماننے والوں کا دوسرا نمبر
آجائے گا۔ انشا اﷲ ، چونکہ قرآن کریم کسی خاص نسل یا ملک کیلئے نہیں اتارا
گیا بلکہ رحمت العالمین ﷺ کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کیلئے ایسے ذریعہ
نجات بنا کر بھیجا ہے، ۔اب اصل بات یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی حقیقی
تشریح اور ان کی روحانی اصلاح کی ذمے داری کن پر عائد ہوتی ہے ؟۔ بد قسمتی
سے اسلام کے نام اس کے نام لیواؤں نے اس قدر ڈر و خوف پیدا کردیا ہے کہ
اسلام جو خود امن و سلامتی کا عظیم پیغامبر ہے ، اس کی روح قرآن کریم سے ہم
خود دور ہوتے چلے گئے اور قرآن کریم کو خوبصورت جزدانوں میں سجا کر رکھنے ،
ایصال ثواب کیلئے ، تعویز گنڈے اور کسی انسان کی جان بہ لب ہے تو اس کی جلد
آسانی موت کیلئے پڑھنے کی حد تک محدود کردیا ہے ، شادیوں میں قرآن سروں پر
رکھ کر ساز و سازندوں میں رخصتی کی رسم بن گیا ہے ، ( استغفر اﷲ ) ہم سب نے
حضورر اکرم ﷺ کی اس شکوے کو فراموش کردیا کہ یوم جزا جب ایک گروہ گذرے گا
تو نبی اکرم ﷺ شکوہ فرمائیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنھوں نے قرآن کو چھوڑ دیا
تھا ۔ اب ان حالات میں جب فرقوں ، مسالک اور خود ساختہ فتوؤں کے ذریعے
اسلام کے تشخص کو پامال کرنے میں ہم مسلمانوں کا سب سے نمایاں حصہ ہے تو
اگر دنیا بھر میں مختلف ممالک میں شدت پسندی کی لہر اگر دوچند ہوتی جا رہی
ہے تو پھر اس میں قصور معاشرے کا نہیں بلکہ اس تربیت کا ہے جو آنے والی نئی
نسلوں کو دی جا رہی ہے ۔رابن رافیل لیڈی طالبان ہے یا نہیں ہے اس پر کسی
قسم کی بحث نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ امریکہ کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے
مقاصد کیلئے ایسی متنازعہ شخصیات پیدا کرتا رہتا ہے جو اس کے مذموم مقاصد
کو ہمدردی اسلام کے نام پر پورا کرتے رہتے ہیں۔دراصل یہ مغرب کا رویہ ہی ہے
اس نے اپنی صلیبی پالیسوں کے تحت مسلم امت کیخلاف ایک محاذ کھول کر رکھا
ہوا ہے۔ نوجوان نسل میں نفرت کے آتش فشاں کو بھڑکانے میں خود مغربی استعمار
کی غلطیوں کا زیادہ حصہ ہے۔ کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کو مبینہ طور
پر ہلاک کردیا گیا ، سول سوسائٹی سمیت تقریبا ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے
اسکی شدید الفاظوں میں مذمت کی پنجاب حکومت نے اس خاندان کو پچاس لاکھ روپے
بھی دئیے اور ان کے بچوں کی کفالت بھی سرکاری خزانے پر رکھ دی ۔لیکن دیکھنا
یہ ہے کہ یہ روش عوام میں پیدا کیوں ہوتی ہے کہ وہ بغیر تحقیق و ثبوت کسی
کا بھی گھر جلا دیں ، کسی کے بیان پر اس کے قتل کے فتوی جاری کردیں ، اس کے
سر پر کروڑوں روپے انعام رکھ دیں ، بلا شبہ امت مسلمہ کو نبی اکرم ﷺ سے
دیوانگی کی حد تک محبت ہے ، لیکن ان کی اس ظاہری نمود و نمائش والی محبت
میں حضور ﷺ کی تعلیمات کا عکس نہیں دکھائی دیتا ، میرے نزدیک اس کی اہم وجہ
تعلیم کی کمی اور اسلام کو مختلف فرقوں و مسالک کی رنگین عینک سے دیکھنا ہے
، کیا کسی نے اس بات پر غور کیا کہ اسلام کا سب سے مقدس مہینہ رمضان
المبارک ، عید الفطر ہمیشہ سے مسالک کی بھینٹ چڑھتا جارہا ہے ، پوری دنیا
میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عیدین ، روزے ایک ہی دن رکھے گئے ہوں ، اسلام کا
واحد ایک مہینہ ہے جو پوری دنیا میں ایک ساتھ منایا جاتا ہے ، محرم الحرام
کے چاند پر کبھی نا اتفاقی دیکھنے میں نہیں آئی ، امریکہ ہو ، کہ ایران ،
افغانستان ہو کہ پاکستان ، متحدہ امارات ہو یا پھر سعودیہ ، یہ واحد چاند
ہے جو ہمیشہ ایک ہی دن پوری دنیا میں دیکھا جاتا ہے۔ہم نے مذہب اور دین
اسلام کو اپنی خواہشات کے تابع رکھا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امت واحدہ کو
تصور اور اسلام کا آفاقی پیغام غیر مسلم ممالک تک پوری دیانت سے نہیں پہنچا
یاجاتا ۔ ان ہی مباحث کی وجہ سے نوجوان نسل کا ذہن تحقیق اور پھر اپنے
پیشرو کے حکم پر ہر وہ حکم ماننے کو تیار ہو جاتا ہے ، جس کا اسلام نے حکم
نہیں دیا ہوتا لیکن ایسے اسلام کے نام پر خوب صورت لبادے میں اوڑھ کر نوجون
