پاک افغا ن تعلقات اور نئے چیلنجز
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
پاک افغان سر حد پر گشیدگی کی
صورت حال ، آئے روز بم دھماکے اور خود کش حملے اپنی جگہ اہمیت اور ڈسکس کر
نے کے قابل ہے لیکن اس سے زیادہ اہم اگلے مہینے یعنی دسمبر میں امر یکا کا
14سال جاری جنگ کے بعد انخلا تقر یباً مکمل ہو جائے گا۔افغانستان سے
سمجھوتے کے تحت تقر یباً پندرہ ہزار امر یکی اور نیٹو فورسز افغان سرزمین
پر موجود رہے گی جو آپر یشن سے ہٹا کر صرف افغان فورسز کو ٹر نینگ اور
سپورٹ دے گی ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب امر یکی اور نیٹو فورسز
افغانستان سے چلی جائے گی تو افغان حکومت اکیلے میں طالبان کا مقابلے کر
پائے گی ۔وہ بھی ان حالات میں جب امر یکا اور نیٹو افغانستان سے ناکام ہو
کر جا رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امر یکا اور نیٹو فورسز نے طالبان کا
خاتمہ نہیں کیا بلکہ طالبان آج بھی افغانستان میں ایک حقیقت کے طور پر
موجود ہے جو آئے روز امر یکی ، نیٹو اور افغان فورسز پر حملے کر تی رہتی
ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ طالبان پہلے کی طرح مضبوط نہیں رہے ‘ لیکن د
یکھنا یہ ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد طا لبان کی حکمت عملی کیا ہو گی
۔ آیا طالبان افغانستان کی جمہوری سیاست میں حصہ لینے پر غور کر یں گے یا
نئی سوچ سے آنے والی اشرف غنی کی حکومت پر حملے شروع کر کے ماضی کی طرح
اقتدار پر قبضے کر نے کی کوشش کر یں گے جو ماضی کے بر عکس انتہائی مشکل نظر
آرہا ہے‘ اس وقت زمینی حقائق کچھ آور تھے اور آج کچھ آور ہے‘ اب افغانستان
میں ادارے بن چکے ہیں اور ایک جمہوری حکومت بھی موجود ہے جن کو باقی دنیا
کی طرح پڑوسی ممالک کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔
امر یکا کا افغانستان سے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے صورت حال نے جہاں پر
افغان حکومت کو تشو یش سے دوچار کیا ہے وہاں پر پڑوس ممالک خاص کر پا کستان
کو بھی تشویش سے لاحق کیا ہے کہ امر یکی انخلا کے بعد افغانستان میں دوبارہ
گشید گی ، خراب حالات اور خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ یں گے ۔ پا
کستان کی بدلی ہوئی نئی افغان پالیسی اس بات کا مظہر ہے کہ افغانستان میں
جمہوری عمل پروان چڑھے ، اندررونی خانہ جنگی پیدا نہ ہواور طالبان سے نمٹنا
افغان حکومت کا اندررونی مسئلہ ہے۔ پا کستان ‘افغانستان کی جمہوری حکومت سے
بہتر تعلقات کا خواہاں ہے جس کا اندازہ اس طرح لگا یا جا سکتا ہے کہ گزشتہ
ہفتے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شر یف نے افغانستان کا دورہ کیا اور اب
افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان دورہ اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ممالک پاک
افغان تعلقات کو بہتر بنانے اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی پر
غور کر رہی ہے۔ ان ملاقاتوں میں پاک افغان تعلقات کو بہتر کر نے ، سرحدوں
پر گشید گی کو ختم کر نے ، دہشت گردی کے خلاف مشتر کہ حکمت عملی بنانے ،
امر یکی انخلا کے بعد پیدا ہو نے والے صورت حال اور تجارت کو فروغ دینے کی
کوششوں پر اتفاق ہو ا ہے جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے پاک فوج سے اپنی فورسز
کی ٹر نینگ کی دعوت کو بھی قبول کیا ۔
افغان صدر اشرف غنی کے دورے سے اندازہ لگا یا جا رہاہے کہ نئی افغان حکومت
کی خارجہ پالیسی بھی اب تبدیل ہو رہی ہے ۔ نئی افغان حکومت پا کستان سے
بہتر تعلقات کا خواہاں نظرآر ہی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ ماضی
بھولا کر مستقبل کی پلاننگ کر نی چاہیے ‘ بہتر تعلقات سے ہم نہ صرف معاشی
طور پر مضبوط ہوں گے بلکہ دہشت گردی کا مقابلہ بھی ملکر کر سکتے ہیں۔ نئے
صدر اشرف غنی کو اس بات کا ادارک ہو چکا ہے کہ پاکستان سے بہتر تعلقات میں
افغانستان کی بہتری ہے۔سر حدوں پر گشیدگی کم کر نے سمیت پاکستان کے ساتھ
تجارت کو بھی پانچ ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں اور ایشیا کا اقتصادی قوت
بنے کے خواہاں ہے۔ افغان صدر کایہ بھی کہناہے کہ ماضی کو بھلا کر تر قی پر
توجہ دینی پڑے گی ۔یہ بھی یاد رہے کہ ماضی کی افغان حکومت کا زیادہ تر جگاؤ
بھارت کی جانب تھا اب نئی افغان حکومت امر یکا اور بھارت سے ہٹا کر چین اور
پا کستان کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی خواہاں نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کا مقابلہ کر نے، امر یکی اور نیٹو
افواج کی انخلا سمیت خطے میں تجارت کو فروغ دینے کے لیے پا کستان،
افغانستان اور چین کے درمیا ن تعلقات بہتر ہونے اور مشترکہ حکمت عملی بنانے
کے لیے ایک دوسرے کا تعاون ناگزیر ہے۔ |
|