سرگودھا ہسپتال میں بچوں کی اموات.... ذمے دار کون؟

پنجاب حکومت و انتظامیہ کی نا اہلی کے باعث سرگودھا کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے گزشتہ پانچ روز سے معصوم و نومولود بچے دم توڑ رہے ہیں اور گزشتہ 5 روز میں سرگودھا کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 22 ہوگئی ہے، جبکہ4 کی حالت نازک ہے۔ ذرائع کے مطابق سرگودھا ہسپتال میں بچوں کی اموات طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ہوئی ہے، کیونکہ یہاں بچوں کو اکسیجن اور دیگر طبی سہولیات کی کمی کے ساتھ ہسپتال کے عملے کی غفلت کا سامنا ہوا، جس کی وجہ سے گزشتہ پانچ روز میں سرگودھا کے ڈی ایچ کیوں ہسپتال میں بائیس معصوم بچے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کر چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں 25 بستر اور پانچ انکوبیٹر موجود ہیں، مگر وہاں جمعے تک 50 نومولود بچے ایڈمٹ تھے، جن میں سے 20 کی حالت نازک تھی، جبکہ صرف 5 بچوں کو ہی انکوبیٹر کی سہولت فراہم کی جا سکی ہے۔ سرگودھا ٹیچنگ ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر سکندر نے دعویٰ کیا ہے کہ سرگودھا ہسپتال میں دم توڑنے والے نومولود بچوں میں سے اکثریت ان بچوں کی تھی، جن کی پیدائش غیر تربیت یافتہ دائیوں کی نگرانی میں ہوئی۔ حمل کے دوران ماؤں کو جب مناسب خوراک نہیں ملتی تو اس وجہ سے ماں کے پیٹ میں بچوں کی نشوونما میں کمی رہ جاتی ہے، جس کی وجہ سے پیدائش کے بعد وہ مختلف طبی پیجیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہسپتال میں نوائیدہ بچوں کے لیے 25 بستر ہیں، لیکن مریض نوزائیدہ بچوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے ایک انکوبیٹر میں بعض اوقات دو بچوں کو بھی رکھا جاتا ہے۔ جبکہ ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کی گئی ابتدائی تحقیقات کے مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال میں جاں بحق ہونے والے بچوں میں سے چھ ایسے تھے، جن کا پیدائش کے وقت وزن کم تھا، پانچ وہ تھے جن کی پیدائش قبل از وقت ہوئی اور دو بچے ایسے تھے جن کو ہسپتال میں اس وقت لایا گیا جب ان کے جسم میں انفیکشن پھیل گیا تھا۔ ان بچوں کی ہلاکت میں طبی عملے کی سستی یا سہولیات کی کمی کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی ہے۔ یہ ایک ٹیجنگ ہسپتال ہے اور یہاں پر بچوں کے علاج کی مناسب سہولیات موجود ہیں، لیکن مرنے والے بچوں کے لوحقین نے اس دعوے کی سختی سے تردیدکی ہے۔ بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے جگر گوشے ہسپتال میں آکسیجن کی کمی اور دیگر سہولیات کے فقدان کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں، ہسپتال میں کوئی پرسان حال نہیں۔ موقع پر موجود مریض بچوں کے لواحقین میں سے بعض کا کہنا تھا کہ ساری رات لیڈی ڈاکٹر ز سوتی رہیں، جبکہ ایمرجنسی میں آئے ہوئے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری رہا۔ جبکہ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ میرے بچے کی سانس کی نالی ناک سے اتر گئی تھی، بارہا لیڈی ڈاکٹر ز کو جگانے کی کوشش کی، مگر کوئی ڈاکٹر یا اسٹاف عملے نے ہماری مدد نہیں کی۔ مریضوں کے لواحقین کا ہسپتال انتظامیہ کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ایم ایس سول ہسپتال ڈاکٹر اقبال سمیع کی نا اہلی ہے، کیونکہ انہوں نے کبھی رات کو راونڈ ہی نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ ٹیچنگ ہسپتال سرگودھا میں MS سمیت دیگر ڈاکٹروں کی غفلت اور لا پرواہی سے درجنوں افراد جاں بحق اور متعدد مریضو ں کو ان کے لواحقین پرائیویٹ ہسپتالوں میں شفٹ کروا کر لے جا چکے ہیں۔ انتظامیہ کی غفلت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اکسیجن کی کمی کے باعث جب پہلے دن بچوں کی اموات ہوئی تو فوری طور پر بعد میں اکسیجن کی کمی کو دور کرنا چاہیے تھا لیکن انتظامیہ نے مسلسل غفلت کا مطاہرہ کیا، جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔

