ناکام تحریک

بات کرنی ہے تحریکِ جماعتِ اسلامی اور ان کے پیروکاروں کی۔ جماعتِ اسلامی کا آغاز پاکستان بننے سے پہلے ہوا تھا جس کی بنیاد تحریک کے بانی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ڈالی، جن کا دل اسلام کی محبت سے سرشار تھا۔ وہ خود ہر موڑ پر اپنے عمل سے ثابت کرررہے تھے کہ اُن کا جینا مرنا اسلام کے لیے ہے۔ اس لیے اُن کی سیاست اپنی ذات کے لیے نہیں تھی۔ لیکن وہ اسلام کی رونمائی چاہتے تھے۔ وہ ہند کے شہری تھے اور اُس وقت ہند میں مسلمان آزاد نہیں تھے۔ اس لیے وہ ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسے مملکت کے خواہاں تھے جس میں اسلامی قانون نافذ ہو۔

اسلام کے ساتھ ساتھ اُن کے دل میں پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت تھی۔ چونکہ پاکستان بننے سے پہلے اُنہوں نے کافی جدوجہد کی تھی، بہت سے مصائب برداشت کیے تھے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے خواہاں تھے جس کا خواب پورا ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ تب تو پاکستان کی محبت ان کی رگوں میں رچی بسی تھی، اور وہ پاکستان پر مرمٹنے کو تیار تھے۔ (اسی لیے تو پاکستان بننے کے بعد انہوں نے اپنا مسکن پاکستان کو بنایا۔ تب پاکستان کے منحوس سربراہوں نے اُن کی محبت کا صلہ انہیں سزائے موت سُناکر دیا تھا)۔ جماعتِ اسلامی کے موجودہ کارکنان میں سے کچھ افراد نے تحریک کو داغ دار کیا ہے اسی لیے تو جماعت اسلامی نام سے ہی بعض لوگ الرجک ہے ،ان الرجک لوگوں میں ایک میں بھی ہوں جو یہ داستان رقم کررہی ہوں یہ جوموجودہ جماعت اسلامی کے کارکنان ہیں اور جو اپنے آپ کو مولانا مودودی کے محسن اور تحریک کے پیروکار سمجھتے ہیں، اُن کو چاہیے کہ وہ ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں کہ مولانا مودودیؒ کا کردار کیا تھا۔ مولانا مودودیؒ اپنی ذات سے بے خبرمذہب، تہذیب، قوم و ملّت کیلئے سرگرداں رہتے، کبھی اپنی ذات کے لیے نہیں سوچا۔ ہر پل اسلام، پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے سوچا، بلکہ سارے عالمِ اسلام کے لیے سوچتاتھا۔ ان ہی خوبیوں کی بناء پر سارا عالمِ اسلام ہی اُن کا گرویدہ تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے جب ان کو ایک کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ پر سزائے موت سنائی تو پاکستانی قوم اور عالمِ اسلام میں شور و غل برپا ہوا۔ ہر قسم کا احتجاج شروع ہوا۔

آخر پاکستان کے بدمعاشوں نے سزائے موت عمر قید میں بدل دی۔ پھر 25 مہینے بعد رہائی ملی۔ پاکستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے اس عظیم ہستی کا جینا دشوار کیا تھا۔ لیکن خدا کو جن کی لاج رکھنی ہوتی ہے،تو پاکستان کے مردود سیاست دان اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔ وُتُعزّ من تشاء و تُذِلّ من تشاءُ (اور اﷲ جس کو چاہے عزت دیتاہے، اور جس کو چاہے ذلت دیتا ہے)۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ امن پسند بھی تھے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اُنہوں نے جہادِ کشمیر کی مخالفت کی تھی۔ اسی بناء پر پاکستان کے حکمرانوں نے انہیں جیل میں ڈالا، اور 20 ماہ تک قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔ (لیکن اُن کی اس بات سے نالاں ہوں کہ پاکستانی سرکار جب مشرقی پاکستان میں کارروائی کررہے تھے تو اُن کے جانثاربھی ساتھ دیتے )۔

جماعتِ اسلامی کے کارکن، جو پارٹی کو کٹھ پتلی ثابت کرتے ہیں اور تحریک کو ریزہ ریزہ اور داغ دار بناکر پیش کرتے ہیں، تو یہ تحریک آسانی سے وجود میں نہیں آئی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی زندگی کی ایک ایک سانس اس کے لیے وقف کررکھی تھی۔ کبھی جابر حکمران انہیں آنکھیں دکھاتے، کبھی وہ سلاخوں کے پیچھے وقت گزارتے، کبھی خیمہ زن ہوجاتے، تو کبھی انہیں سزائے موت سنائی جاتی رہی۔

