آئینی حقوق چہ معنی دارد؟

آج مجھے بہت شدت سے غالب کا یہ شعر یا آنے لگا ہے۔غالب کا یہ شعر یقیناً ہر دور کے بے حس لوگوں کے لئے ایک جیتا جاگتا پیغام ہے۔ظلم چپ چاپ سہے جاوگے آخر کب تک۔اے اسیران قفس منہ میں زباں ہے کہ نہیں۔اس عظیم شاعر کا یہ شعر آج گلگت بلتستان کے عوام کوجھنجوڑ رہا ہے۔واقع ہم سیاسی،ذہنی اورمشترکہ قومی مفادات کو پس پشت پرڈال کر ذاتی مفادات کے جوہڑ میں ڈوبکی لگاتے ہوئے جب سانس بند ہونے کا خدشہ نظر آجائے تو نظریہ ضرورت کے طور پر ایک آدھ جملے سچ بول کر پھر آلودگی کے شیش محل میں غائب ہوجانا ہماری ریت بن چکی ہے۔خواجہ سراہوں کی اجادارانہ معاشرے میں کوئی اکیلا کب تک مرد بننے کی کوشش کریگا،آخر اسے بھی زنانہ لباس پہن کر ٹھمکے لگاتے ہوئے کسی محفل کی زینت بننا پڑے گا،یا ساغر صدیقی کی طرز زندگی کو اپنانا ہوگا جو کہ بہت گھٹن راستہ ہے۔ یہاں واقع کربلاکا ایک نایاب اور انتہائی غور طلب جملہ جو وقت آخر حضرت امام حسینؐ نے فرمایا تھا یہ جملہ آپ تک پہنچانے کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آنا چاہوں گا۔وقت آخر جب امام حسینؐ تنہا رہ گئے اور یزیدیوں کو نصیحت بھی کی جب اثر نہ ہوا توشہادت کا لباس زیب تن فرمایا۔اس دوران کسی نے پوچھا آپ رسول خدا کے نواسے اور دوش رسولﷺ کی زینت ہیں سبھی آپ کے مرتبے کو اچھی طرح جانتے ہیں پھر بھی آپ کی بات کیوں نہیں مانی گئی۔جواب میں امام فرماتے ہیں ــ’’ ان سب کے شکم لقمہ حرام سے بھرے پڑے ہیں‘‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ لقمہ حرام اتنا غلیظ شئے ہے کہ انسان کوبے غیرتی کی انتہا تک اور کفر کے سمندر میں پھینک دیتا ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے جب ہماری زندگی لقمہ حرام سے گزارہ کرتے ہوئے گزر رہی ہے تو ہم سچ کیسے بول سکتے ہیں؟ـ’’آئینی حقوق‘‘ یہ کس بلا کا نام ہے؟ اور یہ کیا یہاں پر موجود بھی ہے یا کسی جنگل سے پکڑ کر لانا ہوگا۔اگر آج بھی اس کی وضاحت نہ ہوئی تو نوجواں نسل ہمیں قوالیاں ضرور سنائیگی جب وہ خود اس خوبصورت دھوکہ کو بے نقاب کرکے سمجھ جائیگی تو نہ جانے کن کن القابات سے اپنے ذمہ داروں کو یاد کریگی۔آئینی حقوق کو سمجھنے کا آسان طریقہ۔پاکستان کے چار صوبے ہیں جس میں بلوچستان سب سے زیادہ بدحالی کا شکار ہے اس کے بعد سندھ اور خیبر پختونخواہ،یہ تینوں صوبوں کا کہنا ہے کہ ہمیں آئین کے اندر موجود سہولتیں فراہم کی جائیں،یہ پاکستان کے آئین کے اندر ہیں اور باقائدہ پاکستانی صوبے ہیں یہ کہ سکتے ہیں کہ ہمیں آئینی حقوق پورے دیئے جائیں۔ ان کی بات میں وزن ہے اور ان کی بات کو کسی حد تک سنی بھی جارہی ہے چونکہ یہ پاکستان کے آئینی صوبے ہیں۔جو آئین میں ہی شامل نہیں جن کا شمار پاکستان کے کسی صوبے میں نہیں ہوتا ہے جو سینٹ اور نیشنل اسمبلی کے الیکشن نہیں لڑ سکتے ہیں وہ کہیں کہ ہمیں آئینی حقوق دیئے جائیں کتنی مضحکہ خیز بیان ہوگی،کیا ہمارا مزاق نہیں اُڑایا جائے گا بلکہ مسلسل اڑایا جارہا ہے۔