بنوں راشن کیمپ میں بدنظمی....انتظامیہ کی نااہلی بے نقاب

شمالی وزیرستان میں پانچ ماہ قبل شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے دس لاکھ پاکستانی شہریوں نے بے گھر ہو کر بنوں اور صوبے کے دیگر اضلاع میں پناہ لے رکھی ہے۔ متاثرین آپریشن روز اول سے انتہائی مشکلات و مسائل سے بھرپور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صوبائی و وفاقی حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے مسلسل انہیں نظر انداز کیا گیا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ پہلے انہیں کئی ماہ شدید گرمی کی حالت میں بے یارومددگار گزارنا پڑے تھے اور جب سے سردیوں کا آغاز ہوا ہے، ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ متاثرین کے مطابق پہلے تو حکومتی سطح پر ان کی کچھ بہتر طریقے سے امداد کی جا رہی تھی اور اب ان کی امداد میں کمی بھی واقع ہوئی ہے اور دی جانے والی امداد درست طریقے سے بھی تقسیم نہیں کی جارہی ہے۔ مبصرین کے مطابق امداد کی تقسیم کے حوالے سے انتظامیہ پر متاثرین کے عدم اعتماد کو انتظامیہ کی نااہلی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کے پی کے کی صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کا واضح ثبوت گزشتہ روز اس وقت سامنے آیا جب انتظامیہ آئی ڈی پیز میں راشن کی درست طریقے سے تقسیم کرنے میں ناکام ہو گئی اور پولیس نے ملک کی سلامتی کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ نے والے آئی ڈی پیز پر لاٹھی چارج ، شیلنگ اور پتھراﺅ کیا۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز بنوں کے اسپورٹس کمپلیکس میں متاثرین شمالی وزیرستان کے درمیان راشن کی تقسیم کے موقع پر پولیس نے ہوائی فائرنگ کی، جس کے باعث بھگدڑ مچ گئی۔ ذرائع کے مطابق بدنظمی پر ہنگامہ آرائی، فائرنگ شیلنگ، لاٹھی چارج اور پتھراﺅ سے پولیس اہلکاروں اور صحافیوں سمیت 45 افراد زخمی ہو گئے، جبکہ نجی ٹی وی کے مطابق پولیس نے 150 افراد کو گرفتار بھی کیا ہے، بعض میڈیا ذرائع کے مطابق پولیس کی فائرنگ سے دو افراد جاں بحق بھی ہوئے ہیں۔ گرفتار کیے گئے مظاہرین کو بنوں کے مختلف تھانہ جات میں منتقل کر دیا۔ پولیس کے رویے کے خلاف متاثرین نے احتجاجاً بنوں کوہاٹ روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کیا تو پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی، جس کے نتیجے میں متاثرین مشتعل ہوگئے اور انہوں نے راشن سینٹر میں خیموں کو آگ لگا دی۔ مظاہرین نے الزام لگایا ہے کہ راشن سینٹر کے گیٹ پر مامور پولیس اہلکار اور انتظامیہ فی کس ایک ہزار روپے رشوت لے کر بندوں کو راشن سینٹر کے اندر لے جا رہی تھی، جبکہ ہم 36گھنٹوں سے بھوکے اور پیاسے قطاروں میں کھڑے انتظار کر رہے تھے، جس پر ہم نے احتجاجاً بنوں کوہاٹ روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کیا۔ جبکہ ایڈیشنل ایس پی بنوں ریاض کا کہنا ہے کہ پہلے متاثرین نے راشن سینٹر کے اندر زبردستی گھسنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے صبر اور تحمل سے کام لیتے ہوئے متاثرین کو قطاروں میں کھڑے ہونے کی تلقین کی، لیکن جب مظاہرین نے پولیس پر پتھراﺅ کیا اور وہاں پر لگائے شیڈ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو پولیس کو مجبوراً مظاہرین پر شلینگ اور لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے سپورٹس کمپلیکس تقریباً ایک گھنٹہ میدان کارزار بنا رہا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بنوں میں آئی ڈی پیزمیں راشن کی تقسیم کے دوران بدنظمی اورآئی ڈپی پیز پر پولیس کی فائرنگ انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ آئی ڈی پیز قبائلی علاقوں میںجاری آپریشن کے باعث پہلے ہی اپنے گھروں سے دربدرہیں اور کیمپوں میں رہنے پر مجبورہیں، جنہیں انسانی ہمدردی اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہے، لیکن ان متاثرہ خاندانوں میں راشن کی تقسیم کے دوران جس قسم کا تشدد اور ظالمانہ سلوک کیا گیا ہے، وہ قابل مذمت ہے۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت آئی ڈی پیز کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی تو انہیں ظلم وتشدد کا نشانہ بنا کر ان کے زخموں پر نمک پاشی بھی نہ کرے۔ آئی ڈی پیز پر فائرنگ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ آئی ڈی پیز میں راشن اور امداد کی تقسیم شفاف اور بہتر انداز سے کرے، متاثرین انتظامیہ پر رشوت لینے کے الزامات لگا رہے ہیں، جو انتہائی شرمناک بات ہے۔ حکومت کو ایسی تمام کالی بھیڑوں کو سزا دینی چاہیے، جو آئی ڈی پیز کو ان کا حق بھی رشوت لے کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ انتظامیہ کو یہ بھی چاہیے کہ امداد کی بہتر تقسیم کے لیے زیادہ راشن پوئنٹس قائم کرے، کیونکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں پہلے راشن پوائنٹس کی تعداد زیادہ تھی، لیکن اب انتظامیہ کی جانب سے کچھ عرصہ سے ان کی تعداد کم کر دی گئی ہے، جس سے اکثر اوقات بدنظمی ہو جاتی ہے اور آئی ڈی پیز کو امداد حاصل کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے قطار میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے دس لاکھ آئی ڈی پیز میں اپنے علاقوں میں مال و دولت اور بڑے بڑے کاروبار والے ہیں، قطار میں کھڑے ہوکر راشن حاصل کرنے کا تو انہوں نے کبھی سوچا تک نہیں ہو گا، متاثرین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے علاقوں میں دوسروں کو امداد دیتے تھے اور جب اس قسم کے باعزت افراد کو ذلیل کر کے امداد دی جائے گی تو یقینا ان کو غصہ تو آئے گا، جس سے وہ مشتعل بھی ہوں گے۔ انہوں نے ملک کی سلامتی کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی، لیکن ہماری حکومتیں ان کے ساتھ انتہائی قابل مذمت رویہ اپنائے ہوئے ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے بنوں میں آئی ڈی پیز پر تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ڈی پیز پاکستان کے دفاع کی خاطر اپنا گھر چھوڑ کر قربانی دے رہے ہیں۔ انتظامیہ آئی ڈی پیز کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کے مسائل کو فوری طور پر حل کرے۔ جبکہ بنوں میں راشن تقسیم کے دوران پولیس کی جانب سے آئی ڈی پیز پر ہونے والے تشدد کی جے یو آئی ف، پی پی پی، اے این پی اور دیگر جماعتوں کے رہنماﺅں نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پی کے حکومت متاثرین شمالی وزیرستان کو سہولیات فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ بنوں میں بے گھر مہاجرین پر پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے تشدد انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ اس ظلم و تشدد پر پاکستان کا ہر شہری افسردہ اور دکھی ہے۔ خیبر پختوانخوا حکومت نے راشن کے حصول کے لیے جمع ہونے والے پاکستان کے محسنوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے۔ اے این پی کے ترجمان سینیٹر زاہد خان نے کہا ہے پاکستان کو بچانے والے اور اپنا گھر بار چھوڑنے والے آئی ڈی پیز پر وحشیانہ تشدد سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔ پختونوں کو کس دشمنی کی سزا دی جارہی ہے؟ رہائشی علاقوں میں امن و امان قائم رکھنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آئی ڈی پیز پر تشدد سے عمران خان کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔ وفاق اور صوبہ اپنا قبلہ درست کرلیں۔ ورنہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور ہوجائیں گے۔ عمران خان کے ایماندار آئی جی کا چہرہ قوم کے سامنے آگیا ہے۔ متاثرین کہہ رہے ہیں کہ پولیس رشوت لے رہی ہے۔ مزید براں عوامی نیشنل پارٹی نے بنوں واقعہ کے خلاف سینیٹ میں تحریک التوا جمع کرانے کا اعلان بھی کیا۔ جبکہ گرینڈ قبائلی جرگہ 22 نومبر کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا ہے۔ جرگے میں قبائلیوں کے سیاسی مستقبل، آئی ڈی پیز کے مسائل پر بات ہو گی۔ جے یو آئی جرگے میں سہولت کار کا کردار ادا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق سردی شروع ہونے کے بعد سے آئی ڈی پیز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ سردی کی وجہ سے آئی ڈی پیز طرح طرح کی بیماریوں کاشکار ہو رہے ہیں۔ آئی ڈی پیز کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان سے جب وہ لوگ نقل مکانی کرکے آرہے تھے تو ان کو کہا گیا تھا کہ ایک ماہ بعد ان کی واپسی ہوگی، اسی وجہ سے وہ تمام سامان وہاں چھوڑ آئے تھے، اب جبکہ کئی مہینے گزرگئے ہیں اور سردی کی شدت میں بھی مزید اضافہ ہوگیا تو ان کو سردی کے کپڑے تک نہیں دیے گئے۔ جس کی وجہ سے ان کی خواتین اور بچے بیمار ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ڈاکٹرز کی کمی اور ادویات کی سہولیات بھی نہ کافی ہیں۔ حکومت واپسی کو فوری یقینی بنائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے آئی ڈی پیز کے مسائل فوری حل کرے اور ان کی فوری واپسی کا انتظام کرے، جب تک ان کی واپسی ممکن نہیں ہوتی اس وقت تک ان کی امداد بہتر طریقے سے کی جائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.