پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس

تیس نومبر پیپلز پارٹی کا یوم تایسیس ہے ، ان سطور کی اشاعت کاتک پیپلز پارٹی اپنا یوم تایسیس منا رہی ہوگی یا منا چکی ہوگی۔ اس وقت پیپلز پارٹی جماعت ا سلامی کے سوا پاکستان کی سب سے پرانی جماعت ہے جو اپنے قیام سے لیکر اب تک موجود ہے۔ جبکہ باقی جماعتیں اپنا چہرہ مسخ کر چکی ہیں۔ عوام میں زندہ وہ تحریکیں اور جماعتیں زندہ رہتی ہیں، جن کی عوام سے وابستگی تادم مرگ باقی رہتی ہے۔……اسی طرح وہیں سیاستدان اور دیگر شعبہ ہائے خدمات کے راہنما عوام میں زندہ رہتے ہیں ،جو بے لوث عوام کی خدمت کرتے ہیں…… عوامی خدمت اپنے ’’پلے ‘‘سے کرتے ہیں۔تھانہ کچہری اور دیگر مقامات کے لیے جانے اور آنے کے لیے اپنی گرہ سے گاڑی استعمال کرتے ہیں ،غریب عوام کی جیبوں سے اپنے گھروں کے خرچ اخراجات پورے نہیں کرتے۔

پیپلز پارٹی کی تمام چھوٹی بڑی قیادت کو اس دن غور وفکر کرنا چاہیے کہ اس نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔ بادی النظر میں تو پیپلز پارٹی اب تک کھو ہی رہی ہے، پا نہیں رہی…… حکومتیں قائم کرلینا اور بات ہے عوام کی حمایت سے محروم ہوجانا الگ بات ہے۔ پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے پارٹی کے بانی اور پاکستان کے عوام کے دلوں کی دھڑکن’’ ذوالفقار علی بھٹو‘‘ کو کھویا، پھر بی بی کے ہی دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کی’’ آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ میر مرتضی بھٹو سے محروم ہوئی، اس سے قبل پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بے دخل کیا گیا، اس کی دلیل اس سے بڑی اور کیا ہو سکتی ہے کہ 5 جولائی 1977 کے بعد سے پنجاب میں پیپلز پارٹی اجنبی بنادی گئی۔ ایک بار 1994کے انتخابات میں اکثریت ہونے کے باوجود اسے وزارت اعلی میاں منظور وٹو کے سپرد کرنی پڑی ،جس کے پاس پنجاب اسمبلی کی بمشکل بارہ یا تیرہ نشستیں تھیں، اور پیپلز پارٹی فقط مشیر اعلی کے عہدے پر صبر شکر کرنے پر مجبور دکھائی دی……عارف نکئی کی وزارت اعلی مثالی کے لیے پیش کی جا سکتی ہے۔

پانچ جولائی 1977 اے آج تک پیپلز پارٹی پنجاب واپس لینے کی نہ صرف آرزو مند ہے بلکہ اس کے لیے سرتوڑ جدوجہد بھی کرتی رہی ہے ،اور اب بھی اس کا دعوی یہی ہے کہ پنجاب کو وگذار کرئے گی، لیکن مجھے یہ دیوانے کی ’’بڑ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں دکھائی دیتی،ویسے بھی پیپلز پارٹی منظور وٹو جیسے راہنما کے سپرد کرنے سے پنجاب مسلم لیگ نواز سے واگذا ر تو نہیں کرایا جا سکتا،البتہ ایسا ہوتے خواب میں دیکھنا بری بات نہیں ہے۔جو راہنما ایک ضلع میں پارٹی کا جلسہ منعقد نہ کر سکے اس سے پنجاب واپس لینے کی امیدا باندھنا خود کشی کے مترادف نہیں تو کیا ہے؟

