آجکل صحافیوں پر بڑے بڑے کرپشن
کے الزمات لگائے جارہے ہیں ویسے تو پاکستان میں کوئی بھی ادارہ کرپشن جیسے
گند سے پاک نہیں ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خوف خدا اپنے اندر رکھتے ہیں یا
انکے اندر انکا ضمیر زندہ ہے جو انہیں لوٹ مار نہیں کرنے دیتا ورنہ تو یہاں
صحافت کا شعبہ اور اس سے وابستہ افراد ہی کرپٹ نہیں ہیں بلکہ آوے کا آوا ہی
بگڑا ہوا ہے اب تو کرپشن سے صرف وہی لوگ پاک صاف نظر آتے ہیں جنہوں نے جی
بھر کر لوٹ مار کرکے اتنا مال جمع کرلیا ہوکہ انہیں روپے پیسے کی گنتی کا
حساب نہ رہے اور بے دریغ جائیدادیں بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل
بھی تابناک بنا لیا ہوباقی تو سب جہاں جس کا داؤ لگ جاتا ہے معافی کا لفظ
پھر اسکی لغت سے مٹ جاتا ہے جس طرح دوسرے شعبوں میں پسند و ناپسند اور
مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے شعبہ صحافت میں
بھی اسی طرح کام لیا جاتا ہے اکثر صحافی دوست ایسے بھی ہیں جو محنت ،ایمانداری
اور اپنے پیشے سے محبت کرنے والے ہیں مگر انکونہ کوئی ادارہ قبول کرتا ہے
اور نہ کسی تنظیم نے انہیں اپنے ہاں گھسنے دیا ہے کیونکہ یہاں پر بھی ایسے
افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو کماؤ پوت ہوں کرپشن، لوٹ
مار،بارگینگ اور بلیک میلنگ میں اپنا ثانی نہ رکھتے ہوں لیکن جو مک مکا کی
صحافت نہیں کرتے یا انکے اندر اس بات کا حوصلہ نہیں ہے وہ کل بھی کسمپرسی
کی زندگی گذار رہے تھے اور آج بھی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا گلہ گھوٹنے
پر مجبور ہیں وہ کل بھی زندگی کی رنگینیوں سے ناآشنا تھے اور وہ آج بھی دال
روٹی کے چکر میں کولہو کے بیل بنے ہوئے ہیں رہی بات خبروں کی وہ تو خود
اخبارات کا پیچھا کررہی ہوتی ہیں مگر اداروں کے مالکان کے اپنے اپنے مفادات
ہیں اور انکے ورکروں کے مفادات انکے مالکان سے جڑے ہوتے ہیں اگر مالکان کے
پاس پیسے ہونگے تو ہی ادارے چلیں گے اور قلم کے مزدوروں کو بروقت انکا
معاوضہ ملے گا مگر یہاں پر تو حکومتوں انکے حواریوں اور بڑے بڑے سرمایہ
داروں نے پورے پورے اداروں کواپنا غلام بنا رکھا ہے اشتہاروں کی بنیاد پر
خبروں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اشتہار دینے والے تمام سرکاری اداروں سمیت
بڑے بڑے ٹرائیکون اپنے اپنے مفادات سامنے رکھتے ہیں ہمارے ملک کے ایسے
اخبارات بھی ہیں جو اس وقت نظر آتے ہیں جب انہیں کسی سرکاری ادارے سے کوئی
اشتہار مل جاتا ہے ویسے وہ بھی نظر نہیں آتے کچھ ایسے ہیں جنہیں اشتہارات
کی بھر مار سے اپنی آمدن کا اندازہ ہی نہیں ہوتا اور کچھ ایسے بھی ہیں جو
چھپتے تو ضرور ہیں مگر چبھتے بہت زیادہ ہیں اس لیے انہیں اشتہارات سے دور
رکھا جاتا ہے تاکہ وہ مالک اپنی جیب خالی کرکے اخبار بند کردے یا پھر کوئی
نہ کوئی ڈیل کرلے ہمارے ملک میں اشتہارات کے حوالے سے کوئی قانون ،پالیسی
