بن کھلے مرجھا گئے
(Syed Ali Husnain Chishti , Bhakkar )
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ
نے مصر کے دور فرعون کی یاد تازہ کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور تھر کے پھول
پچھلے سال کیا مرجھائے تھے جو اب مرجھا رہے ہیں ننھی کلیاں سخت دل حکمرانوں
کی عیش پرستی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ گئیں فرعون نے بچوںکو قتل کیا تھا سندھ
حکومت نے لاپرواہی سے غریبوں کی امیدوں کے مراکز ان کے مستقبل کو صلیب پر
لٹکانے میں اہم ترین کردار ادا کرکے غریبوں کی حسرتوں کا خون کردیا غریبوں
معصوموں پر روتے ماتم کرتے اور کہتے رہ گئے کہ
ابھی جام عمر بھرانہ تھا
کف دست ساقی چھلک پڑا
رہی دل کی دل ہی میں حسرتیں
وہ نشاں قضا نے مٹادئیے
تھر کے بچے شاید انسانوں کے بچے ہی نہیں اگر وہ انسان ہوتے تو ان کا غم
محسوس کیاجاتا اور پچھلے سال کو سبق بنا کر یاد کیاجاتا لیکن تھر کے بچوں
کی کیا سنی جاتی سرگودھا شہر جو کہ پنجاب کا اہم ترین ڈویژن ہے جہاں کے
وزیر اعلیٰ خود کو خادم اعلیٰ کہلانا پسند کراتے ہیں ان کی حکومت میں پندرہ
مائوں کی گود اجڑ گئی وہ بچے جن کی مائوں نے نو مہینے دس دن اپنے خون سے ان
کی پرورش کی نہ جانے کتنی تکلیف درد اور اذیت کے بعد وہ پیدا ہوئے اور
ظالموں کی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ گئے نہ کوئی دل تڑپا نہ ہی کوئی آنکھ روئی
کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں
کو درد کا احساس ہی نہیں دیاجاتا کسی کو ہمدردی اور کرب ہوگا تو درد ہوگا
وہ ا یم این اے ،ا یم پی اے سینیٹرز اور وزیر جو اربوں پتی ہوتے ہیں انہیں
درد کا غریب کی تکلیف کا کیا احساس وہ تو سمجھتے ہیں کہ غریبوں کے بچے ڈھور
ڈنگر ہیں جن کا کام ہی ذبح ہونا ہے وہ تو سمجھتے ہیں کہ غریبوں کے 8-8 ،
10-10 بچے ہوتے ہیں اگر ایک آدھ مربھی گیا تو کیا ہے لیکن وہ نہیں سوچتے کہ
جن کے لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ جن کے گھر بیس سال بعد ایک ہی اولاد نرینہ
ہو تو اس کا احساس اس کے جذبات کیا ہوں گے ڈویژن کا ہسپتال اور لاپرواہی کا
یہ عالم ! الامان والحفیظ کتنی مائوں کی گود اجڑ گئی کیا کیا سپنے ان
آنکھوں نے دیکھے ہوں گے جن کی اولاد پیدا ہوتے ہی ظالموں کی کج ادائیوں کی
بھینٹ چڑھ گئی حکومت ہسپتالوں پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے اور ان میں 99%
غریب ہی جاتے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنا ان ڈاکٹرز کی ذمہ داری ہے جو حکومت
سے سالانہ لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں جنہیں اگر ان کی ذمہ داریاں یاد کرائی
جائیں تھوڑا سا ایکشن لے لیا جائے تو وہ ہسپتالوں کو تالے لگوادیتے
ہیں۔حکومت ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے یہ ڈاکٹر اتنی شدید غفلت کا مظاہرہ
کریں پوچھنے والا کوئی نہیں جو ہسپتالوں میں ڈیوٹی نہیں کرتے اگر کرتے بھی
ہیں تو شہزادوں کی طرح اور اپنے کلینکس پہ مسیحا بنے بیٹھے ہوتے ہیں بھکر
میں ایسے ہی ڈاکٹرز روزانہ پرائیویٹ پریکٹس میں لاکھوں کماتے ہیں فیسوں کی
مد میں کمیشنوں کی مد میں 200 سے 300 مریض روزانہ چیک کرتے ہیں ٹیسٹوں کی
فیس علیحدہ لیتے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انہوں نے نہیں مرنا ؟ وفاقی
حکومت کو شرم آنی چاہیے کہ سندھ اور پنجاب میں صحت کے شعبے میں کتنی سنگین
غفلت ہورہی ہے وہ صوبائی محکمہ ہائے صحت سے کیوں جواب طلب نہیں کرتی محتسب
و معزز عدلیہ کو سوموٹو نوٹس کیوں نہیں لیتی آخر کب تک غریب یونہی بے چارگی
کی موت مرتے رہیں گے ۔
منصف ہوتو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم قصور وار عوام کو بھی ٹھہرائیں گے کہ وہ اپنے حقوق
کیلئے کیوں نہیں اٹھتے کیوں اپنے حق کیلئے آواز بلند نہیں کرتے سنگین بے
ضابطگیوں کے خلاف عدالت عالیہ کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتے پہلے ہی
پاکستان نوزائیدہ بچوں کی اموات میں ٹاپ کے ملکوں میں ہے اوپر سے غریبوں کے
بچے ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ہم کہے دیتے ہیں کہ حکمران
اور ڈاکٹر حشر کے دن مجرموں کی صف میں ہوں گے اور یہ بچے مجرموں کے گریبان
ضرور پکڑیں گے ہم وفاقی حکومت سے احوال کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صورت حال
کو بہتر بنائیں اور کمیشن مقرر کرکے ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنائیں ہم
نے خود ہسپتالوں کا حال دیکھا ہے کہ جو درگت مائوں کی بنتی ہے لیڈی ڈاکٹرز
تکبر کی دیویاں بنی بیٹھی ہیں اگر وہ پرائیویٹ کلینکس پر زیادہ توجہ دیتی
ہیں تو سرکاری مناصب سے انہیں فارغ کردیاجائے چائلڈ سپیشلسٹ جو کہ پرائیویٹ
کلینک چلاتے ہیں انہیں وارن کیاجائے آپ ان کے کلینکس میں جاکر دیکھیں کیا
حال ہے ہم پوری ایمانداری سے کہتے ہیں ان کے ڈسپنسر صرف انجیکشن لگانے کے
دس روپے وصول کرلیتے ہیں بقایا حال کیا ہوگا ہر ذی شعور شہری سوچ سکتا ہے
عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے ڈاکٹرز کا محاسبہ
کریں ورنہ وہ یونہی بے موت مرتے رہیں گے اور یہ نام نہاد مسیحا یونہی عوام
کو در خود اعتناء سمجھتے رہیں گے ہم تو یہی دعا کریں گے کہ جان بوجھ کر
لاپرواہی اور غفلت اور ظلم کرنے والوں کو رب کریم کبھی سکھ نہ دے - |
|