بات ہورہی تھی تحریکِ جماعتِ اسلامی کی اور ان کے کارکنان کی۔ تحریک کے کارکنان میں آج کل جو تحریک کا امیر ہے اُن کے بارے میں ایک میڈیا والے نے بتایا کہ وہ اچھے انسان ثابت ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے جماعتِ اسلامی والے پسند ہی نہیں، کیونکہ کوئی ایسا امیدوار سامنے نہیں آیا ہے جو اپنی کہی ہوئی باتوں پر خود عمل پیرا ہو، جوکہ محترم قاضی حسین احمد تھے۔ خود اُن کی بیٹی سمیعہ راحیل قاضی تو اسمبلی میں ہوتی تھی اور بیرون ملک دوروں پر جاتی رہتی ہے، لیکن دوسری خواتین کے لیے ترقی کرنا ان کی پالیسی نہیں تھی۔ ایک بیٹے کا سنا ہے کہ امریکہ سے ڈگری یا ڈپلومہ لیا ہے۔ (اگرچہ سینئر اور مرحوم ہونے کے واسطے میں ان کا بڑا احترام بھی کرتی ہوں لیکن جب میرا قلم سچ پر اُتر آتا ہے تو پھر کسی کو خاطر میں نہیں لاتا)۔ وہ امریکہ سے نفرت کا اظہار کرتے لیکن اور لوگوں کے لیے، خود اپنے لیے نہیں۔کیونکہ اُن کی طرف سے ایک لسٹ لکھا گیا تھا ، جو سارے ملک میں پھیلایا جاچکا تھا، جس میں معصوم اور مظلوم ملالہ پر ہر قسم کا الزام تھا، جس میں زیادہ نفرت کا اظہار امریکہ سے تھا اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اُس نے اوبامہ کو آئیڈیل قرار دیا ہے۔ معصوم ملالہ کے خلاف اتنا سب کچھ!!

مولوی صاحبان کو کیا احساس کہ ملالہ اس قوم کی لائق ہونہار، زندہ دل، لاچار اور بے بس بیٹی ہے جو آپ لوگوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے غیروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے۔ کیونکہ ان کی نظریں اپنی جنت نما وادی (سوات) اور پیارے دیس پاکستان کے لیے فرش راہ ہوگی ، روح بے چین ہوگی ، دل بے قرار ہوگا اور یہ ملک ویسے ہی آسانی سے نہیں بنا ہے۔اس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، سر سید احمد خان، سید ابوالاعلیٰ مودودی وغیرہ جیسے بڑے بڑے مفکروں نے دن رات ایک کرکے بہت کوششوں سے اسلام کے نام پر یہ دیس بنایا ہے اور اسلام نے چودہ سو سال پہلے خواتین کے لیے تعلیم، وراثت جائز حقوق کا اعلان کیا تھا۔ تو کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ہم کو اپنے پیارے دیس سے دور اور ملک بدر کرکے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرے۔ تب ہم اﷲ تعالیٰ سے استدعا کرتے ہیں کہ ہم کو دہشت گردوں کی نظروں سے بچاکر اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین! اور خاص طور پر سفید پوش دہشت گردوں سے، کیونکہ آغازِ نبوت میں مکہ کے مشرکین سے واسطہ اتنا مشکل نہیں ہوتا تھا جتنا منافقین سے ہوتا تھا۔ کیونکہ کافر ظاہر سے معلوم ہوتا ہے تو لوگ اپنا راستہ پہچان جاتے ہیں، لیکن منافقین سے واسطہ پڑے تو معلوم نہیں ہوتا کہ دشمن ہے یا دوست۔

(سر سراج الحق صاحب سے لسٹ کے بارے میں استفسار کیا تو اُنہو ں نے بڑی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے، وہ یہ کام نہیں کرسکتے تھے، وہ پُرامن اور ترقی پسند لیڈر تھے، اور وہ میرے محسن تھا)۔ اگر لسٹ کسی اور نے اُن کے نام سے چھپوا یا تھا تو جب سارے پاکستان میں جماعتِ اسلامی کے پیروکار تھے تو انہوں نے قاضی صاحب کو مطلع کیوں نہیں کیا کہ آپ کے نام سے ایسا لسٹ شائع ہوا ہے۔

