بس عمران و قادری کا یہی تو شکوہ ہے ....؟؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
آخر کب حکمران،سیاستدان اور عوام
اپنے خودداری پیداکریں گے....؟؟؟
پچھلے دِنوں اسلام آباد کے علاقے ریڈزون میں مُلک میں رائج موجودہ سسٹم کے
خلاف طاہرالقادری اور عمران خان کاجو دھرناایک ساتھ شروع ہواتھا پھرساٹھ ،
ستر دن گزارکرطاہرالقادری کچھ سیاسی مصلحتوں اور حکمتوں کی بناپراپنا
دھرناسمیٹ کرچلے گئے مگرآج پونے تین یا تین ماہ کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی
اپنے پہلے روزوالے مقام پر عمران خان کا دھرناجاری ہے،اور اَب تو عمران خان
نے 30نومبر کو دھرنے سے حکمران الوقت کے ساتھ آخری معرکہ کرنے اور اِس سے
حتمی نتائج حاصل کرنے کے لئے بھی اپنی تیاریاں زورو شعو سے شروع کردی ہیں
یہ ٹھیک ہے کہ اگر مقررہ تاریخ سے قبل حکومت نے کوئی سیاسی اور انتقامی
شعبدے بازی نہ کی توقوی اُمیدہے کہ تیس نومبرکو کوئی نہ کوئی تبدیلی....؟؟
یا حقیقی معنوں میں گونواز، گو کے نعروں کے ساتھ ہی کسی نئے پاکستان کی
جانب مُلک گامزن بھی ہوجائے گا ۔
بہرحال ...!آج آپ کی طرح مجھے بھی 30نومبرکا شدت سے انتظار ہے ،کہ مُلک میں
مقررہ تاریخ سے قبل یا بعدمیں کیا کیا ہونے والا ہے....؟ خیر...!!اپنی اگلی
باتیں کرنے سے پہلے میں یہ عرض کرتاچلوں کہ آج میں نہ تو عمران کا ہوں اور
نہ ہی طاہر القادری کا حامی ہوں.... اور نہ ہی میں یا میراقلم حکومت یااِس
کے کسی کارندے کے خریدے ہوئے ہیں ... اِلیکن پھر بھی میں اتناضرورکہوں گاکہ
آج اِن دونوں(عمران اور قادری) میں جو باتیں مشترک پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں
کہ اِنہوں نے میری طرح کڑوروں پاکستانیوں کے سامنے اپنے ماضی اور حال کے
حکمرانوں اور سیاستدانوں کے مفادپرست چہروں اور رویوں بے نقاب کرکے رکھ
دیاہے اور آج قوم کو اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے متعلق بہت کچھ سوچنے
اور اِنہیں سمجھنے پر ضرورمجبورکردیاہے۔
جبکہ آ ج یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کا حکمرانوں اور
سیاستدانوں سے کوئی ذاتی جھگڑانہیں ہے بس عمران وقادری کا اپنے حکمرانوں
اور سیاستدانوں سے ایک یہی تو شکوہ ہے کہ پہلے ہمارے حکمران اور سیاستدان
اغیارکے ٹکڑوں پر ترقی کے دعوے کرناچھوڑدیں اور اپنے اندرخودداری کا جذبہ
بیدارکرلیں تو اِن کی پیچھے چلنی اور ہر معاملے میں دوقدم آگے بڑھ کر لبیک
کہنے والی ہماری پاکستانی قوم میں بھی خودبخودخودداری اور خودمختاری کا
جذبہ پیداہوکر بیدارہوجائے گااِس پر دونوں کایہ کہنا ہے کہ مگراِس کے اولین
شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے اندارجذبہ خودداری
پیداکریں اور اپنے زورِ بازوؤں پر اوراپنے مُلکی وسائل پربھروسہ کریں ....ا
تو مُلک میں حقیقی معنوں میں ترقی وخوشحالی کا دوردورہ شروع ہوجائے گا، اور
اِسی کے ساتھ ہی عمران اور قادری کا اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے یہ