ہمارے سیاستدانوں کے سیاسی بیانات میں ان کے خیال میں یہ معراج والا بیان ہوتا ہے۔عوام کو کتنا بیوقوف بنایا جارہا ہے۔مثال کے طور پر ایک عورت کسی سے دوستی کرے اور اس محبت میں وہ اپنا سب کچھ اس پر قربان کرے جبکہ اگلہ اس کا خلوص اور محبت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے حدود قیود بھی پھلانگ لے،پھر وہ بچاری کہے کہ مجھ سے شادی کر لو تو وہ اس کا مزاق ہی اُڑائیگا نا؟بالکل اسی طرح کا معاملہ گلگت بلتستان کے ساتھ بھی ہے۔ہماری ذہنی پستی دیکھتے ہوئے وفاق سے آنے والا سی لیڈر ہو یا مذہبی وہ بھی یہ کہ کر چلا جاتا ہے کہ میں آپ کو آئینی حقوق دلاؤں گا۔ہم اس ڈھونگ کو سن کر اس قدر خوش ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ ہمیں رومال کی ضرورت ہے۔گلگت بلتستان میں سب سے پہلے قوم پرستوں نے یہ کہا کہ جب تک کشمیر کا مسلہ حل نہیں ہوتا تب تک ہمیں کشمیر طرز کی داخلی خود مختاری دی جائے، تو اس وقت یہ بات بھی وفاق پرستوں پر ناگوار گزر رہی تھی چونکہ وہ مفاداتی دوستی میں بہت دور تک جا چکے ہیں۔شکر ہے خدا کا آج سب کو یاد آرہا ہے یہ تو نہیں معلوم کہ کیوں انہیں یہ کہنا پڑ رہا ہے بحرحال یہ بھی ایک نیک شگون ضرور ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کو تو داخلی خود مختاری دی گئی ہے اور اس سے مسلہ کشمیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے جب کہ گلگت بلتستان جس کی اپنی ایک داستان رقم ہے اس کی آزادی میں کسی کا ناخن بھی نہیں کٹا ہے تاریخٰ کی ایک انوکھی جنگ لڑ کر اپنے خطے کو اس دور کے سپر پاور سے آزاد کروایا۔اگر اس خطے کو کشمیر طرز حکمرانی دینے میں کشمیر کے مسلے کو کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے؟نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لفظ آئینی حقوق سراسر غلط ہے یہاں کا سیاستدان استعمال کرے یا وفاق کا سیاستدان۔نوجوان طبقہ کو یہ بات نوٹ کرلینا چاہئے۔افسوس اس بات پر ہے کہ آج اس مسلے پر رونے والے کل قوم پرستوں کو غدار کہا کرتے تھے اگر اس وقت قومی جماعتوں کا ساتھ دیا جاتا توآج یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے اور نہ یہاں پر فرقہ واریت کا بیج کسی کو بونے کی ہمت ہوتی۔چلو اس وقت نہیں دیا جب اسمبلی میں قائد تحریک نوازخان ناجی پہنچ گئے ان کا ساتھ دیتے تو بھی بات بن جاتی۔وفاق پرست سیاستدانوں نے کتنی جائیدادیں بنائی اور قوم پرست لیڈر نے کتنی بنائی؟ کون دھرتی اور عوام سے محبت کرتا ہے۔جھوٹ پر جھوٹ اور کہا یہ جارہا ہے کہ ہم نے بغیر شرط شروط حوالہ کیا کسی کے پاس کوئی ایسی مشترکہ دستاویز ہے تو دکھائیں؟