برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل
نے کہا تھا کہ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے، لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو
اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کہے گئے اس قول میں آج
تک کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد
بھی دنیا میں سب سے مقبول نظام حکومت جمہوریت ہی ہے۔ پاکستان میں بھی ہر
سیاسی جماعت جمہوریت کے گن گاتی ہے، خود کو جمہوری نظام کا علمبردار کہتی
ہے اور اس مقصد کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر فخر سے کرتی ہے۔ لیکن
اس جمہوریت میں بھی ایک آمریت چھپی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جبر اور
آمریت کی فضا ان پارٹیوں کو جمہوریت کا وہ مضبوط ستون نہیں بننے دیتی جو ان
کا اصل مقام ہے۔ آج بھی ملکی تاریخ کے کئی اہم فیصلے پاکستانی عوام سے مخفی
ہیں جن پر ماضی میں مذاکرات دبئی، ریاض، لندن اور واشنگٹن میں ہوتے رہے ہیں۔
جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمراں ملتے ہیں جس کے ہم
لائق ہوتے ہیں۔ دوسرا خطرہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کا فقدان ہے۔
ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور طاقت کا مرکز
بھی پارٹی یا اس کا کوئی عضو نہیں بلکہ ایک شخصیت ہی ہوتی ہے جس کی قیادت
کو پارٹی کے اندر کوئی چیلنج کر سکتا ہے نہ ہی اس کے فیصلے سے کوئی اختلاف
کر سکتا ہے۔ اب یہ ہماری قسمت ہے کہ یہ حکمران کیسے ہیں۔ بد دیانت، لٹیرے،
قرض کی رقم پی جانے والے، اختیارات سے تجاوز کرنے والے۔ پاکستان میں کتنے
ایسے سربستہ راز ہیں۔ جن سے آج تک پردہ نہیں اٹھا ۶۱ دسمبر آکر گئی۔ لیکن
آج تک حمودا لرحمن کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ پنجاب بنک کی رقم
تو واپس مل جائے گی۔ لیکن 1990ﺀ میں انڈس بنک میں جو لوٹ مار ہوئی اس کا
کیا ہوگا۔ کراچی کے ایک بزنس مین نے 14 کروڑ روپے کس کو دیئے۔ اس رقم میں
سے کس کس کو بندر بانٹ ہوئی۔ اصغر خان کی رٹ پٹیشن ابھی سپریم کورٹ میں ہے۔
اس پر بھی بات ہونے والی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ سیاسی جماعتوں کا ہے۔ جو اپنی
صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکالنا نہیں چاہتی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ پھر باہم
شیر وشکر ہوجائیں گے۔ جمہوری حکومت اب تک کے عرصہ میں عوام کو ڈیلیور نہیں
کر سکی، بجلی ،پیٹرول، گیس، چینی، آٹا کے بحرانوں پر قابو پانے میں اب تک
کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ اب این آر او پر فیصلہ آنے کے بعد عوامی
قوت سے بحال ہونے والی عدلیہ کی کارکردگی پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں،
دوسری طرف ملک میں آئے روز ایک نیا بحران جنم لیتا ہے اور اس شدت کے ساتھ
کہ لوگ دیگر بحرانوں کو بھول جاتے ہیں۔ کرپشن کے الزامات کا انبار ہے اور
حکومت کسی بھی معاملہ میں اپنی پوزیشن کلیئر نہیں کر سکی، حالیہ چینی کے
بحران، سرکاری اراضی کی لوٹ سیل اور کرائے کے بجلی گھروں کے علاوہ بیرونی
سودوں میں بھی کمیشن اور کک بیکس کا الزام ہے ۔ لوٹ کھسوٹ کے جس نظام کی
وجہ سے امریکہ عام پاکستان شہریوں میں بدنام ہے اس صورتحال کا مداوا کرنے
کیلئے پاکستان میں ایک ایسا نظام حکومت ضروری ہے جو کرپشن سے مکمل طور پر
پاک ہو جس کا سربراہ نیک نام، دیانتدار اور ملک و قوم کا ہمدرد ہو، کوئی
نہیں چاہتا کہ یہ سسٹم ڈی ریل ہو۔ پاکستان خونیں انقلاب کی طرف بڑھے قوم اس
سے زیادہ انتظار نہیں کر سکتی۔لوگ اب محاسبہ چاہتے ہیں۔ پاکستان کی دولت
لوٹنے والوں کا۔ یہی نوشتہ دیوار ہے |