پرویزمشرف آئین شکنی کیس پاکستان کی آئینی و قانونی تاریخ
کا اہم ترین کیس ہے کیونکہ اِس کیس کے نتائج ہی نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک
میں آئین کی حکمرانی ہوگی یا ’’جس کی لاٹھی ،اُس کی بھینس‘‘کا قانون رائج
ہوگا۔یہ کیس فی الحال تو ختم نہیں ہوا لیکن خاتمے کی طرف گامزن ضرور ہوگیا
۔آئین شکنی کیس کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت نے پرویزمشرف کی طرف سے
دائر کردہ درخواست پر جو فیصلہ سنایا اس سے بظاہرتو یہی محسوس ہوتا ہے کہ
معاملہ ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہوگیا۔
پرویزمشرف صاحب کے وکیل فروغ نسیم نے خصوصی عدالت میں یہ درخواست دائر کی
تھی کہ 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی میں اُن کے ساتھ600فوجی اور سول معاونین
بھی تھے اِس لیے اُن کو بھی شاملِ تفتیش کیا جائے ۔خصوصی عدالت نے یہ
درخواست جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیرِاعظم شوکت عزیز،وزیرِ
قانون زاہد حامد ، چیف جسٹس آف پاکستان عبد الحمیدڈوگراور دیگر کو بھی
مقدمہ میں شامل کرنے کا حکم جاری کیا ۔خصوصی عدالت نے یہ حکم بھی جاری کیا
کہ اِن اصحاب کے بیانات قلمبند کرکے دو ہفتوں میں دوبارہ درخواست دائر کی
جائے ۔فیصلہ سُنتے ہی پرویزمشرف کے وکیل کے مُنہ سے نعرۂ تحسین بلند ہوا
اور نوازلیگ کے وکیل’’نیویں نیویں‘‘ ہوکر عدالت سے نکل گئے ۔اِس فیصلہ پر
حکومتی ردِعمل تو ظاہر نہیں ہوا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت ’’وَخت‘‘میں
ضرورپڑ گئی ہوگی کیونکہ ایمرجنسی کا ڈرافٹ اُس وقت کے وزیرِقانون زاہدحامد
نے تیار کیا تھا ۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں ’’لوٹاکریسی‘‘اب فَن
کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔زاہدحامد نے بھی ہوا کا رُخ پہچانتے ہوئے 2013ء کے
انتخاب سے پہلے نوازلیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور انتخابات کے بعد وفاقی
وزیر بن گئے ۔ عدالتی فیصلہ آنے کے 15 منٹ بعد ہی زاہدحامدصاحب نے
’’بستربوریا‘‘لپیٹ کر اپنا استعفیٰ وزیرِاعظم صاحب کہ بھیج دیا ۔ہمارے
وزیرِ اعظم صاحب اتنے ’’دبنگ‘‘ہیں کہ بِناسوچے سمجھے قدم بڑھا دیتے ہیں اور
جب ’’وخت‘‘میں پڑتے ہیں توپھر گلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’لوگ کہتے تھے کہ
قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے
کوئی بھی نہ تھا‘‘۔اب بھی اُنہوں نے آئین وقانون کی حکمرانی کے شوق میں قدم
توبڑھادیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اُن ’’مشرفیوں‘‘کا کیا بنے گا جو کل مشرف
کے دست وبازو تھے اور آج اُنکے کاسہ لیس ۔ ہمارے ’’خادمِ اعلیٰ ‘‘کے بڑے
بھائی ’’خادمِ اعظم ‘‘ توپہلے ہی علامہ قادری اور کپتان صاحب کے ہاتھوں
’’اوازار‘‘تھے اب خصوصی عدالت نے بھی ’’کھڑاک‘‘کردیا ۔سیانے کہتے ہیں کہ
’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘ اِس لیے موجودہ صورتِ حال کے تناظرمیں ہم یہی
کہہ سکتے ہیں کہ
اب کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
دروغ بَر گردنِ راوی جونہی پرویزمشرف صاحب تک عدالتی فیصلے کی خبر پہنچی تو
