شمالی وزیرستان میں ’’ضرب
عضب‘‘کے آپریشنل کمانڈرمیجر جنرل ظفراﷲ نے آپریشن کی کامیابیوں کی تفصیلات
بتاتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا بارود ایٹم بم جتنی
تباہی پھیلاسکتا تھاجبکہ دہشت گردوں کی جنگی معیشت 2.4 ارب روپے اوروہ اپنے
بارودی ذخیرے سے ساڑھے 16سال جنگ لڑسکتے تھے ،شمالی وزیرستان کا 90 فیصد
علاقہ کلیئرکرالیا حقانی نیٹ ورک افغانستان جا چکا علاقہ سے حقانی نیٹ ورک
اور ایسٹ ترکستان موومنٹ کا صفایاکردیا گیا۔پریس بریفنگ کے دوران انکاکہنا
تھا کہ شمالی وزیرستان میں 5ماہ کے آپریشن کے دوران 1098دہشت گرد ہلاک، 356
زخمی اور 221 گرفتارکئے گئے جبکہ انکے قبضہ سے 10 ہزار سے زائد ہتھیار
برٓمدہوئے ،جھڑپوں کے دوران دہشت گرد 72 ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر فرار
ہوئے ،دوسری طرف پاک فوج کے 42افسراورجوان شہیدجبکہ155زخمی ہوئے۔ شمالی
وزیرستان کی تحصیل میر علی، میرانشاہ، بویا ، دتہ خیل، غلام خان اور سپن
وام کو کلیئرکیا جاچکا ہے ، آپریشن کے دوران 4 ہزاربارودی سرنگیں، 11 نجی
جیلیں اور 191 زیر زمین راستے اور پناہ گاہیں بھی ملیں،میرانشاہ سے 78 ہزار
کلو جبکہ میر علی سے 23ہزار کلو بارودی مواد پکڑا گیا،برآمد ہونے والے
اسلحہ میں 2 ہزار 470 ایس ایم جیزاور 293 مشین گنز بھی شامل ہیں جبکہ
پکڑاجانیوالا اسلحہ ایک انفنٹری بریگیڈکیلئے کافی ہے۔میجر جنرل ظفراﷲ نے
مزیدکہا کہ دہشت گردوں کیخلاف بلا امتیازکارروائی کی جارہی ہے جس دوران
بھرپور کامیابیاں ملیں تاہم امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے بے بنیاد الزام
تراشی حوصلہ شکنی کا باعث بن رہی ہے ،ہمارے نزدیک کوئی دہشت گرد اچھا یا
برا نہیں جبکہ مارے جانیوالوں میں حقانی نیٹ ورک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ آٹھ
جون 2014 کو کراچی میں جناح انٹرنیشنل پر 10 دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ کل 31
افراد بشمول 10 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ
داری قبول کی اور اسے اپنے سابقہ سربراہ حکیم اﷲ محسود کے قتل کا بدلہ قرار
دیا ہے جو ایک ڈرون حملے میں نومبر 2013 کو شمالی وزیرستان میں مارا گیا
تھا۔تحریک طالبان کی طرف سے مزید حملوں کی دھمکی بھی دی گئی ۔کراچی ایرپورٹ
پر حملے سے قبل حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی۔اس حوالے سے متعدد
کل جماعتی کانفرنسیں بھی منعقد ہوئیں جن میں سے آخری نو ستمبر 2013 کو ہوئی۔
ان کانفرنسوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ
وہ ملک میں قیامِ امن کے لیے شدت پسند تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ آئندہ
کئی ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ کمیٹیاں بنیں، کمیٹیوں پر سوال اٹھے، خفیہ
مقامات پر کمیٹیاں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ملنے گئیں۔ یہاں تک کہ پاکستان
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تو طالبان کا دفتر کھولنے تک کی تجویز
پیش کر دی۔ امریکہ نے بھی ڈرون حملے روکنے کی حامی بھر لی۔مگر طالبان قیادت
کسی فیصلہ پر اپنے گروہوں کو متفق نہ کر سکی۔ آخرکار مذاکرات ناکام ہوگئے۔
جس کے بعد 2014 کا پہلا ڈرون حملہ ہوا اور طالبان کی طرف سے بھی کراچی ایئر
پورٹ پر حملہ کیا گیاجس کے بعد پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں
کے خلاف آپریشن’’ضرب عضب ‘‘ کا آغاز کیا تو پاکستانی قوم نے دہشت گردی سے
نجات کے لئے کھلے دل سے آپریشن کا خیر مقدم کیا ۔ضرب عضب کے آغاز س قبل
مقامی قبائلی محب وطن لوگوں کو علاقہ چھوڑنے کے لئے وقت دیا گیا ۔شمالی
وزیرستان سے لوگ آئے اور بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان سمیت مختلف علاقوں میں
ٹھہرے،آئی ڈی پیز کے لئے پاک فوج،حکومت،رفاہی و فلاحی اداروں فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن،الخدمت فاؤنڈیشن نے کیمپ لگائے اور امداد ی سامان مہیا
کیا۔وزیرستان آپریشن کے حوالہ سے کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ حکومت کو آپریشن