اتنے متعصبانہ لسٹ کا پورے ملک میں پھیلنا اور پھر اس کی تردید نہ کرنا! اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟ یا تو لسٹ اُن کی طرف سے شائع ہوا، اور اگر اس سے قاضی صاحب کے پیروکار انکار کرتے ہیں تو پھر قاضی صاحب کو کسی کی طرف سے مطلع نہ کرنے کا سوال یہ معنی رکھتا ہے سرے سے یہ تحریک ہی ناکام ہوچکا ہے، جس کے پیروکار اپنے لیڈر کو اتنے بڑے سانحے کی اطلاع دینے سے قاصر ہیں (کیونکہ تردیدی لسٹ میری نظروں سے نہیں گزرا ہے)۔چونکہ مولانافضل الرحمن صاحب کی سیاست اُن کے اپنی ذات کے لئے خاص ہے، جو نہ قوم کے خیرخواہ ہیں اور نہ مذہب کے۔ جبکہ اُن کے والد مفتی محمود صاحب نے پارٹی کے لیے بہت قربانیاں دی تھیں، اور وہ پارٹی اور ملک و قوم کے محب ثابت ہوئے تھے۔ لیکن بیٹے نے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے پاکستان کے ظالم اور جابر سامراج کے نقشِ قدم پر چلنے کو ترجیح دی، جس سے پارٹی اور خود ان کا امیج بھی متأثر ہوا۔

سید منور حسن صاحب کا مجھے پتہ نہیں کہ وہ کیسے کردار کے حامل تھے۔ شکل و صورت سے تو اچھے انسان معلوم ہوتے تھے، اورمعلومات میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن یہ نام نہاد اسلامی لوگ اکثر اسلامی بھیس میں کچھ اور ہوتے ہیں۔ میں مولانا مودودیؒ کے کچھ نظریات سے اختلاف بھی رکھتی ہوں، لیکن اس کی تفصیل بعد کے اوراق میں آئے گی۔ لیکن جو سر سراج الحق ہے، اُن سے واقفیت تب پیدا ہوئی جب وہ جماعتِ اسلامی کے امیر منتخب ہونے کیساتھ ساتھ سیاسی معاملات میں آگے آگئے۔ خاص کر دھرنوں اور حکومت کے درمیان مفاہمت میں ان کے مخلصانہ کردار نے اُنہیں قوم کے ساتھ زیادہ متعارف کرایا۔ حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان مخلصانہ مفاہمت کے کردار کو قوم کے ہر طبقۂ فکر کے لوگوں نے سراہا۔ خاص کر جب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق صاحب کو فون کرکے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے قبول نہ کرنے کی درخواست کی، توایاز صادق صاحب نے کہا کہ اب بہت ہوچکا، ہم نے بہت وقت دے دیا ہے، لیکن اب قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ لیکن امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق کی تعریف کرکے ان کی مخلصانہ کوششوں کو بہت سراہا۔

میڈیاکے نمائندے سے سر سراج الحق کی داستان سن کر میں نے فوراً جواب دیا کہ جماعتِ اسلامی والوں سے الرجک ہوں، اُس نے کئی مرتبہ تکرار کیا کہ یہ بندہ اپنی ذات کے لیے سیاست نہیں کرتا۔ اور پھر ساری داستان سنائی کہ 2013ء کا الیکشن لڑنے کے لیے اُن کے پاس پیسے نہیں تھے، تو چندہ جمع کروایا گیا۔ چونکہ وہ کئی مرتبہ صوبائی حکومت کا حصہ بھی رہ چکے ہیں، اور اب بھی سینئر وزیر تھے۔ جب وہ جماعتِ اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوئے تو وزارت سے استعفٰی دے دیا، تاہم وہ اب بھی ممبر صوبائی اسمبلی ہیں، اور یہ عظیم ہستی ابھی تک کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ داستان سن کر لکھنے کو دل بے چیں ہوا، اور فون نمبر پیدا کرکے رابطہ کیا۔ انہوں نے فوراً کال اٹینڈ کیا۔ سادہ مزاج، خوش اخلاق، بارُعب شخصیت لگ رہے تھے۔ بہت اخلاق سے پیش آئے۔ میں نے فوراً جملہ کس دیا کہ مجھے جماعتِ اسلامی والے اچھے نہیں لگتے، کیونکہ میں نے جماعتِ اسلامی میں کوئی اچھا فرد نہیں دیکھا ہے، اس لیے آپ سے متعلق بھی میری سوچ مثبت نہیں ہے، لیکن رابطہ اس لیے کیا کہ سچ کا پتہ لگا سکوں۔ اُنہوں نے خوش اسلوبی کیساتھ جواب دیا کہ جب انسان کو معلومات نہیں ہوتی تو نظریہ مختلف ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی والے ترقی پسند نہیں ہوتے۔ جواب ملا کہ میں ترقی پسند ہوں۔ مصروف ہونے کے باوجود وقت دیا، معلومات دیں۔سر سراج الحق جو فون اٹینڈ کرتے ہیں تو ایسا نہیں لگتا کہ کوئی سابق وزیر یا حکومت کا نمائندہ یا تحریک کے امیر ہیں، بلکہ خدا کے ایک عاجز بندے لگ رہے ہے، اور یہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔

یہ ہے سراج الحق صاحب کی سادگی پر مبنی پاک زندگی کی داستان، جوکہ پاکیزہ کردار کے حامل، صوم و صلواۃ کے پابند ہیں۔ جن پر کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جن کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے چندہ جمع کروایا گیا ہو اور جو اب بھی کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ جو اپنی عملی زندگی سے بھی یہ ثابت کررہا ہے کہ اسلامی زندگی کے اصول کیا ہیں۔

اب قارئین خود رائے قائم کریں کہ عظیم لیڈر، جماعتِ اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب کیسے انسان ہیں؟ اگر یہ باتیں سچ ہیں تو یہ برصغیر کے سیاستدانوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ لیکن اُن سے بھی جو شکایات ہیں وہ آئندہ کے اوراق میں قلمبند کروں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو میں نے لکھے ہے یہ معلومات مجھے دیئے گئے ہیں، اگر کچھ غلطیاں ہوں تو میں قصوروار نہ ہوں گی۔ چونکہ میں نے بذاتِ خود ان سے بھی استفسار کیا اور جماعت اسلامی کے کچھ کارکنان اور میڈیا والوں سے بھی۔ لیکن کسی نے بھی ان باتوں کی صداقت سے انکار نہیں کیا۔ چونکہ میں کسی سیاستدان کو خاطر میں نہیں لاتی ہوں اور پھر پاکستانی سیاستدانوں کی تو اکثریت گندے انڈے ہیں، صاف اور پاکیزہ لوگ بہت مشکل سے ہی ملتے ہیں۔ جناب سراج الحق صاحب سے شکایات یہ ہیں کہ وہ انڈیا، اسرائیل، امریکہ سے نفرت کی بجائے اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرکے امریکہ، انڈیا اور اسرائیل کی غلامی سے نجات دلانا چائیے ، کیونکہ ہم ترقی کرکے ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر غلامی سے نجات پاسکتے ہیں، صلح حدیبیہ کا اصول اپناکر ہی مسلمان آگے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ صلح حدیبیہ کے بعد خود اﷲ تعالیٰ نے وحی بھیج کر فتح کی بشارت دی تھی۔ کیونکہ جب جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو مسلمانوں کو مال و دولت اور اپنے اپ کومجتمع کرنے کاموقع ملا، اور انہوں نے اپنے آپ کو دشمنانِ اسلام سے جنگ کے لیے مستحکم کردیا۔ اس کے بعد ہی کئی غزوات میں فتح حاصل کرکے اسلام کا علم بلند کیا، حتٰی کہ مکۃ المکرمہ کو فتح کرکے اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا ازالہ کردیا۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد اسلامی دعویدار صلح حدیبیہ سے آگے جاتے ہیں اور ایسی غلط پالیسیوں کو اپناتے ہوئے اپنے قوم، مذہب کو داؤ پر لگادیتے ہیں۔ میں ان مولیوں کی بہت سخت مخالف ہوں جو جہاد سے دہشت گردی کا مطلب اخذ کرتے ہیں اور بلاوجہ دوسروں کے امن کو تباہ کردیتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کا اصول اپناتے ہوئے جہاد سے دہشت گردی کا مطلب اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ جہاد کا اپنا وقت اور حدود متعین ہیں۔ اگر صلح حدیبیہ کے وقت صحابہ کرامؓ جنگ کرتے تو بظاہر بہت کم تعداد میں ہونے کے باعث وہ شہید ہوجاتے اور اس کے بعد اسلام کو دور دور تک فتح نصیب نہ ہوتی۔
خدارا ہمارا کیا ہوگا! (کیونکہ ایک طرف اغیاروں کے پجاری ہیں اور دوسری طرف اپنے دہشت گرد)۔ ہمیں درمیانہ راستہ ملنا چاہیے تاکہ اپنے ملک و قوم کی خدمت کرکے اپنا فرض ادا کرسکیں۔ سر سیراج الحق کا فلسطین سے اظہار یکجہتی کو بہت مقدس فریضہ سمجھتی ہوں اور ملک با شعور طبقے نے اس کردار کو حد سے بڑھ کر سراہا ہے کیونکہ دیش میں صرف سر سیراج الحق نے فلسطین پہ وحشیانہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ملک کے اور سیاستدا ن تو اپنے قتدار کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کوئی کرسیاں چھوڑ نا نہیں چاہتے اور کوئی کرسیاں ملنے کے تعقب میں ہے لیکن سر سیراج الحق صاحب کویہ احساس بھی دلاتی ہوں کہ آج کل جو فلسطین ، کشمیر ، افغانستان ، صومالیہ ، چیچنیا، عراق، شام ، لیبیا میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں یہ آپ جیسے لوگوں یعنی نام نہادمولویوں کے غلط پالیسوں کا نتیجہ ہے مسلمانوں میں سب سے بہادر قوم فلسطین کا ہے، لیکن ان کے پاس ٹیکنالوجی نہیں، اسلحہ نہیں، جنگی ہتھیار نہیں، وہ بے بس اور مجبور قوم کیا کرے۔ ان کے پاس ہتھیار کے طور پر صرف پتھر ہیں، جبکہ اُن پر بم برسائے جاتے ہیں اور یہ مولویوں کی پالیسی ہے کہ وہ ترقی کو گناہ قرار دیتے ہیں، ٹیکنالوجی کو گناہ قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ پرانے زمانے کی جنگ ہوتی تو آج ساری دنیا پہ فلسطین کا سکہ چلتا۔

