شہیدِ راہ وفا دختر مشرق بے نظیر بھٹو کی

محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری برسی کے موقع پر خصوصی تحریر

شہیدِ راہ وفا دختر مشرق بے نظیر بھٹو کی ...بے نظیر زندگی بے نظیر شہادت

آج دختر مشرق شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی قوم سے جدا ہوئے دو سال بیت گئے، اس موقع پر ہمیں 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں، جس میں محترمہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں”آپ کا اور میرا ملک خطرے میں ہے، سوہنی دھرتی مجھے پکار رہی ہے، ہم دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، قبائلی علاقوں میں پاکستان کا پرچم ہمیشہ لہراتا رہے گا، پاکستان کیلئے میرے والد کو شہید کردیا گیا .....میرے دو جوان بھائی مار دیئے گئے، شوہر کو طویل عرصے تک جیل میں رکھا گیا، مجھے پارٹی کی قیادت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی گئی، میری ماں کو سڑکوں پر لاٹھیاں ماری گئیں، مجھے جیل میں رکھا گیا، لیکن ہم موت سے نہیں ڈرتے، ہم عوام کی طاقت سے انتہا پسندوں کو شکست دیں گے۔“

راولپنڈی کے جلسہ عام میں محترمہ بے نظیر بھٹو دراصل اپنے اُس عہد کی تجدید اور اُس وعدے کا اعادہ کررہی تھیں جو انہوں نے اپنی 24ویں سالگرہ پر جیل میں آخری ملاقات کے موقع پر اپنے والد قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کیا تھا، جس کا اظہار محترمہ اپنی کتاب دختر مشرق میں کرتے ہوئے لکھتی ہیں ”میں آکسفورڈ اور اپنے متعدد دوستوں سے الوداع پر رنجیدہ تھی.... لیکن میں پاکستان میں نئے منتظر امکانات کے سلسلے میں بھی بہت پر جوش تھی، میرے والد بھی میری آمد کے اتنا ہی منتظر تھے جتنا میں گھر واپس جانے کیلئے بے تاب تھی، انہوں نے مجھے خط میں لکھا تھا ”میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں پاکستان میں تمہاری ذہنی ہم آہنگی کیلئے اپنی بھر پور کوشش کرونگا، تاکہ تمہارا مستقبل جلد ہی خوشگوار ہوجائے، اِس کے بعد تمہیں اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہونا ہے، البتہ میرے مزاج کے طنزیہ تیروں کو تمہیں برداشت کرنا ہوگا۔

بد قسمتی سے میں اب اِس عمر میں اپنے مزاج کو تبدیل نہیں کرسکتا، اگرچہ میں اپنی پہلوٹی بیٹی کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں، مشکل یہ ہے کہ تم زودرنج مزاج رکھتی ہو اور تمہاری آنکھوں سے فوراً ہی ٹپ ٹپ آنسو گرنا شروع ہوجاتے ہیں، جیسے میری اپنی آنکھوں سے بھی، اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں ایک ہی گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں، آؤ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کا معاہدہ کرلیں، تم ایک متحرک طبیعت کی مالک ہو، ایک متحرک انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صحرا کو حدت کے بغیر اور پہاڑوں کو برف کے بغیر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، تم اپنی دھوپ کی چمک اور اپنی قوس و قزح اپنی باطنی اقدار اور اخلاقیات میں تلاش کرو گی اور یہیں تمہیں کاملیت کا حصول ممکن ہوگا، ہم دونوں قابل تعریف کامیابیوں کیلئے مشترکہ طور پر جدوجہد کریں گے، کیا تم شرط لگاتی ہو کہ ہم اِس میں سرخرو ہوجائیں گے۔“