بھی سوال ہے کہ آخراَب کب تک ہمارے حکمران ، سیاستدان اور عوام امریکا،
برطانیہ، چین اور سعودی عرب سمیت دیگرممالک کی خوشامدیں کرکے اِمدادلے کر
مُلک میں ترقی اور خوشحالی کے دعوے کرتے رہیں گے .... ؟کب تک ہم قرضوں کے
بوجھ کے ناسور تلے دبے رہیں گے ...؟اوراَب کب ہمیں اِمداداور بخشی ہوئی
بھیک سے نجات ملے گی....؟ اور اِسی کے ساتھ ہی اِن کا یہ کہنابھی سوفیصدی
درست ہے کہ مُلک کو اﷲ تعالی نے تمام قدرتی معدنی وسائل سے مالاکیا ہواہے،
مگر افسوس ہے کہ ہمارے حکمران، سیاستدان اور عوام اِنہیں بروئے کارلانے کے
بجائے ، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاکر کبھی امدادتو کبھی بخشش اور
اکثراوقات ڈبل سے زائد سود کی ادائیگیوں کے عوض ملنے والے قرضوں پر ہی
گزارہ کرنااپنی خوش بختی کی علامت سمجھنے لگے ہیں اور خودکو اغیارکے ہاتھوں
کھلونابناکر پیش کرنے کو اپنی بھلائی گرداننے لگے ہیں۔
اَب ایسے میں ساری پاکستانی قوم کو عمران اورطاہرالقادری کے خیالات اور
مطالبات سمجھنے چاہئیں اور اِن پر کسی بھی محبِ وطن پاکستانی کو(خواہ
حکمران ہوں یا سیاستدان ، بیوروکریٹس ہوں کہ عوام ) ناراض ہوکر آگ بگولہ
ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے بس عمران اور طاہرالقادری کی سیدھی اور صاف
سُتھری سی تو بات ہے کہ پہلے اپنے مُلکی وسائل کو استعمال میں لایاجائے اور
اگر ضرورت پڑے تو پھر بحالتِ مجبوری قرضوں اور امدادوں کے لئے دوستوں اور
دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلایاجائے تو بات کچھ سمجھ میں آتی ہے اپنے مُلکی
وسائل کو استعمال میں لائے بغیر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاسوائے اپنی
ناکامی اور فقیری اور مفلسی کے اور کچھ نہیں ہے۔
یہاں مجھے حاتم طائی کا ایک مشورہ واقعہ یادآگیاہے،جسے میں نے حضرت شیخ
سعدی ؒ کی کتاب حکایاتِ گُلستانِ سعدی میں پڑھاتھااِس واقعے کے ذہن میں آتے
ہی مجھے ایسالگاکہ آج اگرمیں نے یہ واقعہ بیان کردیاتو ممکن ہے کہ ہمارے
لوگوں (حکمرانوں ، سیاستدانوں اور بہت سے اداروں کے سربراہان اور عوام )کی
بھی آنکھیں کھل جائیں اور اِن میں خودداری کا جذبہ بیدارہوجائے جو ہماری
68سالہ مُلکی تاریخ میں گزرنے والی حکومتوں اورہمارے موجوہ حکمرانوں اور
سیاستدانوں کی فطرت اور خصلت کو جھنجھوڑ کررکھ دے میں چاہتاہوں کہ اُسے
اپنے پڑھنے والوں کے لئے قِرطاس پربیان کرتاچلوں واقعہ کچھ یوں ہے کہ کسی
نے مشہورزمانہ سخی حاتم طائی سے پوچھا:۔
’’تم نے دُنیامیں اپنے آپ سے بھی زیادہ کسی کو سخی پایاہے‘‘ پہلے تو حاتم
طائی بہت سٹپٹایاپھر اِدھراُدھربغلیں جھانکتے ہوئے بولا...اورجواب دیا:۔
’’ہاں ایک لکڑہارے کو میں نے اپنے سے زیادہ سخی پایاہے، ایک بارمیں نے اپنے
مہمانوں کے لئے چالیس اُونٹ ذبح کئے یہ ایک دعوتِ عام تھی ، جوآتاپیٹ بھر
کے کھاتاجاتاتھا، اِسی روز میں کسی کام سے جنگل کی طرف گیاتو ایک لکڑہارے
کو دِکھاجو خشک لکڑیاں اکٹھی کررہاتھا،میں نے اُس سے کہاکہ’’ اے بھائی...!!