ایک تو ہمارے نام نہاد اسلامی سیاست دان انڈیا، اسرائیل اور امریکہ سے نفرت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں (کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ وہ ہمارے دوست نہیں ہوسکتے، لیکن دوسری طرف وہ اپنی قوم کے سامنے اسلام کی غلط تصویرپیش کرکے ہر جائز کام کو گناہ قرار دے کر خود ہر ناجائز کام کرنے کو ثواب سمجھتے ہیں۔)مسلمانوں کی سوچ کو محدود کرکے رب کی ربوبیت اور کائنات کی حقیقت سے ناواقفیت پر تلے ہوئے ہیں۔ اس لیے اپنے لوگوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بجائے پسماندہ معاشرے کو تشکیل دینے میں پیش پیش ہیں۔

کاش! یہ نام نہاد اسلامی لوگ، جو سب سے زیادہ اﷲ کی قربت کی دعویداری کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اﷲ کی قدرت اور کائنات کے رموز سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ خدا نے کائنات میں تسخیر کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن یہ لوگ کائنات کی محدود پیمائش کرتے ہیں اور کائنات کے اصل حقائق سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ پسماندہ سوچ کے حامل نام نہاد اسلام پسند، اسلام کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں، جبکہ غیر مسلموں نے قرآن مجید پر ایمان نہ لانے کے باوجود قرآن کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر نت نئی ایجادات کرکے جدید زمانے کو اپنا ماتحت بنالیا ہے، اور ٹیکنالوجی کو اپناکر وہ ہم پر سبقت لے گئے ہیں۔ اسی لیے اب ہرجگہ مسلمان غلامی اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ دوسری طرف جدید ٹیکنالوجی کو اپناکر غیر مسلم ہم پر ہر قسم کے جنگی ہتھیار برساتے ہیں، اور ہم اپنا دفاع کرنے کے معاملے میں بے بس ہیں۔ اس لیے اﷲ کے قربت کے دعویداروں کو چاہیے کہ وہ اﷲ رب العزت کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپناکر، کائنات کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرکے اﷲ کے دین (یعنی اسلام) کا پرچم ہر جگہ بلند کرنے میں مدد دیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں کافروں سے نفرت نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں کافروں کے کردار سے نفرت کی ضرورت ہے۔ یہاں پر ہر کوئی امریکہ کے خلاف واویلا کرتا رہتا ہے، امریکہ کا رونا روتا ہے، امریکہ کو دشمن کہتا ہے، لیکن بظاہر جو بھی امریکہ کا دشمن ہوتا ہے وہ درحقیقت پس پشت امریکہ کا حامی ہوتا ہے، اور جب امریکہ نظر کرم کرتا ہے تو اسے غنیمت گردانتا ہے۔ یہ ہمارے منافقت کی نشانی ہے۔