نہیں کرنا چاہئے تھا اس میں کامیابی نہیں ملے گی ،صرف مذاکرات کا راستہ
اپنا یا جاتا لیکن افواج پاکستان کے بہادر جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر
وطن عزیز کے دفاع کو نہ صرف مستحکم بنایا بلکہ دشمن طاقتوں کو یہ پیغام بھی
دیا کہ پاکستان ہمیں اپنی جانوں سے بھی عزیز ہے اس ملک کے دفاع کے لئے
جانیں قربان کر دیں گے لیکن پاکستا ن کی سلامتی پر کوئی آنچ ہیں آنے دیں گے
۔ضرب عضب کی حمایت میں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی مختلف شہروں میں
ریلیاں نکالیں اور افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ۔قومی اسمبلی
میں بھی کثرت رائے کی بنیاد پر شمالی وزیرستان ایجنسی میں جاری ضرب عضب
آپریشن کے حق میں قرارداد منظور کی گئی۔ قرار دا دمیں عزم کیا گیا کہ آخری
فتح تک مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ قرار دا د کی مخالفت کرتے
ہوئے دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے دستخط نہیں کئے تھے۔ قرار داد پاکستان
مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور
عوامی نیشنل پارٹی کے نمائندوں نے دستخط کئے۔قرار داد میں کہا گیا تھا کہ
عسکریت پسند ملک میں سیکورٹی فورسز قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص
سرکاری و نجی عملات کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کے نتیجے میں جانی و املاک کے
نقصانات ہورہے ہیں۔ قرار داد پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ف کے
نمائندوں نے حکومتی اصرار کے با وجود دستخط نہیں کئے۔قرارداد کو کثرت رائے
سے منظورکیا گیاتھا۔امریکہ نے بھی اس آپریشن پر اعتراضات کئے لیکن پاک فوج
نے واضح کیا کہ آپریشن بلا تفریق سب دہشت گردوں کے خلاف ہو رہا ہے ۔پاک فوج
کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کہتے ہیں کہ کسی تفریق کے بغیر تمام
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن
ضرب عضب میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی نہ کرنے سے متعلق کی جانے
والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے میجر جنرل باجوہ نے کہا کہ دہشت گردوں کا
تعلق چاہے کسی بھی ملک سے ہو ان کے خلاف ایک ہی طرح سے کارروائی کی جا رہی
ہے یعنی ’’ان کا خاتمہ کرنا ہے یا ان کو گرفتار کرنا ہے‘‘۔ پاکستان تمام
دہشت گردوں کا خاتمہ کر دے گا، اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں
کرنے دیگا۔ ہم شروع ہی سے کہتے رہے ہیں کہ یہ آپریشن بغیر کسی امتیاز کے
تمام دہشت گرد گروپس کے خلاف ہے چاہے ان کا تعلق کسی سے بھی ہو، قومیت جو
بھی ہو، انہوں نے جو بھی نام رکھا ہوا ہو، ہم سب کے خلاف ایک ہی وقت میں جا
رہے ہیں، ایک ہی طریقے سے ہم ان کے ساتھ سلوک کر رہے ہیں۔ پینٹاگون کی جانب
سے دہشت گردوں کے خلاف نرم رویہ رکھنے کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر
ایسا ہوتا تو 50 ہزار پاکستانیوں، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
اہلکاروں اور شہریوں کی جانوں کے نذرانے پیش نہ کئے جاتے یہ الزام صریحاً
غلط اورغلط فہمی پر مبنی ہے۔ بلوچستان میں شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی
بیرون ملک سے کی جا رہی ہے اس کا کوئی مداوا نہیں کیا گیا پاکستان میں داعش
سرگرم ہے نہ ہی اس کی موجودگی کے واضح ثبوت ہے۔ تحقیقات کی جا رہی ہے ان کی
بھی سرکوبی کی جائے گی۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا
گیا ہے۔ اب ان کا کوئی ایسا بیس نہیں جہاں سے وہ پوری دنیا میں کوئی آپریشن
کر سکیں۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے سرگرم ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے
بھاگنے والے دہشتگردوں کو ختم کرنے کیلئے آپریشن خیبر ون شروع کیا گیا، ضرب
عضب سے ملک بھر میں دہشتگردی کم ہوگئی اور خیبر ون سے پشاور میں سکون ہوا
ہے۔ آپریشن خیبر ون میں چوالیس سے زائد دہشتگر مارے گئے اور سو سے زائد
ہتھیار ڈال چکے ہیں، دہشتگردوں کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔ |