زرداری2018 تک صدر رہیں گے سلمان تاثیر کا انکشاف

حکومت کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینگے چوہدری شجاعت کا عزمِ بیکار

کہا جاتا ہے کہ حق سے زیادہ کسی کی تعریف چاپلوسی ہے اور استحاق سے کم حسد اور اِسی طرح یہ بھی ہمارے یہاں مشہور ہے کہ کسی کی ناجائز خوشامد مت کرو اِس سے ضمیر پراگندہ ہوتا ہے اِن اقوال کی روشنی میں اِب عوام فیصلہ کرے کہ زندہ دل اور بلا جِھجک اپنی ہر بات زبان پر لانے والے گورنر پنجاب سلمان تاثیر جی ہاں!وہی سلمان تاثیر جو ایک طرف تو دورِ آمریت میں بھی پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کی آنکھ کے تارے اپنی چاپلوسیوں کے باعث بنے رہے تو دوسری طرف یہ اپنی جارحانہ چاپلوسیوں اور رویوں کی وجہ سے اُس وقت بھی ہدف ِ تنقید بنتے رہے ہیں اور اِن دنوں بھی یہ اِس جمہوری حکومت میں اپنے اِسی عہدے گورنری اور رویے کی وجہ سے شدید قسم کی تنقیدوں کی زد میں ہیں اِس لئے کہ گزشتہ حکومت کی طرح اِس دفعہ بھی یہ اپنے عہدے کو بچانے کے لئے اِس جمہوری حکومت کے جمہوری صدر آصف علی زرداری کی خوشامد میں زمین آسمان کی قلابے ملانے سے بھی دریغ نہیں کررہے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے گزشتہ دنوں لاہور جیم خانہ کلب میں اپنے اُسی مخصوص لب و لہجہ میں جِسے وہ دور ِمشرف میں بھی صحافیوں سے گفتگو کے دوران استعمال کیا کرتے تھے اُسی تکبرانہ انداز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الزامات لگنے پر چیف جسٹس اور نواز شریف مستعفی نہیں ہوئے تو ہم کیوں ہوں؟ عدلیہ اور حکومت اپنے دائرہ کار میں رہیں اور ایک موقع پر تو اُنہوں نے حد ہی کردی کہ جب صدرزرداری کے استعفے ٰ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے اپنا یہ والہانہ انکشاف کر کے نہ صرف ملک کی ساڑھے سترہ کروڑ عوام ہی کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو بھی ششدر اور حیران کردیا کہ صدر زرداری کے استعفےٰ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ2018 سے پہلے کسی صورت میں بھی استعفیٰ نہیں دیں گے یعنی اُنہوں نے ماضی میں کہے گئے اُسی انداز کا خوشامدی جملہ کہا کہ جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے مؤاخذے کی تحریک شروع ہونے والی تھی اور پرویز مشرف اپنے عہدہ صدارت سے ہٹنے والا تھا اُس وقت بھی سلمان تاثیر نے اِنہیں(مشرف کو) مزید کئی سال تک صدر رہنے کا اِسی قسم کا ایک حیران کُن انکشاف کر کے اپنا حق وفاداری ادا کیا تھا اور پھر اِس کے چند ہی دنوں بعد دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اِن کا انکشاف محض انکشاف رہ گیا اور بیچارہ پرویز مشرف اپنا مؤاخذہ ہونے سے قبل ہی خود اپنا عہدہ صدارت چھوڑ گیا اور اِس کے ساتھ ہی جناب سلمان تاثیر نے لاہور جیم خانہ کلب میں صحافیوں سے اپنی اِسی گفتگو کے دوران غالباً عدلیہ اور حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اپنے دائرہ اختیار میں کام کرے اور حکومت اپنے دائرہ اختیار میں اور ساتھ ہی اُنہوں نے اِن دونوں کو اپنے مخلِصانہ مشورے سے بھی نوازہ کہ اگر دونوں ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کریں گے؟ تو جمہوریت زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتی وغیرہ وغیرہ اور اِس دوران اُنہوں نے حسبِ روایت ایک بار پھر اپنے رعب دار لہجے میں میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا کام یہ نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ کس نے استعفیٰ دینا ہے؟ حکومت جارہی ہے؟ اور ایسا ہی بہت کچھ کہنے کے بعد اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کا ایک طبقہ پاگل پن کا شکار ہے۔ میرے نزدیک اگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اِس موقع پر یہ بھی واضح کردیتے کہ میڈیا کا وہ ایک طبقہ کونسا ہے جو اُن کی نظر میں پاگل پن کا شکار ہے؟ تو تمام میڈیا پر یہ واضح ہوجاتا کہ تاثیر جی ! نے کس ایک میڈیا کی پاگل پن کی بات کہی ہے۔ اِن تمام باتوں کے علاوہ اُنہوں نے شکوہ بھرے انداز سے یہ بھی کہا کہ شریف برادران پر الزامات کا بھی فیصلہ ہونا چاہئے اور کیا وجہ ہے کہ احتساب ہمارے لئے ہے۔