کاش! کہ ایک طرف ہمارے مولوی صاحبان ترقی کے خواہاں نہیں ہوتے ہیں، اور دوسری طرف عرب شیوخ اور شاہان غیر دینوں پر زیادہ مہربان نظر آتے ہیں۔ اس لیے مسلمان ترقی کے بجائے پستی کی طرف جارہے ہیں، جوکہ ایک طرف مسلمان نفاق سے چُور چُور ہیں، دوسری طرف مولیوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج اگر اسلامی ممالک: عراق، ایران، افغانستان، برصغیر، انڈونیشیا، ملائیشیا، عرب ممالک ایک ہوتے تو دُنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم کا یہ پہاڑ نہ ٹوٹتا۔ مسلمانوں میں سب سے زیادہ بے مروت عرب ممالک اور خاص کر سعودی عرب ہے، جو غیر دینوں کو یار اور مسلمانوں کو غیر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ عرب ممالک پر شیوخ اور شاہوں کی حکمرانی ہے اور شیوخ و شاہان میں اسلام اور مسلمان کا کوئی ڈھنگ نہیں۔ یہ سب مسلمانوں کے بھیس میں کٹھ پتلی ہیں۔

اب چلتے ہیں مولانا مودودیؒ کی طرف! چونکہ میں نے گزشتہ اوراق میں تحریکِ جماعتِ اسلامی کی بنیاد اور کارنامے لکھے ہیں، لیکن یہ بھی لکھا تھا کہ میں مولانا مودودیؒ اور ان کے والدکے کچھ نظریات کے خلاف بھی ہوں۔ کیونکہ اظہارِ رائے ہر بندے کا بنیادی حق ہے۔ میں مولانا مودودیؒ کے کچھ نظریات کے خلاف ہوں لیکن اُن کا مطالعہ بھی بہت پسند ہے۔ ان کی کتابیں بہت پڑھتی ہوں۔ خدا نے اُن کو جو ذہن عطا کیا تھا ابھی تک برصغیر میں ان جیسے نہیں ملا۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں تو انسان کے دل و دماغ میں خدا کی خدائی احسن طریقے سے پیوست کرتے ہیں، رب کی ربوبیت سے آشنا کرتے ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ ذہن میں سمو دیتے ہیں، اسلام کی حقانیت سے واقفیت دلاتے ہیں، انسان کوراہِ ہدایت پر لا کھڑا کردیتے ہیں۔ میں بہت پڑھتی ہوں۔ میرے دل کو یہ کتابیں بھاتی ہیں، کیونکہ کچھ ناسمجھ لوگ ان کی علمی، ذہنی قابلیت پر تنقید بھی کرتے ہیں اور کچھ لوگ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے بھی منع کرتے ہیں، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی کم علمی کی بناء پر مولانا مودودیؒ کے وسعتِ علم کو سمجھ نہیں پاتے۔ ایسے لوگوں نے سرسید احمد خان کو اسلام کو آگے لے جانے کی پالیسی پر کافر ٹھہرایا، علامہ محمد اقبال، رحمان بابا کو بھی ہدفِ تنقید بنایا۔ چونکہ انہی اشخاص نے اسلام کی سربلندی کے لیے تن من دھن کی بازی لگائی تھی۔

لیکن میں مولانا مودودیؒ کے کچھ اصولوں کے خلاف ہوں۔ وہ یہ کہ خدا نے اُن کو جو انقلابی ذہن عطا کی تھی، اگر وہ اپنے ذہن سے اسی طرح فائدہ اٹھاتے اور ترقی کو پسند کرتے اور اپنے آپ کو زیادہ تعلیم یافتہ بناتے، برصغیر میں اہم عہدہ حاصل کرتے اور اپنی قوم کو تعلیمی میدان میں آگے لے جاتے اور مسلمانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرتے تو آج برصغیر پر اسلام کا علم لہرا رہا ہوتا۔ ایشیا میں اسلام کا بول بالا ہوتا۔ دنیا میں اسلام کا پرچار ہوتا اور مسلمان غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوتے۔