اورہی نہ کوئی ضابطہ ہے جس کا جتنا دباؤ ہو گا وہ اتنا ہی مالی فائدہ اٹھا
لے گایسا صرف شعبہ صحافت میں ہی نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں جنگل کا قانون
ہے یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے ایک بڑے صوبہ پنجاب کے ذمہ دار
گورنر چوہدری سرور کے ہیں جنہوں نے جمعرات کے روز ہندوں کمیونٹی کے ایک وفد
سے ملاقات کے دوران یہ الفاظ ادا کیے اگر دیکھا جائے تو واقعی پاکستان میں
جنگل کا ہی قانون چل رہا ہے اسی لیے تو انتخابی نشان شیر والے حکومت کررہے
ہیں اگر پاکستان میں جنگل کے بادشاہ شیر کو ووٹ دیکر اپنے اوپر سوار کرلیا
جائے تو پھروہ پاکستان میں بھی بادشاہت ہی قائم کریگا کس کی مجال ہوگی کہ
وہ شیر کے خلاف کوئی بات کرسکے کیونکہ شیر کے قریبی وزیروں جن میں لومڑی
جیسامکار جانورشیر جیسے بادشاہ کا کار خاص ہو تو وہاں انصاف کی کیا توقع
رکھی جاسکتی ہے جو مکاریوں اورشکار کو گھیر کر لانے میں میں لومڑی سے آگے
نکلے گا اسے ہی بادشاہ اپنے قریب کریگا جنگل کا یہ قانون پورے ملک میں رائج
ہے کیونکہ یہاں انصاف ،روزگار،صحت ،صفائی ،تعلیم ،جیسی بنیادی سہولیات کے
لیے بھی کسی کی سفارش کی ضرورت ہوگی یا اسے اپنا کام نکلوانے کے لیے رشوت
کی ضرورت پڑے گی اور انہی ضروریات نے ہمیں جنگل کا باسی بنا دیا ہے اگر
دیکھا جائے تو بطور قوم ہم بھی اب شارٹ کٹ کے چکر میں رات و رات امیر ہونا
چاہتے ہیں اور جو نہیں ہونا چاہتے وہ دو وقت کی روٹی اور اپنی بیماری کے
علاج سے بھی قاصر ہوچکے ہیں ایسے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے والے بھی آج
ہم میں موجود ہیں مگر وہ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ انکا ہونا کسی کو نظر ہی
نہیں آتا ایسے لوگ خلق خدا کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں بیشک وہ کم تعداد
میں ہیں لیکن وہ جہاں ہیں وہاں عوام کے دکھوں کا مداوا ضرور کررہے ہیں ان
میں ایسا ہی ایک ادارہ مغل پورہ لاہور میں الا احسان کے نام سے مصروف عمل
ہے جسکے روح رواں جناب الحاج ثناء اﷲ خان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی ٹیم کے
ہمراہ وہ کام کردکھایا جو حکومت برسوں میں نہیں کرسکی حکومت کے سرکاری
ادارے بلخصوص ہسپتال وہ سفید ہاتھی ہیں جو انہوں نے صرف اپنے لیے پال رکھے
جہاں شیر ،لومڑی ،چمگاڈریں ،جونکیں اور ہمارا خون چوسنے والی بلائیں جنہوں
نے پاکستان کو اچھے خاصے ملک سے جنگل بنا رکھا ہے اپنا علاج کرواتی ہیں رہی
بات اس جنگل کے باسیوں کیڑے مکوڑوں کی انکی خدمت کے لیے ہمارے پاس جناب
عبدالستار ایدھی صاحب ، جناب ڈاکٹر محمد رمضان چھیپا صاحب ، جناب ثناء اﷲ
خان صاحب اور جناب میاں انجم فارانی صاحب سمیت بہت سی خاموش ،گمنام
اورہمدرد شخصیات موجود ہیں جو اپنی عزت نفس کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے
غریبوں کے لیے چندہ مانگ کرخدمت خلق میں مصروف ہیں اﷲ تعالی ان سب پر اپنی
رحمتیں نازل فرمائے(آمین)۔ |