کِتّھے کُڑی دا یار!

ٹھیک سے یاد نہیں کہ ایسا کب سے ہو رہا ہے۔ حق یہ ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، ہم نے یہی دیکھا ہے کہ پریشانیاں ہمیں تلاش کرتی پھر رہی ہیں۔ ’’ہم‘‘ سے مُراد قوم ہے۔ (اگر ہم سے مُراد اپنی ذات لی جائے تو معاملہ صرف ایک پریشانی تک محدود ہے!) بحیثیت قوم ہم پریشانیوں کا صرف انتظار نہیں کرتے، اُنہیں ڈھونڈتے بھی پھرتے ہیں۔ اور جہاں بھی کوئی پریشانی دکھائی دے، اُسے ’’مومن کی کھوئی ہوئی میراث‘‘ سمجھ کر گلے لگانے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں! الم پسندی ہمارے قومی مزاج سے چپک کر، چمٹ کر رہ گئی ہے! اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جب سبھی کو آلام سے لگاؤ ہے تو آرام بھی اُنہی سے ملتا ہے۔ اور قوم کیوں کہیے، اب تو پُوری اُمّت کا یہی مزاج ہوگیا ہے۔ جو چیز جس قدر دُکھ دے اُسی قدر اچھی لگتی ہے۔ (اِس معاملے میں ’’استثنٰی‘‘ صرف بیگمات کو حاصل ہے!)

کتنے ہی بُحران ہیں جو ہم نے بڑے چاؤ سے، بہت ہی خُشوع و خُضوع سے اپنائے ہیں۔ اور ایسا خیر مقدم کیا ہے کہ وہ بوریا بستر کھول کر یہیں کے ہوگئے، کہیں اور جانے کا خیال دِل سے نکال دیا۔ کتنے ہی مسائل ہیں جو کہیں اور جارہے تھے مگر ہم نے اُنہیں آواز دی اور ایسی آؤ بھگت کی کہ اب وہ اپنا رستہ بھول کر ہمی کو منزل سمجھ بیٹھے ہیں۔ کوئی بُحران اگر رخصت ہونے کی اجازت طلب کرے تو ہم ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں ع
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دِل ابھی بھرا نہیں!

اور دِل بھرے بھی تو کیسے؟ الم پسندی کے معاملے میں ہم بیک دِل پھینک اور دِل کے بہت بڑے واقع ہوئے ہیں۔ زمانے بھر کے روگ ہم نے یُوں خوشی خوشی اپنائے ہیں کہ اب طرح طرح کی پیچیدگیاں پھرتی پھراتی، گھومتی گھماتی ہم تک پہنچتی ہیں اور ہم اُنہیں دِل و جان سے اپنالیتے ہیں۔ ع
جو آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں!
کسی کو اگر غم بہت مِلے ہوں تو گھبراکر کہتا ہے ؂
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دِل بنادیا

ہم نے کبھی قدرت کے ہاتھوں ایسے کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کا انتظار کرنا مناسب نہیں جانا اور اپنے حصے کی بے تابیاں اور پریشانیاں ’’از خود نوٹس‘‘ کے تحت تلاش کرکے جسم و جاں میں سموئی ہیں!
کوئی لاکھ کہتا پھرے ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو

ہم پر کچھ اثر نہیں ہوتا اور کوئی نصیحت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ جسے لڑنے میں مزا آنے لگے وہ فارغ کیوں بیٹھے گا؟ کوئی آکر نہ بِھڑے تو صاف توہین محسوس ہوتی ہے! اِس ’’توہین‘‘ کا بدلہ لینے کے لیے لڑائی کا اپنی طرف سے آغاز کرنے یا پرائے پَھڈّے میں ٹانگ اَڑانے میں کچھ ہرج نہیں۔

قصہ کچھ یُوں ہے کہ ایک سردار جی اپنے دوست کی شادی میں گئے۔ وہاں سے لہو لہان ہوکر واپس آئے۔ بیوی نے سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ عجیب نامعقول لوگ تھے۔ بیاہ میں رسمیں بھی ایسی رکھتے ہیں کہ کوئی آگے بڑھے تو مار کھائے۔ بیوی نے وضاحت چاہی تو بولے۔ ’’پہلے میرے دوست کا اَبّا اُٹھا اور بولا میں مُنڈے دا اَبّا، کِتّھے کُڑی دا اَبّا؟ (میں دولھا کا باپ ہوں، دلھن کا باپ کہاں ہے؟) دلھن کا باپ آیا اور اُنہوں نے پگڑیاں تبدیل کیں۔ پھر ایک اور صاحب اُٹھے اور بولے میں مُنڈے دا چاچا، کِتّھے کُڑی دا چاچا۔ دلھن کا چاچا اُٹھا اور اُنہوں بھی بھی پگڑیاں تبدیل کیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کھڑے ہوکر آواز لگائی میں مُنڈے دا یار، کِتّھے کُڑی دا یار!‘‘

اِس کے بعد بارات میں دونوں طرف کے ’’یاروں‘‘ نے مل کر سردار جی کی وہ ٹُھکائی لگائی کہ طبیعت صاف ہوگئی اور سردار جی بیوی کو بقیہ تفصیل بتانے کی زحمت سے بھی چُھٹ گئے کیونکہ جوڑ جوڑ دُکھتا ہوا اُن کا جسم سب کچھ بیان کر رہا تھا!

