دیر سے سمجھ میں آتی ہے

پچھلے دنوں موبائل پر ایک دلچسپ لطیفہ کسی نے ارسال کیا ۔وہ لطیفہ پڑھ کر میں یہ سوچنے لگا کہ بعض اوقات ایسے لطیفے آجاتے ہیں جو موجودہ سیاسی حالات کی عکاسی کرتے ہیں یا پھریہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست ہی ایک لطیفہ بن کر رہ گئی ہو۔ایک سکھ ڈاکٹر کے پاس ایک مریض آیا اس کی ایک ٹانگ نیلی ہو رہی تھی ڈاکٹر نے کہا اس میں زہر بھر گیا ہے اس ٹانگ کو کاٹنا پڑے گا ،چنانچہ ٹانگ کاٹ دی گئی ۔کچھ دن بعد وہ مریض پھر آیا کہ اس کی دوسری ٹانگ بھی نیلی ہو گئی ،ڈاکٹر نے وہ ٹانگ بھی کاٹ کر مصنوعی ٹانگ اسی طرح لگادی جیسے پہلے والی لگائی تھی ۔تھوڑے دن بعد وہ مریض پھر آیا کہ اس کی مصنوعی ٹانگ بھی نیلی پڑرہی ہے ۔سکھ ڈاکٹر پریشان ہو گیا اور کچھ سوچنے لگا پھر اس نے اچانک سر اٹھاکر کہا ۔۔افوہ:اب اصل بات سمجھ میں آئی ہے کہ تم نے جو نیلے رنگ کی دھوتی پہن رکھی ہے اس کا رنگ کچا ہے تم دھوتی بدل لو ٹانگ کا نیلا پن ختم ہو جائے گا ۔

جب عمران خان نے حکومت سے او ر عدلیہ سمیت دیگر تمام متعلقہ اداروں سے یہ پر زور اپیل کی کہ صرف چار نشستوں پر انگوٹھوں کے نشانات چیک کر لیے جائیں اگر اس میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو اس انتخاب کو کا لعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں اس وقت تو استعفے کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا ۔لیکن اس وقت ہم نے ان مطالبات کی ٹانگ کاٹ کے رکھ دیا ۔پھر جب وقت نکل گیا اور دھرنوں نے حکمرانوں کے اعصاب کو شل کرنا شروع کر دیا تو پھر کہا گیا کہ ہم بیس سیٹوں پر تحقیقات کرنے کے لیے تیار ہیں بعد میں یہ بات حکمرانوں کے سمجھ میں آئی کہ واقعتاَ 2013کے انتخاب میں کچھ ہوا ہے لیکن بات تو آگے جا چکی تھی ۔اسحق ڈار کی قیادت میں جو ٹیم حکومت کی طرف سے مذاکرات کررہی تھی اس نے کئی بار یہ بیان دیا کے ہم چھ میں سے پانچ مطالبات ماننے کے لیے تیار ہیں ۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی یہ ضد اختیار کر لی کہ پہلے نواز شریف استعفا دیں پھر دیگر مطالبات پر بات ہوگی ۔سیاست کی دنیا میں سخت موقف اختیار کرنا اس حوالے سے تو ٹھیک ہے کہ امکانات کی اس دنیا کو جتنا زیادہ فتح کرلیا جائے وہ بہتر ہے یا یوں سمجھ لیں کہ کسی معاملے پر سخت موقف اپنی سودے کاری کی پوزیشن کو زیادہ مضبوط بنانے کے لیے بھی اختیار کیا جاتا ہے ۔اس کی بہترین مثال 1977میں پاکستان قومی اتحاد کی ہے کہ ایک طرف تو اس نے بھٹو کے خلاف ایسی فضاء بنائی کہ گلیوں اور چوراہوں میں بھٹو کے سر کا مطالبہ کیا جانے لگا اور "گنجے کے سر پہ ہل چلے گا اور گنجا سر کے بل چلے گا "جیسے نعرے لگ رہے تھے تو دوسری طرف پی این اے نے اپنے اسٹیج سے بھٹو کے استعفے کا مطالبہ بڑی شدت سے اٹھایا اور جو دلیل آج عمران خان دے رہے ہیں کہ کہ وہ نوازشریف کا استعفا اس لیے مانگ رہے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے دوبارہ انتخاب پھر ایسے ہی ہوں گے جیسے 2013 میں ہوئے تھے۔اس وقت قومی اتحاد نے بھی یہی بات کہا تھا ہم نے دھاندلی والے الیکشن کے خلاف تحریک چلائی ہے کہ اس الیکشن میں بھٹو صاحب نے منظم طریقے سے دھانلی کرائی اور اپنے مخالف امیدوار جناب جان محمد عباسی صاحب کو اغوا کروایا تو پھر اگر اسی بھٹو کے ہوتے ہوئے دوبارہ انتخاب ہوں گے تو وہ کس طرح شفاف انتخاب ہو سکیں گے ۔لیکن جب مذاکرات کی میز بچھائی گئی تو قومی اتحاد کو اپنے استعفے والے مطالبے سے دستبردار ہونا پڑا ،جب کے پہلے بھی مولانا مودودی سمیت ملک کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقے بھٹو کے استعفے کی مخالفت کررہے تھے اس سے ملک میں انارکی پھیل جانے کا اندیشہ ہے ۔جب کے قومی اتحاد کے رہنما اس مطالبے سے اس لیے دستبردار نہیں ہوئے کہ وہ اس کو ایک پریشر لیور کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے ۔چنانچہ اسی کے نتیجے میں بھٹو صاحب دوسرے الیکشن کرانے پر تیار ہوئے تھے ۔ہر مہم کا ایک کلائیمکس ہوتا ہے اس کے بعد اس میں میں کمی آنے لگتی ہے ۔عمران خان نے استعفے کی جو ضد اپنائی اس کے نتیجے میں ملک کی سیاست میں معیشت میں ڈیڈلاک پیدا ہوا ۔معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں ملک کے کئی سنجیدہ لوگوں نے انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی وہ استعفے والے مطالبے پر نظرثانی کریں ۔جناب سراج ا لحق کی قیادت میں جو سیاسی جرگہ تشکیل پایا اس نے بھی اس حوالے سے بہت کوششیں کیں لیکن اس جرگہ کی بھی بات نہیں مانی گئی ۔اب شاید بہت وقت گزر جانے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ استعفے کے آپشن کو شرط اول کے طور پر نہ رکھا جائے ۔بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق عمران خان کا یہ فیصلہ دستیاب سیاسی صورتحال میں امید کی ایک کرن ہے اور امید ہے کہ حکومتی حلقے اس کو اپنی سیاسی فتح نہیں سمجھیں گے اور ملک میں جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے لیے فوری طور سے مذاکرات شروع کرنے کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے اسے دوبارہ قائم کریں گے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.