میرے خیال سے اِس منظر اور پس منظر میں دیکھنے اور غور کرنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اُنہوں نے احتساب کا اشارہ اپنی جانب کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ احتساب ہمارے لئے ہے ...میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اُنہوں نے یہ بات کیوں کہی اور اِس سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ کہیں اِن کا اشارہ یہ تو نہیں کہ احتساب کے نام سے صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف قانونی کارروائیوں کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔؟تو عرض یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ہی احتساب کی آڑ میں کسی قسم کی کارروائی کی کوئی سازش کی جارہی ہے۔

یہاں اُن لوگوں کو یہ نکتہ بھی اپنے ذہنوں میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ اِس معاملے میں صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی نہیں ہے بلکہ غالباً کرپشن میں مبتلا ملک بھر کی اکثر سیاسی جماعتوں کے افراد اور دیگر شخصیات بھی شامل ہیںجو مشرف کے بنائے گئے کالے قانون این آر او سے مستفید ہوئے۔ اَب اگر سپریم کورٹ نے اُن افراد کو جنہوں نے مبینہ طور پر این آر او سے فائدہ اٹھایا ہے انہیں صاف و شفاف طریقے سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا ایک راستہ دیکھا دیا ہے تو اِن تمام افراد کو اِس سنہرے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور اِن پر اخلاقی طور پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ خود کو قومی مجرم تصور کرتے ہوئے اپنے حکومتی عہدوں سے استعفیٰ دیں اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کریں اور دوبارہ باعزت طریقے سے اپنے عہدوں پر فائز ہوجائیں۔ میری سمجھ کے مطابق صدر اور وزرا کے استعفے کے اتنے سے عمل کو کرنے میں کیا حرج ہے؟ اور اِس سے کسی کو اِن پر اعتراض کرنے اور حکمرانوں پر انگلیاں اٹھانے کا بھی کوئی جواز نہیں رہے گا۔

جبکہ اَس کے برعکس حکومت اور حکمران جماعت نے اپنے استعفے نہ دینے کے عمل کو اَنا کا مسئلہ بنا کر ملک میں یہ تاثر پیدا کردیا ہے کہ شاید حکومت اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور تصادم چاہتی ہے۔ میرے مطابق اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ استعفے پیش نہ کر کے عدالتوں میں اپنے مقدمات کا سامنا کرنے کی کوئی گنجائش آئین پاکستان میں موجود ہے تو حکومت ایسا کرے ورنہ نہیں۔