ہم اہل پاکستان کا بھی کچھ ایسا ہی مزاج ہوچکا ہے۔ موقع کی نزاکت کا اندازہ لگائے بغیر ہی ہم جہاں تہاں ’’کِتّھے کُڑی دا یار‘‘ کی صدا لگا بیٹھتے ہیں اور اِس کے بعد جو گت بنتی ہے وہ پوری دنیا دیکھتی ہے اور مزے لیتی ہے!

ہمیں پرائی بارات میں پگڑی بدلنے کا بہت شوق ہے۔ دوسروں کی رسوم کیا ہیں، اِس سے ہم واقف نہیں ہوتے اور بظاہر اِس سے کچھ غرض بھی نہیں ہوتی۔ اِسی کیفیت کو ’’آ بیل! مجھے مار‘‘ بھی کہتے ہیں۔
ساڑھے تین عشرے پہلے کی بات ہے۔ افغانستان میں بھی دو بڑی عالمی قوتوں کے درمیان پگڑیاں بدلنے کی تقریب ہو رہی تھی۔ امریکا بہادر نے ہماری پُشت پر ڈالر کی تھپکی دی اور ہم تن کر کھڑے ہوگئے۔ شہر کا سب سے بڑا غُنڈا سرپرستِ اعلیٰ بن جائے تو ڈیڑھ پسلی والے میں بھی تھوڑی بہت اکڑفوں تو پیدا ہو ہی جایا کرتی ہے! امریکا کی طرف سے نوازے جانے کا گرین سگنل ملنے کی دیر تھی۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پڑوس کی بارات میں ’’کِتّھے کُڑی دا یار‘‘ کی صدا لگادی۔ یہ صدا سُن کر برفانی ریچھ مشتعل ہوگیا۔ مگر وہ علاقے پر حُکمرانی کے طور طریقوں سے واقف ہونے ہونے کی بدولت ایسا بے وقوف نہ تھا کہ براہِ راست بِھڑتا۔ برفانی ریچھ نے ایسے حالات پیدا کئے کہ ہم بارات ہی میں اُلجھے رہیں اور تقریب ختم ہونے کے بعد بھی باراتی ہمارے ہی کھاتے میں رہیں! اِس پگڑی بدل کھیل میں امریکا کا حقِ نمک ادا کرتے ہوئے ہم نے جو کچھ کیا وہ صرف ہم نے بُھگتا۔ امریکا کو بھلا کیا بُھگتنا تھا، وہ تو پے منٹ کرکے الگ کھڑا رہا۔ جو ہم پر گزری وہ ہمی جانتے ہیں مگر کمال یہ ہے کہ ہم اب تک اِس کا ’’کریڈٹ‘‘ بھی لیتے ہیں!

پرائے پَھڈّے کی کھولتی کڑاہی میں کودنے کے حوالے سے افغانستان واحد کیس نہ تھا۔ اِس کے بعد بھی کئی بین الاقوامی باراتوں میں ہم نے یہی کیا ہے اور کبھی پچھتائے نہ شرمندہ ہوئے! غالبؔ نے کہا تھا ؂
رنج سے خُوگر ہوا اِنساں تو مِٹ جاتا ہے رنج
مُشکلیں مُجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں

مُشکلات سے نپٹنے کا ایک طریقہ یہ بھی تو ہے کہ اُنہیں حرزِ جاں بنالیا جائے۔ ہم بھی مُشکلات کو اپنے آپ پر آسان کر بیٹھے ہیں۔ گھر کے مسائل دِل میں گھر کرجائیں تو اُنہیں حل کرنا پالتو جانور کو ذبح کرنے جیسا محسوس ہوتا ہے۔ جب اپنے دیرینہ مسائل سے محبت ہوجائے تو اُن کے حلق پر کسی معتبر حل کی چُھری پھیرتے ہوئے ہاتھ کپکپاتے ہیں۔ ہمیں بھی طرح طرح کی مشکلات اور مسائل سے پیار ہوگیا ہے۔ اور یہ پیار دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔

جب تک ہم ’’کِتّھے کُڑی دا یار‘‘ کی صدا لگاکر مشکلات اور اُلجھنوں کی ’’دستارِ فضیلت‘‘ اپنے سَر پر سجانے کو بے تاب رہیں گے، علاقائی اور عالمی باراتی ہمیں ’’نوازتے‘‘ رہیں گے۔

’’کِتّھے کُڑی دا یار‘‘ کے نعرے میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ اِسے سُن کر غیر تو غیر، اپنے بھی ناراض ہوجاتے ہیں کیونکہ اُن کی عزت پر بھی داغ لگ رہا ہوتا ہے۔ یہ صفت بھی ہمی پر ختم ہے کہ پرائی لڑائی میں اِس طور کُودتے ہیں کہ کوئی بھی فریق ہمیں اپنا نہیں سمجھتا اور ہم وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش میں ساری وکٹیں گنواتے چلے جاتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524882 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More