اُنہوں نے وفورِ مسرت سے طبلے اور سارنگی پرراگ ملہار چھیڑدیااور آخری
خبریں آنے تک وہ گاتے ہی چلے جارہے ہیں کیونکہ جانتے وہ بھی ہیں کہ اب
معاملہ لمبا ہی کھنچے گا ،شاید اتنا لمبا کہ ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سَر
ہونے تک‘‘۔سوال مگر یہ ہے کہ ہمارا آئین ہے کہاں اور قانون کی حکمرانی کِس
چڑیا کا نام ہے؟۔اِس آئین وقانون کی دھجیاں بکھرتے ہم پچھلے سو دِنوں سے تو
دیکھ ہی رہے تھے ،اب آئین کے محافظوں نے بھی دھماکہ کر دیا۔ہم تو میموگیٹ
سکینڈل میں ایک مستعفی سفیر کو امریکہ سے پاکستان نہ لاسکے ،بھلا سابق
وزیرِاعظم شوکت عزیز کو کیسے لائیں گے۔اگر خصوصی عدالت کی ’’دیگر‘‘سے مراد
وہ 600 افراد ہیں جنہیں پرویزمشرف صاحب نے شاملِ تفتیش کرنے کی درخواست کی
تھی تو پھر اِس کیس کا فیصلہ اگلی صدی تک ہی ممکن ہے ۔اِس لیے ہمیں یقین ہے
کہ پرویزمشرف کے ’’پَڑپوتوں‘‘کی اولاد یہ فیصلہ سُن ہی لے گی،اگر وہ بھی نہ
سُن سکی تو ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ اُن کی اولاد ضرور سُنے گی ۔اِس فیصلے کے
بعداگرکسی طالع آزما کو’’ طالع آزمائی‘‘ کا شوق چرائے تو اُسے نوید ہو کہ
پاکستانی عدالتیں ایسے فیصلے’’صدیوں‘‘ تک کھینچ لے جانے کی صلاحیت رکھتی
ہیں۔
ہم تو سمجھتے تھے کہ سپریم کورٹ ہی سب سے ’’اُچی تے وَڈی‘‘عدالت ہوتی ہے
لیکن ہماری خصوصی عدالت نے تو اُس کے فیصلے کو بھی ’’پھَڑکا‘‘کے رکھ
دیا۔عدلیہ بحالی کے بعد 2009ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سَربراہی
میں سپریم کورٹ کے 17 رُکنی فُل کورٹ نے متفقہ فیصلہ دیا تھا کہ صرف
پرویزمشرف ہی 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے واحد ذمہ دارہیں ۔فیصلے میں یہ
بھی واضح طور پر لکھا گیاتھا کہ ایف آئی اے سمیت کسی بھی تحقیقاتی ادارے کی
انکوائری میں کور کمانڈرز یا سول حکومت کے ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا
۔دوسری دفعہ لارجر بینچ کی قیادت چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کی اور اِس
مرتبہ بھی یہی فیصلہ سامنے آیا کہ پرویزمشرف صاحب ہی 3نومبر کی ایمرجنسی کے
واحد ذمہ دار تھے ۔اب بھی خصوصی عدالت کے رُکن جسٹس یاورعلی کے مطابق
پرویزمشرف صاحب کے وکیل نے خصوصی عدالت میں ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جس
سے ثابت ہوسکے کہ 3نومبر کی ایمرجنسی میں کوئی اور بھی ملوث تھا ۔خصوصی
عدالت کے اِس فیصلے میں جسٹس یاور علی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے ۔اُنہوں
نے دیگر 2 اراکین کی رائے سے یکسر مختلف نوٹ لکھا ۔جسٹس یاور نے سپریم کورٹ
کے فیصلے کے عین مطابق یہ لکھاہے کہ پرویزمشرف ہی اِس اقدام کے واحد ذمہ
دارتھے۔جب سے خصوصی عدالت میں پرویزمشرف آئین شکنی کیس شروع ہوا ہے ،اِس پر
’’بزرجمہروں‘‘کے متواتر تبصرے سُن سُن کر کان پَک گئے ۔ہمیں تو یقین تھا کہ
پرویزمشرف سزا سے نہیں بچ سکیں گے لیکن آئینی وقانونی موشگافیوں سے نابلد
ہونے کے باوجود اتنی سمجھ ہمیں بھی ہے کہ پرویزمشرف صاحب پر آرٹیکل چھ کا
اطلاق اب شاید ممکن نہ رہے اور اِس کیس میں بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘کا ہی سہارا
لینا پڑے۔ |