تو آج یہ مشقت کیوں کررہاہے...؟حاتم کے گھرچلے جاؤ،وہاں تمہیں کئی اقسام کے
لذیز کھانے، کھانے کو ملیں گے، ‘‘اِس کے بعد حاتم طائی کہتاہے کہ ’’لکڑہارے
نے پہلے تو میری ساری باتیں بڑی غوروفکر کے ساتھ سُنیں اور پھر اِس کے
بعداِس نے بڑی بے پروائی سے جو جواب دیا‘‘ وہ کچھ یوں ہے لکڑہارے نے کہا کہ
’’جوشخص اپنی محنت سے روزی کماسکتاہووہ حاتم طائی کا ممنون کیوں ہو‘‘حاتم
طائی کہتاہے کہ میں اُس لکڑہارے کے جواب سے بہت کچھ سمجھ گیااور مجھے اپنی
سخاوت اور اپنی بادشاہت بھی کم معلوم دینے لگی۔
جبکہ اپنی اِس حکایت میں حضرت شیخ سعدیؒ نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ اِنسان
کو خوددارہوناچاہئے اور جوشخص اپنی محنت مزدوری سے روزی کماسکتاہے اور قدرت
کے دیئے ہوئے وسائل سے اپنے زورِ بازوفائدہ اٹھاسکتاہے تواِسے کسی کی سخاوت
سے سروکارنہیں ہوناچاہئے‘‘ آج میرے مُلک کے ناسمجھوں(حکمرانوں، سیاستدانوں،
بہت سے اہم اداروں کے سربراہان اور عوام ) کو یہ بات سمجھنی چاہئے اور جو
سمجھ گئے ہیں اُنہیں بھی چاہئے کہ یہ 30نومبرآنے سے پہلے متحد و منظم
ہوجائیں اور ناسمجھوں کو اچھی طرح سے یہ نکتہ سمجھائیں کہ آ ج ہم سب کی
بھلائی اِسی میں ہے کہ ہم لکڑہارے کی طرح اپنی محنت سے اپنے وسائل کو بروئے
کار لائیں اور اپنی ضرورتوں کو پوراکریں ہمیں کسی کی سخاوت سے سروکارنہیں
ہوناچاہئے‘‘ اور اِس کے بعد اُن کو بھی دھرنوں والے یہ بات سمجھائیں کہ یہ
خالی خولی اپنی ناکامی اور خصلت کا الزام دھرنوں والوں پہ یہ کہہ کر نہ
ڈالیں کہ دھرنوں کی وجہ سے مُلکی معیشت کا ستیاناس ہواہے بلکہ ٹھنڈے دل سے
یہ بات تسلیم کرلیں کہ 68سالوں کے دوران جس کسی کی بھی مُلک پر حکمرانی رہی
مُلکی معیشت کوستیاناس کرنے کے بھی یہی لوگ ذمہ دار رہے ہیں اور آج اِن
لوگوں کا یہ کہنابڑاہی مضحکہ خیز لگتاہے کہ ’’ دھرنوں سے پاکستان کو جکڑنے
کی کوشش ناکام ہوگئی‘‘۔بلکہ اَب توموجودہ حالات میں ایسے لوگوں کو یہ بات
سمجھ آجانی چاہئے کہ دھرنوں نے ہی پیٹرولیم منصوعات کی قیمتیں کم کروانے
میں اہم رول اداکیا ہے اور یہی دھرنے تو ہیں جنہوں نے مُلکی معیشت کو قرضوں
سے پاک کرکے استحکام بخشنے میں اہم رول اداکیاہے اگر آج خشکی اورپانی
پر(جیساکہ پچھلے ہی دِنوں سمندرمیں کیماڑی کراچی سے منوڑہ اور سمندر سے
متصل علاقوں کو جانے والی پرائیویٹ لانچوں (کشتیوں) کے مالکان نے اپنے
مطالبات منوانے کے لئے اپنی کشتیوں سمیت کئی گھنٹوں تک سمندر میں
دھرنادیاجس سے سمندر میں کافی دیرتک آمدورفت بندرہی اور جب اِن کے مطالبات
تسلیم کرلئے گئے تو دھرناختم کردیاگیا)اور اَب اِسی طرح ہمارے یہاں کسی بھی
ہوابازی کے ادارے کے ملازمین اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے کسی بھی دن اور
وقت ہوامیں دھرنا دے دیں کیوں کہ اَب خشکی اور پانی پر دھرنوں کے بعدہوامیں
دھرنادیناباقی رہ گیاہے میں یہ بات اِس لئے کہہ رہاہوں کہ آج ہمارے مُلک
میں جیسی دھرنوں کی سیاست چل نکلنی ایساتو ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی
ہوابازی کا ادارہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہوامیں اپنے مزدوروں اور
جہازوں کے ساتھ دھرنادے ڈالے ۔
اگرچہ ہمارے یہاں جیسی دھرنوں کی سیاست شروع ہوچکی ہے اگریہ نہ شروع ہوئی
ہوتی تو حکمرانوں ، سیاستدانوں اور دوسرے اداروں(بالخصوص وزارتِ پیٹرولیم
اور وزراتِ پانی و بجلی کے محکموں) کی آنکھوں پر چڑھی سیاہ پٹی بھی نہ ہٹتی
اورآج جیسا مُلک ترقی اور خوشحالی کی جانب ذراساکھِسک رہاہے وہ بھی نہ
کھِسک پاتا..... ایسے میں دھرنوں کوبُرابھلااور دھرنے دینے والوں پر
تنقیدیں کرنے والے پہلے اپنے اپنے کردادوں پر بھی نظریں ڈالیں پھر دھرنوں
اور دھرنے والوں کو کچھ کہیں |
|