ہمارا شعورا بھی خواب خواب تھا
(Mansha Fareedi, Dera Ghazi Khan)
ہمارا شعورا بھی خواب خواب
تھااور ہماری سوچ بھی ارادوں کی سرزمین کو سراب کرنے کے قابل نہ تھی جب
ہماری سماعت اور عزمِ صمیم (لفظ)کاملاپ ہوا۔عجیب اتفاق ہوتا یا ہم حادثہ
سمجھ کے سماعت کے پردوں سے گزار دیتے جب کوئی معلم یاادیب ہمیں جرت مند ،کوہنہ
مشق اور عزم ِصمیم شخصیات کی سچی کہانیاں سناتے۔معلم یاادیب کہاں اور ہماری
خوابیدہ سوچ کہاں ؟ہم تو اس وقت اسلامیات کے اس لفظ کے قائل تھے ــ’’سب
انسان برابر ہیں‘‘
غالب جیسے بصائرانسان کی زندہ دلی یااقبال کافلسفہء خودی ،تصوف پرمنصور کی
شخصیت کاذکرہویاسکرات کے پختہ ایمان کی مثالیں ،جمال الدین افغانی بحرِ
منجمدمیں تھرتھراہٹ پیدا کرنے والے عظیم لوگوں میں نایاب اور جیدعالم کے فن
کے تذکرے ،ابن العربی ہویا حافظ شیرازی کاادبی سفرجہاں ان تمام شخصیات نے
زندگی کا ایک طویل عرصہ ادب کی ترویج میں نہ صرف صرَف کیابلکہ تاریخ میں
امر ہوگئے۔ ان کے برعکس سیاست کے چورچکارجنہوں نے اپنوں سے غیروں کی زبان
کا نہ صرف کھلم کھلا استعمال کیا بلکہ عملی طور پر وہ مظالم ڈھائے جن
کاذکرعام ہے۔تاریخ نے دونوں کا ذکرکیاہے محنت دونوں طبقوں نے کی ہے ایک نے
محبت کا جذبہ پیدا کیا ہے تو دوسرے طبقے نے نفرت اور منافقت کی بنیادرکھی
ہے۔اس کے علاوہ وہ لوگ جومحبت نفرت،جنت جہنم حلال حرام کی تفریق سے
ماوراہیں ان کا بھی ذکر آیا ہے ۔مگر ہمارے نزدیک سب انسان برابر تھے۔
زندگی کے مختلف پہلوہیں اوریہ انسان پہ منحصرہے وہ کیسے گزارتا ہے۔یہاں
مجھے حضرتِ جون ایلیا کا ایک شعریاد آرہا ہے۔
زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے اندازسے گنوانے کا
زندگی کے ہرپہلومیں کئی رازپنہاں ہوتے ہیں اورہرراز میں انسان کے لئے ایک
کشش ہے۔ہرراز کی نقاب کشائی سے انسان کوعجیب قسم کی مسرت حاصل ہوتی
ہے۔غالباََ اس کی وجہ یہ ہے کہ فتح مندی اور وسعتِ نظر کے ملے جلے جذبات سے
انسان کو اپنی اس اہمیت کا احساس ہونے لگتا ہے جس کی آرزو اُسے دشت وجبل
اور وادی و ریگزارمیں لئے پھرتی ہے۔زندگی خود ایک عظیم راز ہے۔جس کے چہرے
سے پردہ اٹھانے کو انسان روزِ اول سے بیقرارہے اور نہ جانے کب تک بیقرار
رہے گا۔چنانچہ جس طرف بھی آنکھ اُٹھا کر دیکھیں ذہنِ انسانی سربزانوں نظر
آتا ہے۔سادھوکی کٹیا ہوکہ فلسفی کاکاشانہ ،شاعر کابوریا ہوکہ پیغمبر
کاآستانہ ہرکہیں افشائے رازکی ایک مستقل دھن ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہماری
زندگی کا محبوب ترین مقصد خود زندگی کی حقیقت تک پہنچنا ہے ۔چنانچہ اس کوشش
میں زندگی کے ایک تنگ دائرے سے نکل کروسیع تر دائرے میں قدم رکھنا ہے اور
انجام کار اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ زندگی کے پورے نقشے کو ایک
ہی نگاہ میں دیکھ سکیں اور ہوسکے توکون ومکاں پر چھا جائیں ۔خود حق تعالیٰ
نے’’علم آدم الاسماء ‘‘کو انسانی شرف وفضیلت کی بنیاد قرار دیا ہے اور اسی
علم اسماء میں انسان کی ساری قوت کا راز ہے۔غالب نے کیا خوب فرمایا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا
اسی طویل اور کٹھن منزل میں بہت سے مسافر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے زندگی کے
اس راز کا نہ صرف پردہ فاش کیا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس راز کی
جنگ میں شامل کر گئے ہیں اوراس سفر میں بہت سی شخصیات قابلِ ذکر ہیں
اورانہی میں منشاء فریدی صاحب بھی ذکرآتا ہے۔