یہ عجیب اتفاق ہے کہ زندگی میں قابل تعریف کامیابیوں کے حصول اور اِس میں سرخروئی کیلئے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو سے شرط لگانے والا عظیم باپ ذوالفقار علی بھٹو دونوں ہی اپنی اپنی جگہ نہ صرف کامیاب و کامران ہوئے بلکہ دونوں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اَمر بھی ہوگئے، بھٹو خاندان سندھ کی سیاست میں ایک قدیم خاندان ہے جو ہمیشہ سے سندھ کی سیاست میں متحرک اور فعال رہا ہے اور جس نے نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی سیاست میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں ہیں، اِس خاندان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اِس کے سپوت کئی بار پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو 1934ء میں ممبئی کابینہ میں وزیر بلدیات بننے سے لے کر ریاست جونا گڑھ کی وزارت عظمیٰ تک مختلف منصب پر فائز رہے، اُن کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز ایوب خان کے دور میں کیا اور بالآخر وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے، آمر وقت کے ہاتھوں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اُن کی پیاری بیٹی ”پنکی“ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی سیاسی بساط پر ایک قد آور شخصیت کے روپ میں نمودار ہوئیں اور انہوں نے اپنے والد کے مشن کو اپنی زندگی کے آخری لمحے تک آگے بڑھایا، ذوالفقار علی بھٹو اپنی بیٹی کی صلاحیتوں سے پوری طرح واقف تھے، اسی وجہ سے انہوں نے 1977ء میں عدالت میں اپنی آئینی پیٹشن داخل کرتے وقت جنرل محمد ضیاءالحق کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ”پاکستان کے کسی بھی حلقے سے میری بیٹی بے نظیر کے مقابلے میں الیکشن لڑ کر دیکھ لو، میں لکھ کر دے سکتا ہوں کہ وہ صرف تمہیں شکست دے گی بلکہ تمہاری ضمانت بھی ضبط کرا دے گی، آؤ اور میرے اِس چیلنج کو قبول کرو، تم ایک مومن ہو اور میں ایک مجرم، پھر مجرم کی بیٹی سے کیوں ڈرتے ہو۔“

لیکن جنرل ضیاءالحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کسی آمر وقت کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ بھٹو کے اس چیلنج کو قبول کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑتا، بھٹو کو اپنے بیٹو ں سے زیادہ اپنی بیٹی پر اعتماد تھا، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اُن کی بیٹی بلند حوصلہ، نڈر اور بہادر ہے اور کبھی ہمت نہیں ہارتی ہے، اسی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹوں کے مقابلے میں اپنی بیٹی کو اپنا سیاسی وارث بنانے کا فیصلہ کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر کے نام اپنے آخری خط میں اِس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا تھا ”تمہاری صلاحیت اور ذہانت تمہیں اعلیٰ ترین مقام تک پہنچائے گی، لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کررہے ہیں، جہاں ذہانت اور صلاحیت ایک نقص شمار ہوتی ہے اور دم گھونٹنے والی معمولی قسم کی ذہانت ایک اثاثہ شمار کی جاتی ہے، تمہارے والد(بھٹو)قائد اعظم اور شاید....! حسین شہید سہروردی کے سوا اِس ملک میں حکومت شعبدہ بازوں اور کپتانوں نے کی ہے، شاید اِس صورتحال میں تبدیلی پیدا ہو جائے، اگر حالات تبدیل نہیں ہوتے تو پھر تبدیل کرنے کیلئے کچھ نہیں بچے گا، یا اقتدار عوام کو حاصل ہوگا یا پھر ہر شے تباہ و برباد ہوجائے گی۔“

واقعی بھٹو کے اندیشے درست ثابت ہوئے کہ ہر چیز تباہ و برباد ہوگئی، معمولی ذہانت نے اُس وقت اعلیٰ ذہانت پر قبضہ کرلیا، جب 4اپریل 1979ء کو ایک فوجی آمر نے اپنی اَنا کی تسکین کی خاطر”پنکی “کے باپ قائد عوام، فخر ایشیا اور ایک ہارے ہوئے ملک کو نئی زندگی دینے والے دنیا کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی پر شب خون مار کر اُن کی زندگی کا خاتمہ کردیا، بظاہر بھٹو مرگیا، شہید ہوگیا، لیکن اِس شہادت نے اُسے آمر حکمرانوں کے سامنے عزم، حوصلے، استقامت اور بے مثال قربانی کی روشن علامت اور عملی جدوجہد کا استعارہ بنا دیا، باپ سے کئے گئے عہد اور وعدے نے نوجوان بیٹی کو عزم و ہمت اور جدو جہد کی دولت عطا کی، چنانچہ اپنے لیے سفارت کاری کا میدان چننے کی خواہشمند ”پنکی “ اب اپنے باپ کی سیاسی جانشین بن کر اپنے عہد کو پورا کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی، بے رحم وقت نے اُسے کار زار سیاست کے کانٹوں بھرے میدان میں لا کھڑا کیا تھا اور تقدیر بھی اُس نازک سی لڑکی کی آنکھوں کو مستقبل کے رنگین سنہرے خوابوں کے بجائے آنسوؤں سے بھرنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔

اُس کی خوبصورت آنکھیں کبھی باپ کی پھانسی کے صدمے پر، کبھی جواں سال بھائی کی دیار غیر میں پراسرار موت پر، کبھی دوسرے بھائی کی کراچی کی سڑک پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں اندوہناک ہلاکت پر، کبھی صدموں سے نڈھال زندہ درگور ماں کی بے بسی پر، کبھی شوہر کی اسیری پر اور کبھی اپنے پیاروں اور اپنی مٹی کی خوشبو سے دور جلاوطنی پر بھیگتی رہیں، پھر بھی وہ اپنے باپ کے مشن کو پورا کرنے کیلئے زندگی کی آخری سانسوں تک مصائب و آلام سے نبرد آزما رہی، اُس نے اپنے والد کی پھانسی کے بعد ایک طویل عرصہ قیدو بند کی صعوبتوں میں گزارا، فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے خلاف جدوجہد کی علامت بن کر ابھرنے والی یہ نازک سی لڑکی ہر دور میں آمریت کو للکارتی رہی، اپنے عظیم باپ ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کو ہمیشہ جاری رکھنے کا عہد کرنے والی لاڈلی اور پیاری بیٹی” پنکی“ کو وقت نے سیاست کی بساط پر نڈر بہادر محب وطن، ہمیشہ فوجی آمریت سے برسرپیکار، جمہوریت کی علمبرادر، وفاق ِپاکستان کی علامت اور چاروں صوبوں کی زنجیر کا اعزاز بخشا، اب وہ میدان سیاست کی ”بی بی“ اور ملک کی مقبول ترین عوامی لیڈر اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی قائد تھی، انہیں مسلم دنیا کی پہلی خاتون اور پاکستان کی دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز بھی ملا۔

انیس سو ستتر تک بے نظیر کی زندگی آسودگی میں گزری، اس کے بعد مشکلات اور دشواریوں کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہوا جو ان کی ناگہانی شہادت پر منتج ہوا، جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو اُس کے بعد بے نظیر بھٹو کی زندگی میں کئی چیزیں الٹ پلٹ ہوگئیں،24سالہ لڑکی کے نازک کاندھوں پر فوجی آمروں نے اپنے بھاری بوٹوں کا وزن رکھ دیا، 3اپریل 1979ء کی صبح بھٹو سے بے نظیر کی آخری ملاقات ہوئی، اِس ملاقات میں بیٹی نے اپنے باپ کے سامنے اُن کے مشن کو جاری رکھنے کا عہد کیا، سلاخوں کے پیچھے قید بے بس مگر غیر متزلزل ارادوں کے مالک باپ نے اپنی بیٹی میں ایک ایسی نئی انقلابی عورت کو جنم لیتے ہوئے دیکھا تھا جس میں اُس کے مرنے کے بعد بھی اُس کی انقلابی فکر اور روح کو زندہ رہنا تھا، شاید اسی وجہ سے اُسے موت کو گلے لگانے کیلئے پھانسی کے پھندے کو قبول کرنا مشکل نہیں رہا، 21جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہونے والی بے نظیر بھٹو نے ریڈ کلف کالج اور ہارڈورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، انہوں نے لیڈی مارگریٹ ہال آکسفورڈ سے سیاسیات، اقتصادیات اور فلسفے کی ڈگری حاصل کی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کا کورس مکمل کیا۔

