پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں
مگر اٹھارہ کروڑ ہجوم کے ملک میں اگر کمی ہے تو ایماندار قیادت کی کمی ہے۔
اس ملک کے مقدر و ترقی کو چاٹ گئی دو طرح کی آمریت ۔ ایک فوجی آمریت دوم
جمہوری آمریت ۔ جمہوری آمریت نے چند خاندانوں کو تو مالا مال کردیا مگر
عوام کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا۔ جو تھوڑی بہت کمی تھی وہ نیم
دانشوروں نے پوری کردی جو بضد ہیں کہ ترقی موجودہ نظام کے تسلسل میں ہے ۔
لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ موجودہ نظام کو سو سال بھی اگر چلنے دیا جائے
تو ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جائے گا۔ اور آج سے ٹھیک سو سال بعد
میرا پڑپوتا ٹی وی پر دیکھے گا کہ جاوید چوہدری صاحب کا پڑپوتا سوال کررہا
ہوگا کہ ١٦٦ سال گذرنے کے باوجود ملک کے حالات کیوں نہ بدل سکے تو
قمرالزمان کائرہ کا پڑپوتا جواب دے گا کہ بلاشبہ سسٹم میں بیشمار خرابیاں
ہیں بہتری کی ضرورت ہے اور بہتری نظام کے تسلسل سے آئے گی۔ عقل وخرد سے
عاری دانشور اور لیڈروں کے مزارعے سیاستدان یہ نہیں جانتے کہ خود بخود کیسے
سسٹم میں محض تسلسل سے بہتری آجائے گی ۔ جب تک بہتری لائیں گئے نہیں آئے گی
کیسے ؟ اور یہ بہتری قیامت کی صبح تک نہیں لائیں گے۔ انکے پیٹ و مفاد اور
خاندانوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔
جب دین جاہلوں کے سپرد کردیا جائے تو لوگ جلائے جاتے ہیں مذہب کے نام پر،
اور جب حکومت نااہلوں کے حوالے ہو تو لوگ بھوکے مرتے ہیں قحط سے کرسچن کے
جلائے جانے کا بہت دکھ مگر اسکی آڑ میں کوئی میرے مذہب کو نہ بھونکے۔ میرا
نبی تو کافر کی بیٹی کے سر پہ اپنی چادر ڈالتا تھا ہم نے دین اور سیاست
نااہل لوگوں کے حوالے کررکھے ہیں نالائق بچوں کو جب مدرسوں میں بھیجیں گئے
رزلٹ ایسا ہی آئے گا۔ جسے دیکھو دین کے خلاف بولتا ہے میرا آپ سب سے سوال
ہے ہے کہ آپ نے کیا دیا آجتک دین کے لئیے ۔ دس روپے چندہ دیتے وقت تو کئی
دفعہ چیک کرتا ہے کہ نوٹ ڈبل تو نہیں مگر صحابہ نے اس دین کی خاطر بیٹے زبح
کروائے ۔ ہمارا رویہ کیا ہے ؟ جو لائق بچہ ہوتا ہے اسے سکول بھیجتے ہیں اور
شومئی قسمت سے جو بچہ معذور یا ذہنی کمزور ہوتا ہے اسے مدرسے بھیج دیتے ہیں
اور شکوہ کرتے ہیں کہ علماء معیاری نہیں ہیں ہمیں رویہ بدلنا ہوگا اپنے
ذہین بچوں کو بھی دین کی معیاری تعلیم دلوانی ہوگی تاکہ آنے والے کل کو
بہترین علماء قوم کی راہنمائی کرسکیں۔
امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی الله عنہ مدینہ کی گلی میں چل رہے تھے
آپکے سامنے ایک خاتون آئی اور اسنے کہا کہ اے عمر میں تیری رعایا ہوں میں
مفلس اور مفلوک الحال ہوں میری مدد کر۔ آپ نے اسکی حاجت پوری کردی مگر آپکی
نظر اس عورت کے گلے میں پڑی صلیب پر پڑی تو آپ نے اسکو دین کی دعوت دی اور
کہا اسلام قبول کرلو وہ خاتون جواب دیے بغیر چلی گئی۔ اسکے جانے کے بعد آپ
کو احساس ہوا کہ میں نے غلط کیا آپ الله سے توبہ کرنے لگے اور رونے لگے
اتنے میں حضرت علی رضی الله عنہ آگئے اور آپ نے حضرت علی کو واقعہ سنایا
اور کہا اے علی دیکھ میں نے کیسی حرکت کردی چند سکوں کے عوض خاتون کو مذہب
بدلنے کا کہہ دیا وہ کیا سوچے گی الله مجھے معاف کرے۔ حضرت علی رضی الله
عنہ نے آپکو تسلی دی اور کہا آپ کی نیت بری نہ تھی اور انماالاعمال
باالنییات ۔ عملوں کا دارومدار نیت پر ہے۔
خدارا اسلام کو سمجھیں نہ کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کریں اور نہ کسی
سے اسکے مذہب کیوجہ سے نفرت کریں اور نہ کسی کو ظلم وستم کا نشانہ بنائیں ۔
دمشق میں ایک مسلمان نے ایک کرسچن کو قتل کردیا ۔ گورنر دمشق نے حضرت عمر
سے خط لکھ کر دریافت کیا اور پوچھا کیا کیا جائے۔ حضرت عمر نے قصاص کی آیت
کے ساتھ لکھ بھیجا کہ کرسچن کے قتل کرنے پر مسلمان کو قتل کرو تاکہ آئندہ
کسی کو قتل کرنے کی جرات نہ ہو ۔ اب آئیے پنچاب میں اگر کرسچن کو جلانے پر
حکومت سخت ایکشن لیتی تو آئے روز یہ واقعات رونما نہ ہوتے ۔
ملاں نے فساد فی الارض اور خودکش دھماکوں کو جہاد کا نام دے رکھا ہے اور
اسے خدمت دین گردانتے ہیں ۔ جہلا جبہ ودستار پہن کر دین کے عالم بن بیٹھے
جبکہ سیاست کا حال بھی ملتا جلتا ہے ، پاکستان کو برباد کرنے میں جمہوریت
کے ٹھیکداروں اور عدل کے علمبرداروں کا کردار ہے۔ چور اور کتی نے ملکر ملک
سے واردات کی. پاکستانیو جس دن تم نے یہ جملہ سمجھ لیا کہ ہر ڈاکو نے اپنے
مفاد کا نام جمہوریت رکھا ہے، اس دن تمہاری ترقی کا آغاز ہوجائے گا. دین
اور سیاست نااہلوں کے سپرد ہے ایسے میں ملک بہتر کیسے ہوسکتا ہے اسلام کا
امیج بھی برباد کردیا دنیا میں جاہل ملاں نے۔
جیہڑے حق تے ہون مبنی اوہ مضمون نہیں خریدے جا سکدے
بک دیاں عقلاں تھاں تھاں تے پر جنون نہیں خریدے جا سکدے |