مگر اِس صورتِ حال میں کہ جب حکومتی اراکین اِس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ اِن کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہے تو کسی کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کوئی صدر اور اِن کی جماعت پر استعفے کے لئے دباؤ نہ ڈالے اگر صدر اور حکومت اپنی مرضی سے استعفیٰ پیش کردیتے ہیں تو یہ اِن کا ایک اچھا عمل ہوگا۔ اور اگر فرینڈلی اپوزیشن اور خالصتاً حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے والی جماعتیں زبردستی صدر اور حکمران جماعت کے وزرا_¾ پر استعفے کے لئے زور ڈالیں گی تو ایسی صورت میں سوائے سیاسی تناؤ اور کھینچا تانی کے کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

اگرچہ این آر او پر عدالتی فیصلہ نہ صرف حکمران جماعت کے رہنماؤں، وزرا_¾،کارکنوں اور اِس جماعت کے حامیوں سمیت کئی اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران اور پاکستانی عوام کے علاوہ فرینڈلی اپوزیشن اور کُھلی حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے بھی اَب ایک بڑے امتحان کی شکل اِس صورت میں اختیار کرگیا ہے کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے رہنماؤں اور وزرا پر این آر او کے تحت ختم کئے گئے مقدمات کا اپنے وزرا سے استعفے لئے بغیر مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کرنے اور ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔اِس سے کیا واضح ہے اَب یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا مگر اِس صورتِ حال میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت اور اداروں سمیت ہر جانب سے افہام و تفہیم کی راہ اختیار کی جائے اور ہر طرف سے محاذ آرائی کے ماحول کو پیدا کرنے سے بچا جائے۔

اُدھر پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے لاڑکانہ میں سابق صوبائی وزیر حاجی الطاف حسین انڑ کے گاؤں میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پہلے سے مشکلات میں گھری حکومت کی مزید یشانیوں میں یہ کہہ کر اضافہ کردیا ہے کہ حکومت کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دیں گے اور اِس موقع پر اُنہوں نے حکومت پر یہ الزام بھی سرِ عام لگایا کہ حکومت ”لوٹو اور بھاگو“ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور ہم اِس بار حکمرانوں کو بھاگنے نہیں دیں گے۔ اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کتنا عجیب اتفاق ہے کہ اُنہوں پاکستان کا ستیاناس اور بیڑا غرق کرنے والے مشرف کو تو بڑی خوشی کے ساتھ انتہائی خاموشی سے ملک سے جانے دیا مگر میں یہ سمجھتا ہوں اور یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اُنہوں نے اِس جمہوری حکومت کے حکمرانوں سے متعلق یہ کہہ خود اپنی ذات کو بھی عوام کی نظر میں مشکوک بنالیاہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری حکومت نہ چلے بلکہ کوئی آمر اِس ملک کا سربراہ مقرر ہوجائے اور وہ پرویز مشرف کی طرح اِنہیں اپنے ساتھ ملائے اور ملک کو لوٹے اور کھائے اور اِنہیں بھی کھلائے اور پھر بھاگ جائے اِن کے اِس جملے میں کہ ہم اَب حکمرانوں کو بھاگنے نہیں دیں گے؟اِس سے وہ کیا ثابت کرانا چاہتے ہیں کہ کیا یہ حکمران بھی واقعی مشرف کی طرح لوٹ مار کے بعد بھاگنا چاہتے ہیں یا یہ بھی بھاگ جائیں گے۔؟

بہرکیف! کچھ بھی ہے۔ آئندہ چند ایک دن میں ساری حقیقت خود بخود سامنے آجائے گی کہ ملک اور قوم کے ساتھ کونسے حکمران اور سیاستدان مخلص ہیں اور کونسے نہیں۔؟ کیوں کہ جہاں این آر او نے سیاستدانوں کو تقسیم کردیا ہے تو وہیں قوم بھی واضح طور پر سپریم کورٹ کے تاریک ساز فیصلے کے بعد دو حصوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ اَب اِس صورتِ حال میں ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ قوم کوتقسیم تر تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے حکومت سمیت ہر فرد اور ہر ادارے کو اپنا اپنا تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900299 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.