سردار ذوالفقار علی خان کی سیاست کا مہرہ کہاں جاکر ٹھرتا ہے

بیس اکتوبر کے دن اپنی 79 ویں سالگرہ منانے والے پاکستان کے سینئر ترین سیاست دان اور ٹرائبل چیف سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ آج کل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں ۔اور ،شریف برادران پر خوب گرج برس رہے ہیں ۔پاکستان مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک کے موجود ہونے کا اعلان اور اس کی سرپرستی بھی کرنے کی بات وہ مختلف نیوز چینلز پر کرچکے ہیں۔ ان کی تائد میں سندھ کے سابق وزیر اعلی PMLN کے سینئر رہنماء سید غوث علی شاہ نے بھی کی ہے۔سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور میاں محمد نواز شریف کا ساتھ 1985 سے تھا جوکہ 2014 میں تقریباََیہ ختم ہی ہوگیا ہے۔ ان کی29 سالہ رفاقت اور مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔شریف فیملی کی جلاوطنی کے دوران جاوید ہاشمی کی طرح پارٹی کی قیادت (پنجاب کے صدر کے طور پر) انہوں نے کی ہے۔ اس دوران مشرف اور، ان کے ساتھیوں کی طرف سے دی گئی لالچ آفر، یا کسی بھی دباؤ میں وہ نہیں آئے۔قید وبند کی صوبتیں بھی کاٹیں اور مقدمات کا بھی سامنا کیا مگر انہوں نے مسلم لیگ اور شریف فیملی کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے انہیں،، اپنے گھر کا فرد،،قرار دیا ہوا تھاوہ ،مسلم لیگ کی ہر حکومت کا حصہ رہے ۔صوبائی وزیر خزانہ ،بلدیات،گورنر تک کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔شریف فیملی کے بااعتماد ساتھی اور پارٹی سے دیرینہ وابستگی کی وجہ سے ان کو کئی اہم ذمہ داریاں بھی دی گئیں،اور پارٹی کے صوبائی صدر بھی رہے۔اور جب میاں شہباز شریف اسمبلی سے باہر تھے تو عارضی طور پر وزیر اعلی بنانے کی بات ہوئی اور پارٹی نے فیصلہ کیا کہ جب تک میاں شہباز شریف اسمبلی کا حصہ نہیں بنتے۔ اس وقت تک کسی بااعتماد ممبر اسمبلی کو وزیر اعلی بنایا جائے ۔تو بھی قرعہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے نام کا نکلا اور انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے سردار دوست محمد خان کھوسہ کو وزیر اعلی بنوادیا۔پنجاب کی سیاست میں سردار، ذوالفقار علی خان کھوسہ 2008سے 2013 تک اپنے عروج تھے۔اگر کہا جائے کہ وہ بلاشرکت غیرے پنجاب میں تمام معاملات میں بااختیار تھے۔تو غلط نہ ہوگا۔میاں برردارن سے دوری کا سفر اس وقت شروع ہوا جب میاں شہباز شریف نے ان کے بیٹے سردار دوست محمد خان کھوسہ سے بطور وزیر بلدیات کا قلمدان واپس لیا اور انہیں ایک ایسے محکمہ کا وزیر بنایا گیا جو ایک نئی وزارت تھی ۔جس کے اختیارات کا بھی ابھی تعین نہیں ہوا تھا۔اختلافات اس وقت اور بھی بڑھ گئے ،جب ان کے بیٹے سردار دوست محمد خان کھوسہ ،،سپنا،، کیس میں آئے اور انہوں نے سیاسی و سماجی حلقوں میں میاں شہباز شریف اوران کے صاحبزادے میاں محمد حمزہ شریف کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنی پارٹی کے سینئر ترین رہنماء وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے خلاف پریس کانفرنس کی ۔اور متعدد ،الزامات عائد کئے ۔پارٹی کی جانب سے انہیں شوز کاز جاری ہوا۔ ایک طرح سے سردار دوست محمد خان کھوسہ اور میاں محمد شہباز شریف آمنے سامنے آگئے۔ اس دوران بھی سردار دوست محمد خان کھوسہ نے پنجاب میں پارٹی کے اندر ایک فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی تھی ۔مگر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی ذاتی کوشش سے میاں محمد شہباز شریف اور سردار دوست محمد خان کھوسہ کی اپنی موجودگی میں ملاقات کرادی تھی اس ملاقات میں سردار دوست محمد خان کھوسہ نے میاں شہباز شریف سے معذرت مانگ لی اور اسی طرح اپنے تعلقات کو سابقہ سطح پر لانے کی درخواست کی ۔واقفان حال کہتے ہیں کہ میاں شہباز شریف نے سردار دوست محمد خان کی معذرت کو ان کے آئندہ کے رویوں سے مشروط کیا اور کہا کہ میری ان سے ناراضگی تو ختم ہوگئی ہے مگر ان کے ساتھ آئندہ کے تعلقات اورپارٹی میں ان کے کردار کے بارے ابھی کچھ قبل از وقت ہے۔ اور جب عام انتخابات کو شیڈول آیا تو ایک بار پھر پارٹی قیادت( میاں شہباز شریف )نے سردار دوست محمد خان کھوسہ کو ان کے حلقہ سے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی اور انہیں پارٹ ٹکٹ بھی جاری نہ کیا ۔سردار ذولفقار علی خان کھوسہ نے اس پر ایک بار پھر شدید احتجاج کیا مگر ان کی ایک نہ سنی گئی ۔جب وہ اپنے بیٹے سردار دوست محمد خان کے لیے پارٹی ٹکٹ حاصل نہ کرسکے تو انہوں نے اس وقت بھی پارٹی سے الگ ہونے کا عندیہ دیا مگر انہیں میاں برادران نے منا لیا اور سردار دوست محمد خان کھوسہ کے بجائے صوبائی حلقہ PP244 سے سردار ذولفقارعلی خان کھوسہ کے بڑے بیٹے سردار حسام الدین خان کھوسہ کو ٹکٹ جاری کردیا ۔مگر وہ الیکشن ہار گئے۔عام انتخابات 2013 میں سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کوبھی سنیٹر ہونے کے باوجود پارٹی نے صوبائی حلقہ PP243 سے امیدوار بنایا ۔اور یہ الیکشن جیت گئے مگت پارٹی کے فیصلہ کی پاسداری کرتے ہوئے ،انہوں نے اس حلقہ سے حلف نہ لیا اور یہ حلقہ خالی ہوگیا جس پر ضمنی الیکش ہوا ۔تو بھی سردار صاحب نے میاں برادران سے ایک بار پھر اس حلقہ سے سردار دوست محمد خان کھوسہ کے لیے ٹکٹ کا مطالبہ کیا مگر اس بار بھی انہیں انکار کردیا گیا ۔مگر ٹکٹ پھر بھی ان کے بڑے بیٹے سردار حسام الدین خان کھوسہ کو ہی جاری کیا گیا جو کہ پہلے ہی PP244 پر ہار چکے تھے۔اور ضمنی الیکشن پر بھی وہ ایک بار پھر ہار گئے ۔پارٹی قیادت کے اس فیصلہ پر انہوں نے سر خم تسلیم تو کیا مگر اس سے سیاسی طور پر ان کی فیملی کو بہت نقصان پہنچا۔گویا،، ان کو دیوار سے لگا دیا گیا،، پارٹی کے سینئر ترین رہنماء کے ساتھ ہونے والے سلوک کے پس منظر میں اصل حقائق کیا ہیں ۔اس پر زیادہ مغز خوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ اصل حقائق دراصل سردار دوست محمد خان کھوسہ اور میاں شہباز شریف کے درمیان شدید اختلافات ہیں ۔جنہیں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ نے کی مگر میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شریف نہ مانے اور یوں آخر کار انہوں نے چپ کا روزہ توڑتے ہوئے،میڈیا پر زبان کھولی۔اور الزامات کی ایک بوجھاڑ کردی ہے ۔ابھی تک پارٹی یا میاں شریف فیملی کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ایسا لگتا ہے کہ پارٹی اور میاں شریف فیملی نے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کوکوئی اہمیت نہیں دی۔ اور ان کی طرف سے ایسا تاثر دیا گیاہے کہ کھوسہ صاحب اور ان کے بیٹے ان کے لیے اب ماضی قصہ اور کردار ہیں۔ اور ان سے کوئی تعلق واسطہ وہ نہیں رکھنا چاہتے ۔مسلم لیگ ن سے ان کا اخراج ہوچکا ہے پس رسمی کاروائی باقی ہے۔ سردار زوالفقار علی کھوسہ نے جس طرح پارٹی قیادت کے خلاف میڈیا پر آکر باتیں کی ہیں وہ پارٹی ڈسپلن کی بھی خلاف ورزی ہے۔پہلے ہی سردار دوست محمد خان کھوسہ اسی طرح سے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرچکے ہیں۔سردار زوالفقار علی خان کھوسہ اور ان کے بیٹے کے مطابق پارٹی میں ایک فارورڈ بلاک موجود ہے۔جو تاحال منظر عام پر نہیں آیا۔مگر یہ بات بھی حقائق پر مبنی ہے کہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور ان کے بیٹوں کی پارٹی کے اندر شدید مخالفت کی جاتی رہی ہے اور یہ مخالفت اور بھی شدت اختیار کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت نے سردار صاحبان کو منانے کی بھی کوئی کوشش نہیں گئی ۔ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی یہ منطق کہ انہیں مسلم لیگ سے کون نکال سکتا ہے وہ پارٹی میں میاں صاحبان سے بھی پہلے سے ہیں اور یہ کہ مسلم لیگ کو وہ ان لوگوں سے آزاد کرائیں گے۔ سیاسی حلقوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ اس وقت سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور ان کے بیٹوں کے پاس کوئی تنظیمی عہدہ بھی نہیں رہا۔او ر وہ ا س پارٹی کے سنیٹر ہیں جس پارٹی کے صدر میاں محمد نواز شریف ہیں ۔پارٹی قیادت آج نہیں تو کل ان سے سینٹ سے بھی از خود مستعفی ہونے کا کہہ سکتی ہے یا پھر بنیادی رکینت سے انہیں فارغ کیا جاسکتا ہے۔سردارذولفقار علی خان کھوسہ کی سیاست کا مہرہ کہاں جاکر ٹھرتا ہے ۔اس کے متعلق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔مگر یہ طے شدہ بات ہے کہ وہ اب مسلم لیگ ن میں نہیں رہے۔آیا وہ کسی دوسری جماعت میں جاتے ہیں یا پھر سردار فاروق احمد خان لغاری کی طرح ایک نئی جماعت بناتے ہیں ۔اور انتخابات کے موقع پر نئی جماعت جس کے ساتھ یقینی طور پر لفظ مسلم لیگ ضرور ہوگا ۔کو مسلم لیگ کے گرینڈ الائنس کا حصہ بناتے ہیں ۔جس کے امکانات ہیں ۔سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے ایک بیٹے سردار سیف الدین خان کھوسہ پی پی پی میں شامل ہیں ۔مگر ان کے اس بیٹے کے ساتھ بھی شدید قسم کے اختلافات ہیں ۔تو گویا وہ پی پی پی میں نہیں جائیں گے پی ٹی آئی میں ان کی شمولیت اس طرح خارج از امکان ہے کہ پی ٹی آئی میں انہیں دوسری نہیں تیسری بھی نہیں شاید پانچویں یا چھٹی صف سے بھی پیچھے کی جگہ ملے۔چوہدری صاحبان کی مسلم لیگ میں بھی وہ جانے کے لیے تیار نہیں۔تو گویا اس کے چانس زیادہ ہیں کہ وہ ناراض مسلم لیگیوں اور دھڑوں میں تقسیم مسلم لیگوں کا ایک گرینڈ الائنس بنائیں اورمسلم لیگ ن کا مقابلہ کریں ۔آئندہ کے حالات اور وسط مدتی انتخابات ہونے پر اس ممکنہ گرینڈ اتحاد مسلم لیگ کی اہمیت ہوسکتی ہے۔جس طرح ماضی میں نیشنل الائنس کو حاصل ہوئی تھی اور اس الائنس نے قومی اسمبلی کی قابل ذکر نشستیں حاصل کی تھیں ۔
riaz jazib
About the Author: riaz jazib Read More Articles by riaz jazib: 53 Articles with 58650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.