پاکستان میں انقلاب کی ناکامی کیوں؟

پاکستان کو معرض وجود میں آئے 67 سال ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے حصول کیلئے انگنت قربانیاں دی گئیں۔ آج بھی اُن بھیانک اور صبرآزما احوال و واقعات کے چشم دید گواہ موجود ہیں جن میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر آج تک کی سیاسی اور مذہبی تحریکوں کا مختصر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر نئے آنے والے راہنما یا حکمران نے اپنے تہیں اخلاص کے ساتھ تبدیلی لانے کی کوشش اور دعوے کیے۔ لیکن زمینی حقائق گواہ ہیں کہ کما حقہ وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ہم نے روٹی کپڑا اور مکان میا کرنے کے نام پر عوامی انقلاب، اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے نظام مصطفی، مصطفوی انقلاب اور اسلامی انقلاب جیسے حسین اور دلآویز نعرے اور دعوے بھی سنے۔ ان تحریکوں میں ہزارہا محب وطن پاکستانیوں نے اپنی عزیز جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔تا دم تحریر بھی دو عظیم الشان قافلے ”انقلاب“ او ر ”آزادی“ کے نام سے اسی مقصد کے حصول کیلئے ابھی اسلام آباد کی حدود کے قریب ہیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ وہ خیر و عافیت سے اپنی منزل مقصود پر پہنچیں اور ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے عظیم مشن میں آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے کامیاب و کامران ہوں۔ ہمیں کسی کی نیت پہ شک ہے نہ ارادے پہ شبہ۔ اکثر و بیشتر سیاسی و مذہبی راہنما اور کارکنان محب وطن شہری اورتبدیلی کے خواہاں ہیں۔ ہر نجی اور اجتماعی محفل میں یہی رونا رویا جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ابھی تک کوئی تحریک کامیاب کیوں نہیں ہوئی؟ ہر تحریک اورمشن کے وقت اور ماحول کے موافق کچھ تو معروضی حالات ہوا کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں آج دیکھنا یہ ہے کہ عمومی طور پر وہ کون سی وجوہات ہیں جو انتھک کوششوں اورکاوشوں کے باوجود بھی پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بننے کے رستے میں رکاوٹ ہیں۔

ہماری دانست کے مطابق پہلی رکاوٹ ہمارے سیاسی و مذہبی راہنماؤں کے رویے اور ایک دوسرے کے بارے میں سوئے ظن ہے۔ جب ایک سیاست دان دوسرے سیاستدان سے اختلاف رائے رکھتا ہے تو ساری سرحدیں پھلانگ کر بغیر ثبوت کے الزام لگاتا ہے کہ یہ”قوم کا غدار“ ہے۔ یہ”وطن کا غدار ہے“۔ اور جب مذہبی طبقہ اختلاف رائے رکھے تو الزام تراشی اور ساری سرحدیں عبور کرنے میں وہ بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ بھی اختلاف رائے رکھنے والے کو ’’دین کا غدار“ اور ”اللہ اور رسول کا باغی“ جیسے القابات سے موسوم کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ معاشرے میں نفرت، انتشار اور خلفشار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حالانکہ اسلام ہمیں حسنِ ظن کا حکم دیتا ہے اور اسلام اور کفرکے درمیان ایک واضح حد فاصل موجود ہے۔ ہمیں اس سے تجاوز کی قطعا اجازت نہیں ہے۔اس کے علاوہ حکمران طبقہ کی فکر آخرت سے بے خوفی کے نتیجے میں حد سے زیادہ کرپشن، دولت کی بے جا حرص میں قومی خزانے کو لوٹنا اور قومی مفاد ات کو پس پشت ڈال کر اپنی تجوریوں کو بھرنا بھی ہمارا ایک قومی المیہ رہا ہے۔ جو کہ پاکستان کو ترقی کی بجائے تنزل کی طرف لے جانے کا سبب بنا۔

پاکستان کرہ ارضی پر فقط نظریہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی ”ریاست مدینہ“ کے بعد دوسری ریاست ہے۔ قائد اعظمؒ، علامہ اقبال ؒ اور دیگر اکابرین ہمارے محسن ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمانان برصغیر نے قربانیاں اِن میں سے کسی کے نام پر نہیں بلکہ ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“ کے خوبصورت اور دلآویز نعرے سے متاثر ہو کردیں تھیں۔ اگر ہم اس حوالے سے ٹھوڑا سا موازنہ کریں تو معلوم ہو گاہماری تحریکوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر اپنے وجود پر نفاذِ اسلام سے بے بہرہ ہیں۔ اسلام کے دس فیصد کے قریب وہ حدود اور احکامات ہیں جن کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت وقت پر ہوتی ہے۔ مثلا حدود شرعیہ، نظام ِعدل و انصاف اورنظام صلاۃ و ذکوۃ وغیرہ کا قیام۔ لیکن نوے فیصد وہ احکامات ہیں جن کو آپ اور میں نے خود نافذ کرنا ہو تا ہے۔ انکا تعلق ہماری ذاتی زندگی سے ہے۔ جن میں اعتقاد، عبادات، اخلاقیات اور معاملات کی بجا آوری کا مکمل ضابطہ حیات کے طور پر ایک وسیع سلسلہ ہے۔ اس حوالے سے جب ہم ریاست مدینہ سے موازنہ کریں تو واضح فرق محسوس ہوتا ہے جو ہماری نامامی کی بنیادی وجہ ہے۔ حضورﷺ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس کا ہر فرد دین کے حکم کو دل و جان سے اپنے اوپر نافذ کرنے والا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ شریف میں قیام ریاست کے بعد نفاذ اسلام کیلئے نہ کوئی تحریک چلی۔ نہ پوسٹر چھپے، بینر لگے اور نہ ہی مسلمانوں کو کسی لانگ مارچ کی ضرورت پیش آئی۔ جو کوئی مدینہ کے خطہ پاک پر نفاذِ اسلام کا خواہش مند تھا، اُس نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ پانچ چھ فٹ کی سرزمین جو اس کے اپنے قبضہ قدرت میں ہے، اس پر پہلے نفاذ اسلام کیا۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ جو زمین ہمارے اپنے اختیار میں ہے اس پر تو نوے فیصد اسلام نفاذ اسلام کرتے نہیں اور جو دس فیصد حکومت کی زمہ داری ہے اس کیلئے سڑکوں پہ نکل کر اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحثیت مسلمان اپنی انفرادی زندگی میں احساس ذمہ داری پیدا کریں۔ حکمرانوں سے لیکر عوام الناس تک اجتماعی توبہ کرکے اپنے آپ کو بد عملی، جھوٹ اور خود فریبی اور خدا فریبی سے نکال کر حقیقی مسلمان بنائیں۔
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219823 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More