پیپلز پارٹی کو پنجاب واپس لینے کے لیے سنجیدگی سے غور و حوض کرنا ہوگا، پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت کسی سنجیدہ راہنما کے سپرد کرنی اولین شرط ہے۔ ایسا راہنم جس کی کارکن آواز سنتے ہوں ،اسکے کہنے پر میدان کارزار میں اکودنے کے لیے ہمہ وقت تیار و آمادہ بھی ہوں، جب کمانڈر اگلی صفوں میں لڑے گا تو سپاہی تو پھر اس سے بھی دوقدم آگے نکل کر تن من دھن کی بازی لگائیں گے۔ اس مقصد کے لیے پارٹی کی موجودہ قیادت کو اپنے مخلص ہونے کا یقین دلانا ہوگا۔ تمام روٹھے ،ناراض پارٹی ورکروں ،کارکنوں کو واپس متحرک کرنے کے لیے انہیں منانا ہوگا،جو کارکن پارٹی چھوڑ چکے ہیں انہیں پارٹی میں واپسی پر آمادہ کرنا ہوگا۔پارٹی میں عضو معطل بن کر عہدوں سے چمٹی گدھوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔

جتنا نقصان پارٹی کو راجہ ریاض جیسے غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ لوگوں نے پہنچا ہے کسی نوا ز شریف اور شہباز شریف نے نہیں پہنچایا۔ جن راہنماؤں نے پارٹی کے عہدوں پر براجمان ہو کر ’’مال پانی ‘‘ بنایا ہے انہیں کانوں سے پکڑ کر اور ٹھڈے مار مار کر پارٹی سے باہر پھینکا جائے تو ناراض کارکنان واپس آنے کا سوچ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں پارٹی قیادت کو رابطہ عوام مہم کا آغاز کردینا ہوگا۔ اگر کسی کو عوام کی نسبت اپنی جان عزیز ہے اور وہ سکیورٹی کے بہانے عوام میں جانے سے انکارہے یا ہمت نہیں کرتا تو اسے پارٹی تو دور کی بات ہے سیاست سے الگ ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ جان عزیز ہے تو پھر گھر بیٹھ کر اسکی حفاظت کرے۔ایک مخدوم امین فہیم اﷲ کا بندہ تھا اس کی ژخصیت پت رشوت کے بدنما دھبے لگ چکے ہیں، گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت تمام وزرا نے جسقدر مال پانی بناکر پارٹی کے وجود پر جو زخم لگائے ہیں ان کے ہوتے ہوئے پارٹی اپنے پاؤ ں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔،

اب محض زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، اور نہ ہی زندہ ہے بی بی زندہ ہے کے نعروں سے کام نہیں چلے گا۔ اب عملی طور پر بھٹو کی طرح جان کی بازی لگانی ہوگی، اور اب حقیقت میں ہر گھر سے بھٹو کو نکلنا پڑے گا، کیونکہ اگر بھٹو ز کو زندہ رہنا ہے اور سیاست کرنی ہے تو پھر نعروں کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گی۔پیپلزپارٹی نے عوام کا اعتماد بھی کھویا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وعدہ کیا تھا کہ ہر سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ پر اپنے گھر کی چابی دیکر رخصت کیا جائیگا۔ اس مقصد کے لیے انہوں پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی بھی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور عوام کو نوید یا خوشخبری سنائی گئی تھی کہ لاکھوں مکان تعمیر کیے جائیں گے۔لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرکے گھر واپس بھی پہنچ چکی ہے مگر پاکستان کے کسی ایک شہر میں بھی ایک مکان کسی کو فراہم نہیں کیا گیا، دشمنی ہاتھیوں سے اور دل تھوڑے والی بات اب نہیں چلے گی۔

اپنے وزیر اعلی پنجاب کو ہی دیکھ لیں ان سے ہی پنجاب واپس لینا ہے ناں۔ تو وہ پنجاب میں کس رفتار سے کام کر رہے ہیں؟ جس تیز رفتاری سے شہباز شریف ترقیاتی کام کروا رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے تو مجھے نہیں لگتا کہ پیپلز پارٹی پنجاب واگذار کروانے میں کامیاب ہو جائے۔پیپلز پارٹی میں اس وقت مجھے تو ایک بھی شخص ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسا دکھائی نہیں دیتا،جس کی آواز پر پنجاب کے عوام باہر نکل آئیں۔ ویسے دلوں کو تسلیاں دینے اور خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،اور نہ ہی کوئی پابندی ہے۔قائم علی شاہ کی طرز حکمرانی دیکھ کر تو مکجھے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کراچی کے بعد اندرون سندھ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔پارٹی کی قیادت کو یوم تاسیس کے موقعہ بانی چئیرمین اور بے نظیر بھٹو سے معافی مانگنی چاہیے کہ انہوں نے اس پارٹی کا جو حشر نشر کر دیا ہے وہ بھی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144470 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.