منشاء فریدی ضلع ڈیرہ غازی خان کے ذیلی علاقے چوٹی زیرین میں 10اپریل 1978ء
کو پیدا ہوئے۔ موصوف اپنے علاقے کے ایک باعزت گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں
۔محدودمعاشی وسائل کے پیشِ نظرابتدائی تعلیم قریبی سکول میں حاصل کی ۔محدود
وسائل اورلامحدودمسائل کے پیشِ نظرتعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے ۔جہاں ذاتی
اورسماجی مسائل نے موصوف کومتحرک رکھا وہاں ادبی اورتخلیقی سفربھی رواں
دواں رہا۔شاعری اورتحقیق(ریسرچ)کے ساتھ ساتھ کالم نگاری میں ایک منفردمقام
پرفیض منشاء فریدی کا یہ سفرتقریباََچودہ سال کے طویل عرصے پرمحیط ہے۔موصوف
کے کالم نہ صرف پاکستان کے قومی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں بلکہ دوسرے
ممالک کے اخبارات کی بھی زینت بنتے ہیں اورموصوفِ الیہ اپنے کالم میں نہ
صرف سیاستی مسائل پرزور دیتے ہیں بلکہ علاقائی مسائل کوبہت زیادہ اجاگرکرتے
ہیں اوراپنی دھرتی کا حق احسن طریقے سے سرانجام دینے میں مگن ہیں ۔ اور حال
ہی میں پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ(PFUC)کی ممبرشپ بھی ملی ہے جس پر
راقم الحروف مبارک باد پیش کرتا ہے اور ان کے ساتھ سیدبدرسعید
صاحب(صدر)،شہزادچوہدری صاحب(چیرمین)،شہبازوڑائج صاحب(جنرل سیکریری) کااور
ان عزیزان کی پوری کمیٹی کا بے حدمشکور ہے جنہوں نے ایک متحرک اور صاحبِ
بصیرت وصاحبِ بصارت ادیب کواتنا معیار دیا۔ ورنہ اس دور ِ تنگ نظرمیں ہر
بندہ خدا بننے کے چکر میں ہے یہ وہ معاشرہ ہے جس کے بارے میں جالب جیسے
لوگوں نے بہترین فلسفہ پیش کیا تھا۔
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاندیہاں نہ نکلا کر
یہاں روشنی کی ضرورت بہت کم ہی محسوس کی جاتی ہے۔اندھیرے سے سیر ہونا اس
قوم کے مشاغل میں شامل ہے ۔سیں جعفرالزمان نے کیا خوب فرمایا۔
اتنا مانوس اندھیروں سے ہوا ہوں جعفر
جگنوچمکے بھی توآنکھوں کو برا لگتا ہے
منشاء فریدی کے ساتھ ساتھ بہت سے ادیب ایسے ہیں جن کی زندگی صرف مطالعہ اور
حق بات کی ترویج میں گزررہی ہے مگر تاریخ گواہ ہے انجام یہ ہوا کہ پہلے
تومعاشی مسائل نے مار دیا اگر اس طوفان سے چھٹکارا ہواتو حاکم ِ وقت کے
ہاتھ آ گئے اور یہاں سے بچ نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ انہی مسائل کا
شکار منشاء فریدی بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے کبھی حاکمِ وقت تو کبھی
معاشرے کے ناسور لوگوں کی جہالت کا سامنا رہا ہے ۔
کیونکہ ہماری قوم کوجہالت ادب کے طور پہ پڑھائی جاتی ہے۔ذلت کی نیند میں
ڈبی ہوئی قوم کوجگانا انتہائی مشکل اور سخت کام ہے۔امامِ حسینؑ نے کربلا
میں ارشاد فرمادیا تھا اگر قوموں کے اندر جہالت اور خوف رہا تو ہر دور کے
مسلم بن عقیلؑ کودارالعمارہ کی چھت پہ شہید کردیا جائے گا۔اسی جہالت کا
نتیجہ روزمرہ کی زندگی میں عام نظر آتا ہے۔اور اس دور میں بے باق لیڈر کی
انتہائی ضرورت ہے جو کہ پاکستانی قوم کا ایک خواب کی حد تک ہے۔جہاں موت کی
قدر نہیں وہاں انسان کی قدر بھلا کیا ہوسکتی ہے ؟محقق ہر شعبے کی ضرورت ہے
مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے جاہل طبقہ صاحبِ اقتدارو اختیار ہے۔خاص کر ادیب
دشمن عناصر کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔منشاء فریدی کالم نگاری کے ساتھ ساتھ
شاعری اور تنقیدکے میدان میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں ۔ |
|