قرآن پاک کے ایک تفسیر میں پہلے اوراق پر مولانا مودودیؒ کی زندگی کی کچھ داستان رقم ہے۔ اُن سے کچھ جملے لے کر قارئین کی خدمت میں پیش کرتی ہوں۔ سب سے پہلے بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ اپنے وقت کے عظیم الشان عالم تھے۔ میں اُن پر تنقید کرکے گستاخی نہیں کرنا چاہتی ۔ لیکن تنقید برائے اصلاح کا اُصول اپناکر اپنے دل کی آواز قارئین تک پہنچانا چاہتی ہوں اور وہ بھی دین کی اصلاح کی خاطر۔ چونکہ میں ایک ناچیز ہونے کے ناطے اپنے اوپر یہ حق سمجھتی ہوں کہ دین داروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرکے علم میں اضافہ کروں، جوکہ مولانا مودودیؒ جیسے انقلابی ذہن رکھنے والی پاک ہستی پر نہ تو میں تنقید کرسکتی ہوں اور نہ ہی خدا مجھ سے ایسا فعل سرزد کرے جس سے حق پرستوں کی دل آزاری ہو۔ پھر بھی اگر کوئی غلط بات لکھی ہو اور کسی کو ناگوار گزری ہو تو سب سے معافی چاہتی ہوں۔ لیکن معافی اِن باتوں پر کہ وہ حق ہوں اور میں نے ناسمجھی میں ان پر تنقید کی ہو۔ ورنہ ناحق باتوں پر تنقید کرنے کی تو میں کسی سے بھی معافی نہیں مانگتی، اور حق بات کو آگے پہنچانا اپنا قلمی فرض سمجھتی ہوں۔

قرآنِ پاک کے اوراق پر مولانا مودودیؒ سے متعلق جو داستان رقم ہے اُن سے چند جملے آپ کے سامنے رکھتی ہوں۔ ’’مولانا مودودیؒ کے والد صاحب کا نام سیّد احمد حسن تھا۔ اورنگ آباد میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ 1903ء میں مولوی محی الدین کے ہاتھ بیعت کی اور وکالت چھوڑ دی۔ اپنے پیر و مرشد کے کہنے پر پھر سے وکالت شروع کی۔ (کیا یہ بات ٹھیک تھی کہ عہدے سے استعفٰی دے کر اسلام کی خدمت کی جاسکتی ہے، یا اسلام کو ترقی مل سکتی ہے؟) چونکہ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام پسند لوگ عہدوں پر ہوں تو اسلام ترقی کرسکتا ہے۔

کشمیر کا سربراہ اگر ڈوگرہ کے بجائے مسلمان ہوتا تو کیا وہ ہندووں سے تعلق استوار کرتا یا مسلمانوں سے؟ جو لوگ میری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے تو وہ اُن کی اپنی سوچ ہے، لیکن جب انسان زمانے کے لحاظ سے کسی اہم عہدے پر ہو تو اُس کا اثر و رسوخ ہم جیسے لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، جن کی ذاتِ اقدس پر اﷲ تعالیٰ نے وہ ذمہ داری ڈالی تھی کہ جس کو اٹھانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اُس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو صبر، استقامت، عزم، استقلال عطا کیا گیا تھا، جو اپنی مثال آپ تھا۔ اُن ؐ کو ایسی شخصیت عطا کی گئی تھی جو اخلاق، دیانت، شرافت ، خلوص، سچائی، فراخ دلی، انسانیت کا سرچشمہ تھا۔ آپؐ کی عملی زندگی دنیا کے لیے ایک بہترین نمونہ تھی، جو دینی اعتبار سے دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپؐ دنیا میں ایک ایسے عہدے پر فائز کئے گئے جو اپنے وقت کا بہت ہی ممتاز عہدہ تھا، اور وہ عہدہ یہ تھا کہ دُنیاوی اعتبار سے بھی آپؐ قریش کے اہم سرداروں کی اولاد میں سے تھے، جن کا اثر و رسوخ زمانے کے دیگر لوگوں سے زیادہ تھا۔تو ہمارے نام نہاد اسلامی پیروکاروں کو یہی مثال کافی ہے۔ اگر اﷲ چاہتا تو ہم جیسے عام گھرانے میں پیغمبر پیدا کرتے (عام گھرانے سے مراد خدا کی مخلوق کا تضحیک نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کسی خاص مقصد کے لیے انعام کیا ہوتا ہے)۔