نسل کے اذہان کو برین واش کردیا جاتا ہے، مغرب اور یورپ سے کم عمر خواتین
کی بڑی تعداد جہاد کی جانب راغب ہوئی اور فرقہ وارنہ خانہ جنگی کا حصہ بن
کر شام اور پھر عراق پہنچی ،یورپ پریشان کہ اس مسئلے کا حل کیسے نکالا
جاسکے گا ، انھوں نے اس کا واحد توڑ یہ نکالنے کی کوشش کی مسلم ممالک میں
فرقہ واریت کو اس قدر ہوا دی جائے کہ مسلم ممالک آپس میں دست و گریبان
ہوجائیں۔اس کی یہ کوشش کامیاب رہی ، اور ہم نے اپنی ملکی سیاست میں بھی یہ
مناظر دیکھے کہ خود کش دھماکوں کیلئے جہاں نوعمر بچیوں کا استعمال کیا گیا
تو جلسے جلسوں میں بھی خواتین کی نمایش کرکے اپنے جلسوں کو ماڈرن اورسیکولر
ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔مذہبی انتہا پسندی جنوبی ایشیا کیلئے ایک اہم
مسئلہ بن چکی ہے ، گو کہ نام نہاد جموریت تو ہے لیکن اسکی آڑ میں جو
اقدامات کئے جاتے ہیں وہ انتقامی ردعمل کا سبب بنتے ہیں۔ تاجک وزرات داخلہ
کے ترجمان جلال الدین صدر الدینوف نے انکشاف کیا کہ تاجک خواتین کی ایک
نامعلوم تعداد کو شام اور افغانستان میں لڑنے کیلئے دیگر جہادیوں کا ساتھ
دینے کیلئے منتقل کیا گیا ہے ہماری حکومت چاہتی ہے کہ وہ لوٹ آئے۔مذہبی
اشتعال انگیزی صرف پاکستان کی حد تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کی
صورتحال کا اجمالی جائزہ لیں تو یہ معاملات سامنے آئیں گے کہ افغانستان کے
طالبان ، امریکہ کے جانے کا انتظار میں ہے اور اس کی ہمنوا تنظیمیں بارود
کے ڈھیر پر قائم حکومت پر غیر یقنی مستقبل کے خطرے کی طرح مسلسل تلوار کی
طرح لٹک رہی ہے ۔جب غیر مسلم ممالک میں مذہبی جنونیت دیکھتے ہیں تو نیپال
کو بادشاہت کی آزادی کے بعد ہندو انتہا پسند جماعتیں ہندو اسٹیٹ بنانے
کیلئے کوشاں ہیں ، سری لنکا میں عدم تشدد کے پیروکار بددھا مذہب کے ماننے
والوں نے مسلمانوں کے قتل و غارت اور ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ رہایش
گاہوں میں جنونیت کا طوفان برپا کیاہوا ہے ، برما کی حکومت نے روہنگیا کے
سینکڑوں مسلمانوں کو مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ
جاری اور ان مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ، بنگلہ دیش میں مذہبی
تنظیمیں جڑ پکڑ رہی ہیں جنھیں سیاسی انتقام کے طور پھانسیوں اور طویل
سزائیں دیں جارہی ہیں ۔، حال ہی میں بھارت کی شاہی مسجد کے امام پر دہشت
گردی کے واقعے میں بنگلہ دیش کا ملوث ہونا ، ایک بڑی سازش کی نشان دہی کرتا
ہے۔بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت ہونے کا دعوی کرتا ہے ،
لیکن وہاں انتہا پسند حکو مت قائم ہے ، لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا
چکا ہے ، بابری مسجد کے نام پر ہزاروں مسلمانوں کو بھیڑ بکری کی ذبیح کردیا
گیا جبکہ سکھ مذہب ماننے والوں کیساتھ بھی اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جو
مذہبی جنونیت کے واقعات ہوئے وہ بھی قال غور ہے۔کشمیر میں مسلمانوں کیساتھ
، فلسطین ، شام ، عراق ، بوسینا ، جزائر ، شمالی و جنوبی افریقہ ۔ آسٹریلیا
، جرمنی ، نارو ے ،برطانیہ ، نائن الیون کے بعد امریکہ میں جتنا بھی
مسلمانوں کا قتل عام ہوا یہ سب مذہبی جنونیت ہی تو ہے ، جس کا ردعمل امریکہ
ڈرون اٹیک یا ممالک پر قبضے کے ذریعے کرتا ہے اسی طرح اپنے ملک میں جارحیت
کے نام پر جہاں مرد ، ایک فلسفے کو پناکر شدت پسند بن جاتے ہیں تو خواتین
بھی ان کے شانہ بہ شانہ ہوتیں ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل مغرب کے پاس ہے کہ
وہ اسلام کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دے اور اپنی معیشت کو چلانے کیلئے
ہتھیاروں کی فروخت میں کمی کرکے وہی سرمایہ ، تعلیم پر خرچ کرے ، انسنای
شعور ، جتنا اسلام دیتا ہے اس کا عشر عشیر بھی کوئی حاضرہ لادین مذہب نہیں
دے سکتا ۔لیڈی طالبان مستقبل میں عالمی امن کیلئے نائیڑوجن بم سے بھی زیادہ
مہلک ہے۔ فیصلہ عالمی استعماری قوتوں کو کرنا ہے۔ کوٹ رادھا کشن کا واقعہ
اسی خلفشار کا نتیجہ ہے جس کا ذمے دار امریکہ اور امریکہ نواز قوتیں ہیں جن
کی مذہبی جنونیت نے انتشا ر پیدا کیا۔ |