قائد اعظم ایک عظیم قائد ہی نہیں
ایک بہترین انسان اور عوام کا ہمدرد تھے۔ انہوں نے ہمیشہ انسانوں اور
مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کام کئے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک مستحکم ملک کی
حیثیت دینے کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا۔ بیماری اور صحت کی خرابی
نے انہیں اتنی زیادہ مہلت نہ دی کہ وہ اس ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر
جاتے لیکن انہوں نے ہمیشہ اعلیٰ اصولوں کی پیروی کی۔ آج بانی پاکستان کی وہ
تقریر یاد آجاتی ہے جو انہوں نے 11 اگست 1947ء میں ارکان آئین ساز اسمبلی
کو مخاطب کر کے فرمائی تھی۔ قائداعظم نے فرمایا تھا: ”مجھے دوسرے ممالک کا
زیادہ علم نہیں مگر آج ہمارے خطے کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور رشوت ہے
کرپشن زہر کے مانند ہے۔ مجھے یقین ہے ارکان اسمبلی یہ زہر ختم کرنے کیلئے
دل و جان سے کوششیں کریں گے۔“ قائد کو پاکستان کے قائم اور دائم رہنے پر بے
انتہا یقین تھا۔ جب ہندو اس ملک کے جلد دیوالیہ ہوجانے کی باتیں کرتے تھے۔
تو انہوں نے ۵ نومبر ۴۴۹۱ کو مسلم لیگ کے پلاننگ کمیٹی کے اجلاس میں کہا
تھا۔ ہمارے پاس پاکستان میں پیٹرولیم، کوئلے،خام لوہے اور دوسری معدنیات کے
ذخائر موجود ہیں۔ میں ان بیانات میں کسی مبالغہ آرائی کو قبول نہیں کرتا
میں بحیثیت ایک عام آدمی کے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں پاکستان کبھی
دیوالیہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک مستحکم ریاست ہوگی۔ اگرچہ یہ اتنا دولت مند نہیں
ہوگا جیسے کہ ہندوستان۔ اسی تقریر میں قائد نے فریا تھا کہ آپ سے میری
دوخواست ہے کہ یہ نکتہ لازمی طور پر اپنے ذہن میں رکھیں کہ ہمارا مقصد یہ
نہیں ہے کہ امیر، امیر تر ہوجائیں اور چند افراد کے ہاتھوں میں دولت کو جمع
کرنے کا عمل تیز کردیا جائے۔ ہمارا مقصد عوام کے عمومی معیار زندگی کو
یکساں طور پر بلند کرنا ہوگا۔ ہمارا نصب العین سرمایہ دارانہ نہیں بلکہ
اسلامی ہونا چاہئے۔
یہ تھے ہمارے قائد اور ان کے رہنما اصول آج ہمارے سیاست دانوں، تاجروں،
بیورو کریٹ، اور بااثر طبقے نے اس ملک کو لوٹ مار کر کے کیا بنا دیا ہے۔
افسوس بانی پاکستان کے بعد سیاستدانوں سے لے کر بیورو کریسی تک میں کرپشن
کی سبھی اقسام نے پرورش پائی۔ دنیا میں کرپٹ حکمران کبھی پھل پھول نہ سکے۔
انڈونیشیا کا”مرد آھن“ جنرل سوہارتو قومی خزانہ لوٹنے، مخالفین پر ظلم وستم
ڈھانے اور غیروں امریکیوں کی چاکری کرنے میں سرفہرست ہے تاہم اس کا دور
حکمرانی نیک و بد کا عجیب امتزاج ہے۔ جنرل سوہارتو دور حکمرانی سے پہلے دس