وہ پہلی ایشیائی خاتون تھیں جو آکسفورڈ یونین کی صدر منتخب ہوئیں، انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں، وہ 1988ء میں پہلی بار اور 1993ء میں دوسری بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں، بدقسمتی سے دونوں دفعہ اُن کی حکومت بد عنوانی اور کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی گئی، پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی اور ملک کی دوبار وزیر اعظم منتخب ہونے والی بے نظیر بھٹو کی زندگی حوادث زمانہ سے بھری پڑی ہے، اگر اُن کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو کب کا شکستہ دل ہو کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا لیکن انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت، فہم و فراست اور مدبرانہ قیادت سے اِس بات کو سچ کر دکھایا کہ اُن کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نگاہ انتخاب کبھی غلط نہیں ہوسکتی، بے نظیر بھٹو نے سیاست کے میدان میں بہت سے دھچکے اور صدمے برداشت کئے، انہوں نے اپنی آنکھوں سے والد کی پھانسی دیکھی، ضیاء دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، دو مرتبہ جلاوطنی کا عذاب سہا، شادی سے قبل اپنے بھائی شاہنواز بھٹو کو پُراسرار حالت میں موت کی سیاہ وادی میں اترے دیکھا، سیاست کے میدان میں اپنی ماں کو زخمی حالت میں پھٹے ہوئے سر کے ساتھ خون آلود دیکھا۔

دوران اقتدار جوان بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے لاشے کو کندھا دیا، شوہر کو سات برس حوالہ زنداں کیا، اُن کا پورا خاندان بکھر گیا، مگر اِس کے باوجود اُن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، اُن کا وجود پاکستان کیلئے ایک ایسی زنجیر ثابت ہوا جس نے چاروں صوبوں کو باہمی طور پر ایک دوسرے سے باندھے رکھا، 18اکتوبر 2007ء کو جب وہ آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس لوٹیں تو اُن کے جلوس پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئیں لیکن اُن کی پارٹی کے ڈیڑھ سو سے زائد ارکان لقمہ اجل بن گئے، اِس خوفناک حادثے کے بعد بار بار کہا گیا کہ وہ اپنی سرگرمیاں محدود کردیں، لیکن انہوں نے نہایت ہی دلیری اور بہادری سے بحالی جمہوریت کی جدوجہد زندگی کی آخری سانسوں تک جاری رکھی، بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو نے اپنے باپ کے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں اپنی سیاست کا آغاز کیا، یہاں سے بے نظیر کی فہم و فراست کا اصل امتحاں شروع ہوا اور وقت نے بے نظیر کی فہم و فراست پر مہر تصدیق ثبت کردی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جناب بھٹو کا یہ انتخاب بالکل صحیح ثابت ہوا اور اُن کی بیٹی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی لیڈر ہی نہیں بنی، بلکہ اُن کو بین الاقوامی سطح پر ایک عالمی سیاسی لیڈر اور مدبر کی حیثیت سے بھی پہچانا جانے لگا، جبکہ عالمی امور پر ان کی گہری نظر کا ایک زمانہ قائل رہا، وہ سیاست میں جلد بازی کی کبھی بھی قائل نہیں رہیں، جنرل مشرف سے قومی مفاہمت پر جن لوگوں نے سب سے زیادہ شور مچایا، اِس مفاہمت کا فائدہ بھی انہی لوگوں نے اٹھایا، بے نظیر بھٹو کی اس مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے انتخابات کی راہیں ہموار ہوئیں، بے نظیر بھٹو کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو ہارے ہوئے پاکستان کے تشخص، عزت وقار اور اعتماد کی بحالی چاہتے تھے، وہ دنیا میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے سر اٹھا کر جینے کے خواہاں تھے اور اس مقصد کیلئے وہ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ایٹمی طاقت بناکر ناقابل تسخیر بنانا چاہتے تھے، اُن کا مشن پاکستان کو دنیا میں عالم اسلام کی پہلی ایٹمی وقت بنانا تھا اور وہ اِسی جرم کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھائے گئے۔