28اپریل1949 کو معاہدہ کراچی کے تحت کشمیریوں نے اپنے تئیں گلگت بلتستان کو ایک جھوٹے معاہدے کے طور پر حوالہ کیا یعنی جس گھر کا خدا نے مجھے مالک بنایا ہے اس گھر کو کوئی اور بندہ کسی کے حوالے کرتا ہے اور مجھے خبر ہی نہیں حوالہ کرنے والے کا تو کمال ہے اور میرا بھی تو کمال ہے کہ انسانی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اپنے گھر کی فکر نہیں۔ااگر کوئی اپنی بیٹی کا نکاح جو جائز ہے کسی کے ساتھ کروالیتا ہے تو بھی چند عزیزوں کو درمیان میں رکھ کر شرط و شروط رکھتا ہے اور دستاویز بھی محفوظ رکھتا ہے۔اگر فرض کریں مان لیتے ہیں بغیر شرط کے حوالہ کیا تو وہ انسان قانونی، اخلاقی اور شرعی طور پر فاطر العقل کہلاتا ہے اور کسی فاطرالعقل کو دنیا کی کوئی بھی قانون کچھ نہیں دیتی۔اب تک ہم نے کونسا تیر مارا ہے اپنے قدرتی بیش بہا وسائل سے عوامی منفعت کے لئے کیا کچھ حاصل کیا ہے؟جنگلات کاٹے کتنے اور لگائے کتنے۔ بنجر زمینوں کو آباد کتنا کیا اور آباد زمینوں کو بنجر کتنا کیا؟کیا ہمارا پورا علاقہ ہمارے موجود بھی ہیہمار ماضی کا جغرافیہ پورا بھی ہے کسی کو اس بات کا ہوش ہے۔؟گزشتہ ایک کالم میں بھی یہ لکھا تھا اور ابھی بھی یہ یہی بات دہرانا چاہوں گا آنے والے الیکشن کا یک زبان ہوکر بائکاٹ کریں اور وفاق کے سامنے یہ مطالبہ رکھیں کہ جب تک ہمیں کشمیر طرز کی حق حکمرانی نہیں ملتی ہم الیکشن نہیں لڑیں گے اگر واقعی صدق دل سے آپ چاہتے ہیں تو ادھر الیکشن لڑنے کے لئے بے تاب ادھر کشمیر طرز کی بات کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں ہے جو دال سے گزارہ کرتا ہے تو اس کو مرغی کوئی کیوں دے گا۔عوام کو بیوقوف بنانے اور کسی کو بلیک میل کر نے کی نیت سے ہمیں باز آنا چاہئے۔یہ بات بھی درست ہے کہ وفاق گلگت بلتستان سے جو فائدہ حاصل کر رہا ہے اس کا دس فیصد بھی ہمیں نہیں مل رہا ہے یہ واقعی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے،اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ زیرہ اونٹ کے منہ میں پہنچا یا کسی گدھے نے ہڑپ کرلیا ہے۔اس زیرے کو بھی صحیح استعماال کرتے تو آج گلگت بلتستان میں نہ بیروزگاری ہوتی نا کرپشن بلکہ خوشحال گلگت بلتستان جو دوسروں کے لئے ایک مثال بنتا وہ اس لئے کہ اُس وقت آبادی اور مسائل کم تھے آج کی نسبت۔جتنا کرپشن،لوٹ مار اور دل بے رحم مال بیگانہ کی طرح یہاں استعمال ہورہا ہے آبادی کے تناسب سے کہیں اور ایسی اندھی نگری نہیں ہے۔ہم خود اپنے عوام کے اپنے علاقے کے دشمن ہیں اوروں کو گلہ کرنا فضول ہے۔ہمارے تاریخی دونوں کوہل کی شکل دیکھیں نکاسی کا پانی شامل ہے اتنا گندھا پانی ہم پی رہے ہیں تو ہمارا دل و دماغ بھی اسی انداز سے کام کر جائے گا۔اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ شناختی کارڈ اور کرنسی بھی پاکستانی پھر کیا مسلہ ہے تو اس بچے کو چاہئے کہ شہریت کی ایک کتاب لیں اور شہریت کی تعریف کسی استاد سے پڑھیں۔گلگت بلتستان نہ صرف متنازعہ ہے بلکہ چوتھا فریق ہے اس کے باوجود آئینی حقوق جیسا غیر منطقی لفظ استعمال کرنا چہ معنی دارد؟ دنیا میں ایسی قوم نہیں جو کسی سے دوستی کے لئے تلوے چاٹے اور جس آئین کی بات ہوری ہے اور جہاں یہ آئین شریف موجود ہے وہاں انسانیت کی دھجیاں اڑائی جاری ہے، جہاں ہزاروں بے گناہ افراد کا سر کاٹا جائے، جہاں غربت سے لوگ اپنی عزتیں نیلام کریں،جہاں امیر امیر سے امیر تر اور غریب کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہ ہو،جہاں سرمایہ دار طبقہ کا راج ہو، جہاں اربوں کی کرپشن ہو،جہاں قانون فقد کمزور اور غریب طبقہ کے لئے بنا ہو وہ آئین کسی کو کیا سکون دے گا؟ وہ آئین بچارہ تو اسلام آباد کی پارلیمنٹ میں اپنی حیت کو تبدیل کرکے نہ صرف زنگ آلود ہوچکا ہے بلکہ سیاسی سرمایہ داروٓں کے ہاتھوں یرغمال بھی ہے اس آئین سے تو ہمارا نمبرداری نظام کئی درجہ بہتر ہے اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں جس شخص کے ہاتھ گھی کی کڑاہی سے نکلنے والے ہوں وہ اس طرح کا بیان داغ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔جب کہ گلگت بلتستان ایک غیر آئینی اور متنازہ علاقہ ہے یہاں کے عوام کی مرضی کے بغیر کسی پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش نہ کی جائے اور جہاں تک دیامر ڈیم کی بات ہے تو محض ایک ڈھونگ ہے وہ کبھی نہیں بن سکتا ہے۔ یہاں کے مفاد پرست سیاستدان چیخ وپکار کرنے کے بجائے اسمبلی میں متفقہ طور پر کشمیر طرز کی حکمرانی کے لئے قرارداد پاس کیوں نہیں کرتے۔ہماری خود غرضی اور سیاسی پستی کو پرکھنے کے بعد یہ یہی سلوک ہورہا ہے جس کا ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ان تمام احمقانہ بیانات کو حفظ حفیظ الرحمٰن نے ایک ہی جملے میں رد کر چکے ہیں اب مذید آئینی حقوق یا آئینی صوبے کا رٹ لگانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔پہلے حکومت صحیح معنوں میں چلانے کے قابل تو ہوجاؤ اگر ان ہی مفاد پرست سیاستدانوں کو ہی آگے آنا ہے تو اس خطے اور عوام کا خدا ہی حافظ ہے۔اس لئے نئی قیادت کی ضرورت ہے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دھرتی ماں اور عوام سے ہمدردی رکھتے ہوں،کچھ لاج رکھنا جانتے ہوں،جو مشترکہ قومی مفاد پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی جستجو رکھتے ہوں،خدا کے لئے آنے والے الیکشن میں روائیتی معاملات سے ہٹ کر سوچا جائے تو بہتری آئے گی،باکردار سچے انسان کو چنا جائے ان کے ماضی کا کردار اور خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے چناؤ کریں۔یاد رکھیں باہر کی اجارہ داری سیاسی ہو یا مذہبی کسی کو آپ سے کوئی ہمدردی نہیں اسی لئے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔خدا ہم سب کو تمام نفرتوں کو ختم کر کے ایک باوقار قوم بننے کی روفیق عطافرمائے۔(آمین)
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 17189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.