بھارت کا جارحانہ رویہ.... مسائل کے حل میں رکاوٹ!!
(عابد محمود عزام, karachi)
پاکستان اور بھارت کے درمیان
ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر ایک عرصے سے جاری کشیدگی میں بھارت کی
ہٹ دھرمی کے باعث دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت سیزفائر کی خلاف کرتے ہوئے
وقتاً فوقتاً پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بلااشتعال فائرنگ و گولہ باری
کرتا رہتا ہے، جس سے سال رواں اب تک خواتین و بچوں سمیت دسیوں پاکستانی
شہید اور بیسیوں زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ بھارتی فوج کی پے در پے کارروائیوں
سے سرحد قریب کئی پاکستانی دیہات سے ایک بڑی تعداد نقل مکانی بھی کر چکی ہے۔
بھارتی فوج نے جمعرات کی شام ایل او سی پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے
دارالحکومت مظفر آباد کے قریب پانڈو سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ کر کے ایک
پاکستانی فوجی کو شہید کردیا۔ رواں ماہ پانڈو سیکٹر میں لائن آف کنٹرول پر
فائرنگ کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل آٹھ نومبر کو بھی بھارت کی جانب سے
سرحدی خلاف ورزی کا ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان
اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی ایک عرصے سے جاری ہے، پاکستان اس معاملے
پر بھارت سے سفارتی سطح پر احتجاج بھی کر چکا ہے، لیکن بھارت ہر بار
پاکستان کی جانب سے کیے گئے احتجاج کو نظر انداز کر کے سیز فائر کی خلاف
ورزی کر دیتا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کشیدگی کی اصل وجہ کشمیر کا معاملہ ہے،
جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے۔ پاکستان کشمیر کے معاملے کو
متعدد بار اقوام متحدہ میں بھی لے جاچکا ہے، لیکن بھارت اس معاملے پر اقوام
متحدہ کی ثالثی قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہے، بلکہ وہ مسلسل اپنی ہٹ
دھرمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ روز پاکستان نے ایک بار پھر اقوام متحدہ پر
زور دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے لیے اس کے فوجی مبصرین کا گروپ کنٹرول
لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے مو
¿ثر کردار ادا کرے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر ایک مسلمہ
تنازعہ اور سلامتی کونسل کی قراردادیں اس مسئلے کے حل کا بہترین ذریعہ ہیں۔
ترجمان کے مطابق اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ نے ایل او سی اور پاکستان
بھارت سرحد پر گزشتہ دنوں فائرنگ کے واقعات کی رپورٹ سیکرٹری جنرل بانکی
مون کو بھجوا دی ہے، اس بارے میں جلد ہی اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کو
آگاہ کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003 میں
لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا تھا، لیکن بھارت نے اس معاہدے
کا کوئی پاس نہیں رکھا اور مسلسل سیزفائر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس
معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث سرحد پر عام آبادی بھی نشانہ بن رہی ہے۔ ذرائع
کے مطابق بھارت کی جانب سے ورکنگ باؤنڈری پر گزشتہ 5 سالوں کے دوران 157
بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سال 2010 میں بھارت کی جانب سے 54
بار، 2011 میں 13 بار، 2012 میں 27 بار، 2013 میں 33 بار اور رواں سال اب
تک 30 بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بھارتی فوج نے اکتوبر
کے پہلے ہفتے میں 31 ہزار 872 مارٹر گولے پاکستانی آبادی اور علاقوں پر
داغے ہیں۔ سال 2010 سے 2014 تک بھارت کی جانب سے 31 ہزار 872 مارٹر گولے
برسائے گئے، جس کے جواب میں پاکستان نے 6 ہزار 756 مارٹر گولے فائر کیے۔ ڈی
جی رینجرز پنجاب کے مطابق بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزی کے دوران 3 لاکھ
54 ہزار 78 چھوٹا اسلحہ اور بارود استعمال کیا، جبکہ پاکستان نے جوابی
کارروائی میں ایک لاکھ 38 ہزار 414 چھوٹا اسلحہ استعمال کیا۔
دوسری جانب گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد
حسین سید کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے بھارت کی
ریاستی دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف بھارت کے
خلاف جرات مندانہ موقف اختیار کریں، قوم ان کا ساتھ دے گی۔ جبکہ گزشتہ روز
مظفرآباد جموں و کشمیر کونسل سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا
تھا کہ انھوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت سے قبل کشمیری رہنماؤں
سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے
آمادہ کرنے کے لیے عالمی برادری کے دباؤ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ لائن
آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر حالیہ بھارتی حملوں نے اعتماد سازی کے عمل
کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت دونوں ملکوں کو اعتماد سازی کے اقدامات
کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان سیکرٹری سطح پر مذاکرات
کی منسوخی کو بھارت کا ”بلاجواز منفی طرز عمل“ قرار دیا۔ وزیر اعظم کا کہنا
تھا کہ کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور مسئلہ کشمیر کے
حل کے لیے خصوصی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ نواز شریف نے واضح کیا:
”پاکستان کی جانب سے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ یہ
ہماری مخلصانہ اور شعوری کوشش ہے، کیونکہ بھارت کی طرف سے دو طرفہ بات چیت
کے ذریعے اس مسلے کے حل کے لیے مثبت رویے کی بجائے ہٹ دھرمی کا رویہ دیکھنے
میں آتا ہے۔“ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے آزاد جموں و
کشمیر کونسل سے جمعرات کو کیے جانے والے خطاب نے بھارتی قیادت کو مشتعل
کردیا ہے۔ بھارت کی سابقہ حکمران جماعت کانگریس نے وزیراعظم نواز شریف سے
کہا ہے کہ وہ پاکستان کے معاملے پر خارجہ پالیسی میں احتیاط سے کام لیں۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کانگریس پارٹی نے وزیر اعظم نواز شریف کے
بیان کو متنازع قرار دیا ہے اور اس کے لیے انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے
اس بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ”بھارت کے ساتھ مذاکرات سے
قبل میں نے کشمیری رہنماﺅں سے بات کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی ایجنسیوں پر
شدت پسندی میں ملوث ہونے کا الزام لگانا سراسر جھوٹ ہے۔“ کانگریس کے سینئر
رہنما سندیپ ڈکشٹ نے کہا ہے کہ ”پاکستان کے متعلق یونائیٹڈ پروگریس الائنس
کی حکومت کے پاس بہترین خارجہ پالیسی تھی۔ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی
سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ دیکھیں کہ پاکستان سے نمٹنے کے لیے کانگریس پارٹی
نے کس طرح کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی، کیونکہ اس قوم (پاکستا ن ) سے
نمٹنے کا یہی طریقہ ہے۔“ واضح رہے کہ کچھ ہی روز قبل ہندوستانی اخبار ٹائمز
آف انڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر دفاع ارون
جیتلی کا کہنا تھا کہ اب پاکستان کے لیے ایک نئی سرخ لکیر کھینچ دی گئی ہے
کہ وہ کس کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے؟ ہندوستانی حکومت کے ساتھ یا ان کے
ساتھ جو ہندوستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ جب تک پاکستان انتخاب نہیں کرلیتا،
پاکستان کے ساتھ مذاکرات ممکن نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی
خلاف ورزی کے حوالے سے بھی ارون جیتلی نے تمام تر ملبہ پاکستان پر گراتے
ہوئے کہا تھا کہ شہری آبادی پر فائرنگ اور گاؤں اجاڑنے جیسے ”ایڈونچر“
پاکستان کے لیے نا قابلِ تلافی نقصان ثابت ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ارون جیتلی نے
21 اکتوبر کو بھی پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر کشمیر کی متنازع سرحد پر
سیز فائر کی خلاف ورزی جاری رہی تو پاکستان کو مزید نقصان اور تکلیف برداشت
کرنا پڑے گی۔
ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکا کے موقع پر
پاکستان کے غیر متزلزل عزم کی پذیرائی اور دوطرفہ تعاون میں اضافے کی خبروں
پر بھارت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور بھارتی میڈیا اس پریشانی کا
برملا اظہار بھی کررہا ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت نے یہ واضح کیا ہے کہ
پاکستان میں شدت پسندی کے خاتمے کی راہ میں بھارت رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارت کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کا معاملہ بھی
اٹھایا گیا ہے۔ امریکا کی طرف سے بھی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کاوشوں
کا اعتراف کیا گیا ہے اور دوطرفہ فوجی تعاون کو بھی آگے بڑھانے کا تذکرہ
ہورہا ہے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی
ہے کہ دونوں ممالک میں قربت کیوں بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان اور
خصوصاً پاکستانی عسکری اداروں کے خلاف بھارتی پراپیگنڈا بھی زور پکڑ گیا ہے۔
خصوصاً بھارتی میڈیا اس دورے کو منفی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف منافقانہ اور جارحانہ
رویہ اپنایا ہے۔ وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر فائرنگ کر کے دونوں ملکوں
کے درمیان جاری کشیدگی کو مسلسل بڑھاوا دے رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ
سرحد پر بھارتی خلاف ورزی کے معاملے کو عالمی برادری کے سامنے اٹھانے کے
ساتھ ساتھ جراتمندانہ رویہ اپناتے ہوئے بھارت کو سختی سے روک دے۔ |
|