کراچی:جعلی پولیس مقابلے....انصاف کا قتل؟
(عابد محمود عزام, karachi)
ایک طویل عرصے سے کراچی
میں بدامنی کا راج ہے۔ سیکورٹی ادارے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی کراچی میں
امن کے قیام کو یقینی نہیں بنا سکے ہیں۔ قیام امن کے لیے ایک لمبے عرصے سے
جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں جہاں ایک طرف رینجرز کی جانب سے ہزاروں مجرموں کو
گرفتارکرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہیں سندھ پولیس بھی وقتاً فوقتاً ٹارگٹڈ
آپریشن اور پولیس مقابلے کرکے کئی افراد کو گرفتار اور قتل کرتی رہتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں پولیس مقابلوں میں اضافہ ہوا ہے،لیکن کراچی
میں ہونے والے پولیس مقابلوں کو عوام کی جانب سے غیر شفاف قرار دیا جارہا
ہے۔ جس کا ثبوت گزشتہ دنوں یکے بعد دیگرے دو پولیس مقابلوں سے مل جاتا ہے،
جن مقابلوںکو لواحقین کی جانب سے جعلی قرار دیا گیا ہے۔ ہفتے کے روز قائد
آباد تھانے کی حدود شیرپاﺅ کالونی سواتی محلہ میں ملیر پولیس کے مبینہ
پولیس مقابلے میں 5 افراد مارے گئے اور دو زخمی ہوئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا
کہ مارے جانے والوں کا تعلق کالعدم جماعت سے تھا اور وہ شہر میں جرائم اور
دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ پولیس مقابلے میں مارے جانے والوں
میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکن مفتی شاہ فیصل بھی تھے۔ مقتول کے
اہلخانہ نے پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے مفتی فیصل شاہ کے کسی بھی
کالعدم جماعت سے تعلق ہونے کی تردید کی ہے اور اس کے ساتھ جمعیت علمائے
اسلام (ف) کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے سابق پارلیمانی
لیڈر مولانا عمر صادق نے بھی پولیس مقابلے میں فیصل شاہ کے قتل کی مذمت
کرتے ہوئے کہا کہ مفتی شاہ فیصل محسود کو ان کی رہائش گاہ سرجانی تیسر ٹاﺅن
سے 3 سے ساڑھے 3 ماہ قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے حراست
میں لیا تھا۔ اس وقت ہم نے سابق ڈی جی رینجرز رضوان اختر اور آئی جی سندھ
سمیت پولیس کے اعلیٰ حکام سے رابطہ بھی کیا تھا، تاہم اس کے باوجود شاہ
فیصل کو رہائی نصیب نہیں ہوئی اور انہیں قائد آباد میں ہونے والے جعلی
پولیس مقابلے میں شہید کیا گیا۔ مولانا عمر صادق کا کہنا تھا کہ مقتول شاہ
فیصل محسود کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ محسود اور وزیرستان کا رہنے والا تھا۔
اس کے علاوہ نہ تو اس کا تعلق کسی کالعدم تنظےم سے تھا اور نہ ہی وہ مشکوک
سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ مقتول سرجانی میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا۔ اتوار
کے روز فیصل شاہ کی نمازہ جنازہ نمائش چورنگی پر ادا کی گئی اوراس کے بعد
جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان کی بڑی تعداد نے نمائش چورنگی پر دھرنا بھی
دیا۔ اسی طرح کلفٹن برج کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں پولیس نے کاشف نامی
ایک نوجوان کو قتل کیا، مقتول کے اہلخانہ نے بھی پولیس مقابلے کو جعلی قرار
دیتے ہوئے پہلے فریئر تھانے اور بعد ازاں ہفتے کو وزیر اعلیٰ ہاﺅس سندھ کے
باہر لاش رکھ کر مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پہلے تو کاشف کو جعلی