دوسری جانب ڈی ایچ کیو سرگودھا میں ہونے والی ان ہلاکتوں کی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی نرسری میں آکسیجن کی کوئی کمی نہ تھی اور تمام مشینری معمول کے مطابق کام کر رہی تھی، لیکن ہسپتال کو حکومت کی جانب سے فراہم کردہ طبی سہولیات ناکافی ہیں۔ مرنے والے بچوں کو تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا، جبکہ ہسپتال میں 25 نومولود بچوں کے علاج معالجے کی گنجا ئش ہے، مریض بچوں کی تعداد دوگنی ہونے کے باعث ایک انکیوبیٹرز میں تین تین بچے رکھے گئے تھے۔ اموات کی ایک وجہ ادویات کی کمی بھی تھی، اسی طرح ہسپتال کی ابتر صورتحال اور جدیدطبی سہولتوں کے فقدان کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 روز قبل ہسپتال میں 8 بچوں کی اموات کے وقت صرف ایک نرس وہاں تعینات تھی، جس نے صبح اپنا بیان ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اقبال سمیع کو ریکارڈ کرایا، جسے دبا دیا گیا۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ انکیوبیٹرز مشینوں کی کمی کو دور کیا جائے۔ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر وزیراعلیٰ شہبازشریف کا کہنا تھا کہ وہاڑی اور سرگودھا کے ہسپتالوں میں معصوم بچوں کی اموات کے المناک واقعات ناقابل برداشت ہیں۔ ذمہ داروں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات درج کرکے ان کی فی الفور گرفتاری اور سخت قانونی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایسے عناصر کو سخت ترین سزائیں دی جائیں، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی مجرمانہ غفلت کی جرآت نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈاکٹر اقبال سمیع کو فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے دعوؤں اور وعدوں کے باوجود اب تک ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں 2 وینٹی لیٹر نہیں لگائے گئے، جس کی وجہ سے بچوں کو طبی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات درپیش ہیں، لہٰذا فوری طور پر وینٹی لیٹر کا لگانا انتہائی ضروری ہے۔

سرگودھا ہسپتال میں طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث بچوں کی اموات حکومت و انتظامیہ کے لیے باعث شرم اور لمحہ فکریہ ہے۔ صحت ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کے ہر شہری کو صحت کے حوالے سے تمام ضروریات و سہولیات فراہم کرے۔ ملک کے ہر شہری کی جان نہ صرف شہری کے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی انتہائی عزیز ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں شہری جہاں اور بہت سی ضروریات و سہولیات سے محروم رہتے ہیں، وہیں صحت جیسے حساس معاملے میں بھی حکومت کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔ سرگودھا ہسپتال میں مرنے والے بچوں کی اموات کا سبب صرف اور صرف طبی سہولیات اور انتظامیہ میں احساس ذمہ داری کا فقدان ہے۔ بچوں کی معصوم زندگیوں سے کھیلنے والے کڑی سے کڑی سزا کے مستحق ہیں، لہٰذا ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق بلاامتیاز کارروائی ہونی چاہیے، اس کے ساتھ حکومت کوخصوصاً ہسپتالوں میں فوری طور پر طبی سہولیات کی کمی کو پورا کرنا ہوگا، تاکہ مزید نقصان سے بچا جاسکے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے متعدد ہسپتالوں میں متعدد قسم کی سہولیات کا فقدان رہتا ہے۔ بہت سے ہسپتال آکسیجن سپلائی سسٹم سے محروم ہےں، جبکہ متعدد ہسپتالوں میں سی ٹی سکین مشین، وینٹی لیٹرز، الیکٹرک بیڈز سمیت زیادہ تر مشینری خراب ہوتی ہے۔ سہولیات کی کمی کی وجہ سے نہ صرف عوام الناس کو علاج معا لجے کے حوالے سے مسائل کا سا منا رہتا ہے، بلکہ آئے روز مختلف شہروں میں بچوں سمیت مریضوں کی اموات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے ساتھ پاکستان میں بچوں اور مریضوں کی اموات کا ایک بڑا سبب جعلی ادویہ بھی ہیں۔ چند سال قبل پاکستان جعلی ادویہ کی تیاری میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔ جعلی ادویات کے حوالے سے پاکستان کا تیسرے نمبر پر آنا ایک شرمناک بات تو ہے ہی، اس کے ساتھ انسانی زندگی کے حوالے سے سب کے لیے انتہائی خطرناک بات بھی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق پاکستان میں بکنے والی ادویات چالیس سے پچاس فیصد تک جعلی ہوتی ہیں۔ لہٰذا حکومت کو فوری طور پر جعلی ادویہ کی روک تھام کے لیے بھی سخت اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.