برس تو ملک کی تعمیر و ترقی میں محو رہا لیکن پھر ذاتی خواہشات، اولاد و
عزیز اوقارب کی ’ضروریات“ اور دیگر انسانی کمزوریاں اس پر غالب آگئیں۔ اس
نے قومی خزانے سے رقم لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے۔ اس کی دیکھا دیکھی
دوسرے سیاست دان بھی جب اقتدار میں پہنچے تو مختلف طریقے اپنا کر کرپشن
کرنے لگے۔ یوں انہوں نے بھی اپنے ملکی و غیر ملکی اکاؤنٹ لوٹ مار کی رقم سے
بھر لیے۔ یہ ساری کرپشن بڑی صفائی سے ہوئی تاکہ ان کے خلاف کم سے کم ثبوت
سامنے آسکیں۔ فلپائن کا حکمران فرڈینڈ مارکوس نے 1965ء میں اقتدار سنبھالا
اور 1986ء میں رخصت ہو گیا اس دوران مارکوس نے کرپشن کے کئی ریکارڈ توڑ کر
تاریخ میں اپنا نام ”محفوظ“ کرالیا اور دوسروں کیلئے عبرت ناک مثال بن گیا۔
مارکوس نے اپنا اثرو رسوخ بڑھانے اور اقتدار بحال رکھنے کیلئے پہلا کام یہ
کیا کہ عدلیہ بیورو کریسی اور فوج میں اپنے ”آدمی“ مقرر کر دئیے اس ضمن میں
رشوت دھونس اور دھمکی سے خوب کام لیا گیا۔ بعد ازاں اس نے ارکان اسملی کی
تجوریاں بھر کر آئین میں من مانی تبدیلیاں کرا لیں۔ یوں یہ شق ختم ہو گئی
کہ کوئی آٹھ سال بعد دوبارہ صدر نہیں بن سکتا۔ اقتدار کو دوام بخشنے کے بعد
مارکوس اور اس کے عزیز و دوست کھل کر کھیلے۔ انہوں نے سرکاری اداروں کا
چارج سنبھال لیا۔ سودوں میں گھپلے ہونے لگے۔ بینکوں سے قرضے لیے گئے کئی
سرکاری اداروں کی جائیدادیں ہڑپ کر لی گئیں۔ جب وہ ادارے کمزور ہو گئے تو
انہیں اونے پونے داموں بیچ دیا گیا ان سودوں میں بھی کمیشن کھایا گیا غرض
مارکوسی قبیلے نے ہر وہ کرپٹ راہ اپنائی جس نے انہیں دولت مل سکے۔ کرپشن کے
اسیر دیگر حکمران کرپٹ ترین حکمرانوں کی فہرست میں تیسرا نمبر زائرے (یاکانگو)
کے جنرل موبوتو سیکو کا ہے۔ موصوف ساڑھے اکتیس سال (1965ء تا 1997ﺀ) تک
اپنے ملک میں حکمرانی کرتا رہا۔ اس دوران موبوتو نے کرپشن کو ملکی کرنسی
بنا دیا۔ اس کے دور حکومت میں رشوت لینا اور دینا ایک فن اور باقاعدہ نظام
بن گیا۔ دنیا کے دس کرپٹ ترین لیڈروں میں سربیا کا حکمران، میلوشویچ 1 ارب
ڈالر، صدر ہیتی، جین کلاڈولئیر 300ا 800 ملین، صدر پیرو، البرٹو فیوجی موری
600 ملین، وزیراعظم یوکرائن پالو لازارینکو 114 تا 200 ملین، صدر نکارا گوا،
آرنولڈو الیمان 100 ملین اور صدر فلپائن، جوزف ایسٹرڈ 70 تا 80 ملین بھی
شامل ہیں۔ یہ تمام لیڈر لوٹ مار اور کرپشن کرنے کے بعد اپنے ضمیر کی عدالت
میں پیش ہو چکے ہیں۔ لیکن پاکستان میں جو کرپشن ہوئی ہے وہ ان ملکوں سے
کہیں زیادہ ہے۔ جب تک اس ملک میں قانون کا راج اور بدعنوانوں سے لوٹی ہوئی
رقم واپس نہیں لی جائے گی اس ملک کا نظام درست نہیں ہوگا۔ اور اس کے لئے
عوام کو ایک اور لانگ مارچ کی تیاری کرنا ہوگی۔ |