مقابلے میں مارا گیا اور جب ورثا تھانے لاش کی حوالگی کا لیٹر لینے گئے تو
پولیس اہل کاروں نے انہیں تھانے کے اندر نہیں جانے دیا اور ایس ایچ او نے
ہوائی فائرنگ کر کے انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی۔ تاہم میڈیا کے دباﺅ پر
انہیں لاش کی حوالگی کا لیٹر دیا گیا۔ مظاہرین نے وزیر اعلیٰ سندھ سے
مطالبہ کیا کہ انہیں انصاف دلایا جائے اور جعلی پولیس مقابلے میں ملوث
افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ ایس ایچ او سول لائن وقار تنولی
کے مطابق مظاہرین کو مذاکرات کے دوران یقین دہانی کرادی گئی کہ کارروائی کی
جائے گی، جس کے بعد احتجاج ختم کیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ مقابلے کے بعد
پولیس کی جانب سے متعدد بیانات دیے گئے۔ پہلے کہا گیا کہ ملزمان کی موجودگی
کی اطلاع پر چھاپا مارا گیا اور پھر بیان تبدیل کر کے کہا کہ 2 موٹر
سائیکلوں پر 5ملزمان سوار تھے، جنہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے فائرنگ
کردی تو پولیس کی جوابی کارروائی میں ایک ملزم مارا گیا ۔ پولیس کی جانب سے
ابتدائی طور پر بیان دیا گیا کہ ملزم ایم ایل او ڈاکٹر منظور میمن کے قتل
میں ملوث تھا تاہم بعد میں اس بیان کی بھی تصدیق کرنے سے انکار کیا۔
گزشتہ دنوں بھی پولیس نے ایک مقابلے میں مولانا عبدالجلال کو قتل کر کے
کالعدم جماعت کا کارکن بتایا تھا، لیکن ورثا اور اہل علاقہ نے پولیس مقابلے
کو جعلی قرار دیتے ہوئے لاش کے ساتھ واقعے کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے
پولیس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ورثا کا کہنا تھا کہ سی آئی ڈی
کے سادہ لباس اہل کاروں نے 7 ستمبر کو نارتھ ناظم آباد حسن ڈسلوا ٹاﺅن میں
واقع رہائش گاہ کے قریب واقع جامع مسجد فاروقی سے مقتول کو اغوا کیا تھا،
جس پر اس کی بازیابی کے لیے حکام کو درخواست دینے کے ساتھ عدالت میں
درخواست بھی دائر کی تھی۔ تاہم ایک ماہ بعد پولیس نے اسے جعلی مقابلے میں
مار دیا اور اسے دہشت گرد قرار دے کر قتل کیا۔ مقتول کے بھائی سعید جلال نے
سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ
سندھ ہائیکورٹ میں مولانا عبدالجلال کی گمشدگی کے حوالے سے درخواست بھی
دائر کی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود 22اکتوبر کو مولانا عبدالجلال کو پولیس
مقابلے میں قتل کیا گیا۔ درخواست گزار کا یہ بھی موقف تھا کہ مولانا
عبدالجلال کو حراست میں لینے کے بعد پولیس نے اہل خانہ سے 50لاکھ روپے روشت
طلب کی تھی۔ رشوت نہ دینے پر مولانا عبدالجلال کو جعلی مقابلے میں قتل کیا
گیا۔ درخواست گزار سعید جلال نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ 7
ستمبر 2014 کو نارتھ ناظم آباد کے علاقے سے گاڑی نمبر SP-6581 میں سوار
سادہ لباس اہلکاروں نے اس کے بھائی عبدالجلال کو حراست میں لیا تھا۔ سماعت
کے دوران ایس ایچ او شارع نور جہاں نے عدالت میں رپورٹ پیش کی کہ پولیس
ریکارڈ کے مطابق نارتھ ناظم آباد کے علاقے سے عبدالجلال کی گرفتاری عمل میں
نہیں آئی۔ جس پر سندھ ہائیکورٹ نے نارتھ ناظم آباد کے علاقے سے مولانا
عبدالجلال کی گمشدگی کے حوالے سے دائر درخواست پر ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی
ایم آئی، ڈی جی رینجرز، سیکرٹری داخلہ سندھ سمیت دیگر مدعاعلیہان سے 30
اکتوبر تک جواب طلب کیا تھا۔
سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے گزشتہ روز بیان دیا تھا
کہ جو جج صاحبان خوف، کسی مخصوص مفاد یا کسی اور مسئلے کی وجہ سے دہشت
گردوں کو سزائیں نہیں دے سکتے، وہ مستعفی ہو جائیں۔ پولیس اور رینجرز والے
اپنی جانوں پر کھیل کر دہشت گردوں کو گرفتار کرتے ہیں، لیکن دہشت گرد
عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے پولیس کو
فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ پولیس کو کوئی ہدایات جاری نہیں کی جاتی ہیں ۔مبصرین
کے مطابق ان کے اس بیان کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے
کہ شرجیل میمن صاحب نے عدالتوں سے مایوس ہوکر پولیس کو فری ہینڈ دیا ہے اور
پولیس بھی فری ہینڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے گناہ لوگوں کو ہی جعلی مقابلوں
میں قتل کرنے لگی ہے، جو نہ صرف پولیس کے لیے انتہائی بدنامی کا باعث ہے،
بلکہ حکومت سندھ اور پوری ریاست کے لیے قابل افسوس مقام ہے، کیونکہ ایسا
دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ لوگوں کی حفاظت پر معمور پولیس ہی اپنے شہریوں
کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے لگے۔پولیس کے اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے نہ
صرف پولیس سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا بلکہ ان کے لیے نفرت پیدا ہونا
بھی فطری بات ہے۔ پہلے ہی کئی عوام کی وجہ سے پولیس کو معاشرے میں عزت کی
نظر سے نہیں دیکھا جاتا، اس طرح کے اقدامات سے پولیس خود ہی معاشرے میں
اپنا مقام کم کر رہی ہے۔ پولیس شہریوں کی حفاظت اور سیکورٹی پر معمول ادارہ
ہے، لیکن اگر یہی ادارہ لوگوں کے لیے خوف کی علامت بن جائے اور لوگوں کو
ماورائے عدالت قتل کرنے لگے تو اس سے بدقسمتی کیا ہوگی؟ مبصرین کا کہنا ہے
کہ کچھ عرصے سے پولیس خصوصاً مذہبی طبقے اور مذہبی نوجوانوں کو مورائے
عدالت قتل کر رہی ہے، اب تک کئی نوجوان مبینہ جعلی مقابلوں کی نذر ہوچکے
ہیں۔
واضح رہے کہ سال رواں اسی طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میںپولیس
مقابلوں کو جعلی قرار دیا گیا ہے۔ سال رواں اپریل کے مہینے میں اورنگی ٹاو
¿ن میں پولیس نے ایک مقابلے میں دو افراد کو قتل کیا تھا، لیکن ایک نجی
چینل نے قانون کی دھجیاں اڑاتے اہلکاروں کی فوٹیج بنا کر حقیقت واضح کر دی۔
فوٹیج کے مطابق پولیس نے بنارس سے 2 نوجوانوں کو پہلے پکڑا اور کچھ دیر بعد
گولیاں مار کر واقعے کو پولیس مقابلہ قرار دے دیا۔ پولیس مقتولین پر کو
الزام بھی ثابت نہ کر سکی تھی، جس کے بعد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان
نے جعلی پولیس مقابلے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ اقبال محمود سے رپورٹ
طلب کی تھی اورڈی آئی جی ویسٹ جاوید عالم اوڈھو نے واقعے کی تحقیقات کے لیے
کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا تھا کہ چند پولیس اہلکاروں کے باعث پورا ادارہ
بدنام ہورہا ہے۔ اسی طرح سال رواں سہراب گوٹھ میں پولیس نے ایک مقابلے میں
تین شہریوں کو ڈاکو قرار دے کر قتل کردیا تھا، لوحقین کے احتجاج کے بعد ڈی
آئی جی ایسٹ کے حکم پر مقابلے کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ مقابلی جعلی
تھا، جس کے بعد واقعہ میں ملوث اے ایس آئی اور ہیڈ کانسٹبل کو گرفتار بھی
کیا گیا تھا اور دونوں پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا
تھا۔ |
|