30 نومبر کو اب کیا ہوگا
(mohsin shaikh, hyd sindh)
وہ جو آئے تھے گھن گرج کے ساتھ
وہ بن برسے ہی لوٹ گے، گرم آلود ہوائيں بند ہوئی تو اب سرد ہوائوں کے جھوکے
چل رہے ہیں، جن دنوں دھرنوں کے بادل زور و شور سے چڑھے ہوئے تھے، اہل
اقتدار کے چہرے اترے ہوئے تھے، ہر ڈوبتے سورج کے ساتھ انکے ڈوبنے کا گمان
ہوتا تھا، بے سرے الزام تھے، جبڑے کھینچ کر مسکرانے کی کوشش کرتے، ارے چہرہ
ہی تو دل کا آئينہ ہوتا ہے، پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، دھرنوں کا شور و غل
تھم گیا، دھرنوں کے بادل بن برسے ہی چپ سادھے لوٹ گے، ایک بار پھر اہل
اقتدار کے چہرے کھل اٹھے، پھر وہی ہوا جس خدشے کا ظہار کیا جارہا تھا، کس
کا جادو چڑھا اندونی خانے میں کیا کیا ہوا، کہانیاں سینہ بہ سینہ نکل ہی
آتی ہیں،
پھر وہی اہل اقتدار کے چہروں پر تکبرانہ انداز کی مسکراہٹ تیز وتند بیانات
طعنوں میں مزاح کا تڑکا آگیا، فاتحانہ انداز کی میٹنگوں میں ہم سا ہوں تو
سامنے آنے والا انداز نمو دار ہوگیا، آفائوں نے اپنے چیلوں کو طنز و طشنیع
سے کام لینے سے اور ہار ماننے والوں کو شرمسار کرنے سے منع کیا، اب لوگ
حیران کن بیٹھے سوچ رہے ہیں، وہ جو گھن گرج کے ساتھ آئے تھے، وہ بن برسے
واپس کیوں چلے گئے، کون لایا تھا انہیں، کون لے گیا۔ وہ جو کہتے تھے کہ 48
گھنٹوں ميں نواز حکومت چلی جائے گی، اور 48 گھنٹوں میں نیا عبوری نظام قائم
ہوجائے گا، موجودہ حکمرانوں کو جیل ہوجائے گی، اور اقتدار غریبوں کو منتقل
ہوجائے گا،
وہ جو کہہ رہے تھے کہ کفن پہن لو قبریں کھود لو، اور ظالم حکمرانوں کو خلاف
ڈٹ جائو، فیصلا کن گھڑی آن پہنچی ہیں، پھری کفن بھی پہن لیے گئے، قبریں بھی
کھودی گئی، حکمرانوں پر گرجا گیا برسا گیا، پر نتیجہ کـچھ نہیں نکلا، سب
کچھ بے سود رہا، نا اہل حکمران تو نہ گئے، البتہ خود اٹھ کر چلے گئے، 21
اکتوبر کو طاہرالقادری اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چل دیے، وہ جن کے ساتھ عہد
وفا نبھانے کا وعدہ کیا تھا، عہد وفا توڑ گئے، ساتھی بیٹھے رہے گئے، خود چل
دیے، اب عمران خان 30 نومبر کے طوفان کی بڑھکیں کیوں مار رہے ہیں، پہلے کچھ
نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا،
پھر کچھ یوں ہوا کہ نیلوفر طوفان کا شور برپا ہوا اور نیلوفر بڑی تیز و تند
شدت کے ساتھ پاکستان آرہا ہے، ابھی نیلوفر 500 کلو میٹر دور تھا کہ خبر
داری کے اعلانات ہورہے تھے، سمندر بھی سینہ کھولے بیٹھا تھا، یہ عوام اتنی
سر پھری ہیں کہ بجائے ڈرنے کہ نیلوفر کا نظارہ دیکھنے ساحل پہ پہنچ گئے، یہ
حیران کن بات ہیں، بات یہ ہے کہ اس عوام نے سونامی بھی دیکھ لیے اور انقلاب
بھی دیکھ لیے، یہ عوام بڑے سے بڑے خطرے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار
کرلیتی ہیں، سوچا کیوں نہ اب نیلوفر کا جوش و دبدبہ بھی دیکھا جائے، نیلوفر
نے جب یہ دیکھا کہ یہ سر پھری عوام مجھے سے ڈرنے کے بجائے میرے استفبال کے
لیے ساحل پر بیٹھی ہیں، تو نیلوفر نے اپنا رخ بدلنے میں ہی خیر وعافیت
سمجھی، اور رخ موڑ کر بھارتی ساحل پر چل پڑی، بھارت میں نیلوفر کا نام ہدہد
تھا، اور ہدہد نے اپنا تمام جوش و غصہ بھارتی ساحل پر نکال دیا، ہد ہد نے
وہاں تباہی مچائی اور نیلوفر نے دلہنوں والی ادائے نبھائے،
حالیہ دھرنوں سے حکومت پر بہت فرق پڑا ہے، دھرنوں سے حکومتی جڑیں ہل ضرور
گئیں ہیں، تیز آندھی سے اگر درخت کی جڑیں ہل جائے تو وہ کبھی بھی زمین پر
مضبوطی سے کھڑے نہیں رہے سکتے، تیز ہوا کے چلنے سے گرنے کا دھڑکا لگا ہی
رہتا ہے، اب اس حکومت کو چار سال مل جائے تو دھڑکے میں ہی گزارنے ہیں، اب
ماحول بدل رہا ہے، عوام اپنے حقوق کے لیے آوازیں اٹھا رہے ہیں، اب عوام
اپنے حقوق چاہتی ہیں، 30 نومبر کے حوالے سے میڈیا پر بحث و تکرار کے تجزیے
چل رہے ہیں کہ 30 نومبر کو اب کیا ہوگا، کیا 30 نومبر کے بعد واقعی تبدیلی
آجائے گی، پہلے تبدیلی نہیں آئی تو اب کیا آئے گی، یہ تبدیلی لانے والے
سیاسی سودا گرو نے بھی عوام کو کٹھ پتلی کا تماشہ بنایا ہوا ہے،
اب تو شاہد لگتا ہے کہ مزید بربادی ہماری منتظر ہیں، اب سونامی نہیں تباہی
آئے گی، اب انقلاب نہیں عذاب آئے گا، سونامی کی تقرریں کرنے سے سونامی نہیں
آیا کرتے، انقلاب کے نعرے لگانے سے انقلاب نہیں آیا کرتے، اور اگر یہ
انقلاب تھا تو کیسا انقلاب تھا کہ عوام چار ماہ سڑکوں پر بیٹھی رہی،اور
تنیجہ کچھ نہیں نکلا، اور اگر یہ سونامی ہیں تو کیسا سونامی ہیں، جو اگست
سے اب تک عوام کو سڑکوں پر لیے بیٹھا ہے، اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی نہ
نظام بدلا نہ حکمراں ٹھس سے مس ہوئے،، بھائی لوگوں یہ تماشہ لگانے کی کیا
ضرورت تھیں، عوام کو سہانے خواب دیکھانے والوں یہ تو بتائوں عوام کو خوابوں
کی تعبیر اب کب ملے گی، عجلت میں عوام کو نہ جینے دیا جاتا ہے، نہ مرنے- |
|