امریکی اخبارات نے این آر او یا عام معافی کے
متنازع قانون کی پاکستان کو سپریم کورٹ کی طرف سے غیر آئینی قرار دیے جانے
کی خبروں کو نمایاں طور پر شائع کیا چار بڑے امریکی اخبارات نے سپریم کورٹ
کی طرف سے این آر او کو مسترد کیے جانے کی خبروں میں ایک بات واضح طور
مشترک لکھی ہے کہ این آر او کے مسترد قرار دیے جانے کے بعد پاکستان کے صدر
زرداری، جنہیں امریکہ اپنا قابل اعتماد اتحادی سمجھتا ہے اور جو پہلے ہی
اپنے عہدے کو بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد
اپنے عہدے کے حوالے سے مزید خطرات میں گھر گئے ہیں اور انکی پہلے سے ہی،
بقول ان امریکی اخبارت، ’نامقبول حکومت مزید نا مقبولیت میں ڈوب جائے گی۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے سے زرداری کے لیے قانونی
چیلنجوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ امریکی دارالحکومت سے شائع ہونے والے اس
با اثر اخبار نے لکھا ہے کہ یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب امریکہ پاکستان کے
ساتھ شراکت داری میں تیس ہزار اضافی فوجیں افغانستان بھیج رہا ہے اور چاہتا
ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کا قلع قمع کرے۔ اخبار لکھتا
ہے’لیکن زرداری کی پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ اس سطح کے تعاون کا
فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے بجائے صدر آصف علی زرداری اپنی تمام زور فقط اپنے
عہدے بچانے پر لگاتے کرتے رہے ہیں۔ انکی یہ ایک ایسی ٹاسک ہے جو اب عدالتی
فیصلے آنے کے بعد مزید مشکل ہوگئی ہے۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ لکھتا ہے کہ اگرچہ صدر زرداری کے خلاف ایسا فیصلہ
متوقع تھا لیکن سترہ ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی بینچ نے آگے بڑھ کر سوئیس
حکام سے زرداری کے خلاف مقدمہ کھولنے کو بھی کہا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک بھی سزا یافتہ ہیں اور اب شاید وہ بھی
اپنی سزا کے خلاف عدالت میں اپیل کرنے پر مجبور ہوں۔ ’نیویارک ٹائمز‘ نے
لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں این آر او کے خلاف مقدمے میں دلچسپ سوال چیف
جسٹس افتخار محمد چودھری نے یہ بھی اٹھایا کہ آخر این آر او کے تحت مقدمات
میں معافی ملنے کے بعد صدر زرداری کو ساٹھ ملین ڈالر سوئٹزر لینڈ میں پہلے
منجمد کیے جانے والے بینک اکاؤنٹس سے منتقل کرنے کی کس نے اجازت دی؟
’واشنگٹن پوسٹ‘ لکھتا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ سوئیس حکام کیا قدم
اٹھاتے ہیں لیکن زرداری پر مبینہ طور لاکھوں کے کالے دھن کو ناجائز طور
سفید کرنے(یعنی منی لانڈرنگ) کے الزامات ہیں اور سال دو ہزار تین میں منی
لانڈرنگ کے ایک مقدمے میں سوئٹزر لینڈ کے ایک مجسٹریٹ کی عدالت نے انہیں
سزا سنائی تھی جسے بعد میں معطل کردیا گیا تھا۔ صدر زرداری ایسے الزمات کی
تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں ایسے مقدمات ان کے خلاف سیاسی بنیاد پر بنائے
گئے تھے۔ اخبار نے سابق بیورو کریٹ روئیداد خان ( جو سپریم کورٹ میں این آر
او کے خلاف ایک مقدمے میں مدعی تھے) سے اپنے نمائندے کی بات چیت کا بھی
حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے زرداری
جنہوں نے، بقول روئیداد خان ’پاکستان کے غریب عوام کا پیسہ لوٹا ہے تباہ
ہوجائیں گے۔
اخبار لکھتا ہے کہ صدر زرداری کے پاکستان کی فوج جو کہ ملک کی آدھی عمر تک
اس پر حکومت کرتی رہی ہے (فوجی) قیادت کے ساتھ کمزور تعلقات ہیں تاہم
امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس جنہوں نے پاکستان کے گزشتہ دورے
پر پاکستانی صحافیوں سے کہا تھا کہ انہیں ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آئی کہ جس
سے وہ سمجھیں کہ پاکستانی فوج اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔اخبار ’نیویارک
ٹائمز‘ نے این آر او کو سپریم کورٹ کی طرف سے غیر آئینی قرار دیے جانے کی
خبر کو نمایاں شائع کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری جن کو امریکہ دہشتگردی
کے خلاف جنگ میں قابل بھروسہ پارٹنر سمجھتا ہے کی پوزیشن پاکستان کے سیاسی
منظر میں کمزور ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ان کے
اختیارات مزید کم ہو کر رہ جائیں اور وہ بطور صدر اپنے عہدے پر برقرار تو
رہیں لیکن محض برائے نام اختیارات کے علامتی دھنی بنکر۔اخبار ’نیویارک
ٹائمز‘ یہ بھی لکھتا ہے کہ صدر زرداری کو اپنے عہدے سے الگ کرنے کا واحد
قانونی طریقہ ان کا پا رلیمان کے ذریعے مواخذہ بچتا ہے لیکن اس کے لیے بھی
دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ اخبارات ’لاس اینجلز ٹائمز‘ اور ’وال سٹریٹ
جرنل‘ نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے اور صدر زرداری کے اس سے جڑے ہوئے مستقبل
کے بارے میں نمایاں طور پر خبریں شائع کی ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل نے پاکستان
کے ممتاز قانون دان فخر الدین جی ابراہیم سے اپنی بات چیت کا حوالہ بھی دیا
ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ممکن ہے کہ جو استثنا صدر کو حاصل ہے وہ
سپریم کورٹ بدعنوانی کے مقدمات میں رد کرسکے۔ |