اپنے والد کی طرح بے نظیر بھٹو کا بھی یہی مشن تھا، انہوں نے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی کا تحفہ دلوا کر والد کے مشن کو جاری رکھا، وہ کسی طور بھی اپنے والد کے مشن سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھیں، اپنے والد سے کئے گئے عہد اور اُن کے مشن کو پورا کرنے کی جدوجہد میں مصروف بے نظیر بھٹو کو وقت نے اُس وقت ”بے نظیر “اور ہمیشہ کیلئے اَمر بنا دیا، جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں اِس عزم کا اعادہ کر کے واپس جارہی تھیں کہ”چاہے جان چلی جائے ملک کو بچائیں گے۔“جمہوری اداروں کے استحکام، پاکستان کی بقا، عوام کی حکمرانی اور چاروں صوبوں کو ایک لڑی، ایک زنجیر میں پروئے رکھنے کی جدوجہد میں مصروف بے نظیر بھٹو 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئیں،27دسمبر 2007ء پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ المناک دن ہے جس دن لوگوں کے دلوں میں ملکی بقاء اور سلطانی جمہور کی لگن ابھارنے اور چاروں صوبوں میں محبت ویگانگت کے ترانے گانے والی آواز ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی، گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کا خاکی وجود ہی نہیں جمہوریت کیلئے طویل سیاسی جدوجہد سے عبارت ایک سیاسی عہد بھی دفن ہوگیا۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ بے نظیر بھٹو موجودہ سیاسی قائدین میں اِس لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتی تھیں اور اُن کی زندگی اور اُن کا وجود وفاق کی سلامتی اور استحکام کی علامت تھا، وہ ساری زندگی عوامی اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر سرگرم عمل رہی، اُن کی اِن خدمات کا اعتراف بعد از مرگ اقوام متحدہ نے انہیں اعزاز سے نواز کر کیا، بلاشبہ اُن کی شہادت ایک عظیم قومی سانحہ ہے اور اُن کی شہادت سے پیدا ہونے والے خلاء کے پُر ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے، آج محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے ہوئے دو سال گزر گئے ہیں لیکن پوری قوم ان کی یاد میں سوگوار ہے،

قبائے صبر کئے تار تار بیٹھے ہیں
یہ کس کی یاد میں سب سوگوار بیٹھے ہیں
تمام شہر ہے خاموش، بند ہیں بازار
اداس تیرے عقیدت گزار بیٹھے ہیں
جنہیں گماں تھا کہ دے تجھ کو موت، شاید مات
وہ جیت کے بھی بازی کو ہار بیٹھے ہیں

بھٹو خاندان کی سیاسی تاریخ خون سے رنگین ہے، پاکستان کی ترقی، بقا اور استحکام و سالمیت کیلئے اِس خاندان نے جتنی قربانیاں دی ہیں، برصغیر کی تاریخ میں اُس کی نظیر نہیں ملتی، آج بھی چاروں طرف بھٹو کا طلسم پھیلا ہوا ہے ....اور آج بھی بھٹو زندہ ہے، بھٹو کی طرح آمریت کے پروردہ اور جمہوریت دشمن عناصر نے 27دسمبر 2007ء کے دن بے نظیر بھٹو کو شہید کر کے اُن کے جسمانی وجود سے چھٹکارا تو حاصل کرلیا گیا، لیکن اُن کی مقبولیت، ہر دل عزیزی اور کرشماتی شخصیت کو دفن نہیں کیا جاسکا، بے نظیر واقعی بے نظیر تھیں، انہیں معلوم تھا کہ کہ انہیں قتل کردیا جائے گا، لیکن اِس کے باوجود وہ اپنے مشن سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھیں، دنیا میں یہ آن بان یہ شان ہر کسی کے مقدر میں نہیں آتی، سچ کی قربان گاہ پر بہنے والا بے نظیر کا لہو رنگ لاکر رہے گا اور قاتلوں کے سیاہ چہروں پر ثبوت کا اَن مٹ نقش بن کر اعلان کرے گا۔” ظالمو....تمہاری بزدلی تمہاری موت ہے.... اور.... میری دلیری میری زندگی ہے.... جو اَمر ہے....میں مر کر بھی آج زندہ ہوں....اور.... ہمیشہ زندہ رہوں گی....لوگوں کے دل و دماغ میں ....مجھے کوئی نہیں مٹا سکتا ....کیونکہ میں بے نظیر ہوں....جس کی کوئی نظیر نہیں ....اور نظیر ہمیشہ زندہ رہتی ہے“۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 317 Articles with 325899 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More