اسی دوران میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ دنیا میں آئے۔ سید احمد حسن نے اپنے بیٹے کی تربیت خالصتاً دین کی بنیاد پر کی۔ ابوالاعلیٰ کی ابتدائی تعلیم کا انتظام گھر پر ہوا۔ ان کے والد گرامی نے یہ فیصلہ کیا کہ بچے کو دینی تعلیم دینی ہوگی اسی وجہ سے اُن کے لیے گھر پر ہی اردو، فارسی، عربی، فقہ اور حدیث سیکھنے کا انتظام بھی کیا۔ انگریزی زبان اور عصری علوم اور خیالات سے مکمل طور پر بے خبر رکھا۔ بہت عرصہ تک مدرسہ یا سکول میں داخل نہیں کروایا ۔(اور ایسی پالیسی کی میں بہت سخت خلاف ہوں)۔ اگر اسی بات پر مجھ سے نام نہاد اسلامک پیروکار خفا ہوتے ہیں تو لاکھ خفا ہوں۔ وہ مولانا مودودیؒ کے پیروکار ہوں یا خود سراج الحق صاحب، مجھے کوئی ملال نہ ہوگا۔) جب گھر میں مناسب تعلیم مکمل کی تو سید مودودیؒ 11 سال کے تھے کہ مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد میں آٹھویں جماعت میں داخل ہوئے۔ ویسے تو معلومات میں اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے بہت تیز تھے، لیکن آٹھویں جماعت کے امتحان میں ریاضی میں فیل ہوئے۔ لیکن ان کے اساتذہ ان کی قابلیت سے مطمئن تھے۔ اس لیے نویں جماعت میں داخلہ دیا نویں جماعت میں نئے علوم کیمیا، طبیعیات اور ریاضی کے ساتھ دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی ابوالخیر ان سے ایک سال آگے دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ ابوالاعلیٰ کبھی کبھار ان کے کمرے میں جاتے اور ان کی کتابیں پڑھتے۔ بھائی نے میٹرک کا امتحان دینا تھا۔ ابو الاعلیٰ نے بھی زور لگا یا کہ میں بھی بڑے بھائی کے ساتھ امتحان دوں گا۔ سب حیران تھے کہ تیاری نہیں کی، کیسے امتحان دیں گے۔ لیکن جب ٹیسٹ لیا گیا تو بہت اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا، لیکن کم عمر ہونے کی وجہ سے بمشکل امتحان میں شرکت کی اجازت ملی۔ ابوالاعلیٰ نے 13 سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا۔

جب وہ اتنے لائق تھے تو بہتر ہوتا کہ اُن کو پہلے ہی دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کیمیا، طبیعیات، ریاضی سے روشناس کرادیا ہوتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا۔ وہ اگر آگے جاتے تو برصغیر میں اہم عہدہ پر فائز ہوجاتے اور مسلمانوں کے لیے ترقی کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے۔

میٹرک کے بعد فرسٹ ایئر (انٹر میڈیٹ) میں داخلہ لیا، لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر تعلیم چھوڑدی۔ 1918ء میں اخبار ’’مدینہ‘‘ (بجنور) میں دو مہینے تک کام کیا۔ 1919ء میں تحریکِ خلافت میں حصہ لیا۔ اس وقت مودودیؒ کی عمر 16 سال تھی۔ اسی زمانے میں جبل پور میں ’’تاج‘‘ اخبار میں چھ مہینے کام کیا۔ پھر دہلی آئے۔ دہلی میں مودودیؒ نے مولوی محمد فاضل سے انگریزی سیکھنا شروع کی۔ انگریزی سیکھنے کے لیے میٹرک کی انگریزی کتاب کا مطالعہ کیا۔ تقریباً پانچ ماہ تک مطالعہ کیا۔ اس کے بعد مودودیؒ کو اُستاد کی ضرورت نہیں تھی، اور دو سال تک انگریزی اخبارات، رسائل اور کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے تاریخ، فلسفے، سیاسیات، معاشیات اور مذہب کی مشکل کتابوں کا مطالعہ کرنے پر عبور حاصل کیا اور ہر علمی بات آسانی سے سمجھنے کے قابل ہوئے۔

اگر مولانا مودودیؒ دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم میں دلچسپی لیتے اور توجہ دیتے (کیونکہ سائنس قرآن سے نکلا ہے اور چودہ سو سال پہلے قرآن نے سائنس کو متعارف کرایا تھا)، تو بڑے عالم اور فاضل سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے سائنسدان بھی ہوتے تو برصغیر کی کایا پلٹ بھی سکتے تھے اور آج برصغیر کی ایٹمی طاقت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی تو یہ مسلمانوں کے لیے نیک شگون ثابت ہوتا۔
ہمارے نام نہاد اسلامی اصول پرست اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دین کے بدلے دنیا پر توجہ دینا اسلام کی شان نہیں ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ترقی کو مسترد کرکے پستی کی طرف جائیں اور اسلام کو زوال پذیر کردیں۔ لیکن ایک اسلامی سربراہ کی یہی خاصیت ہے کہ وہ دین کو پھیلا دے اور اپنی قیادت کو اپنی ذات کے لیے محدود نہ کرے۔ لیکن اپنی ذات کی بجائے ریاست، عوام پر توجہ دے۔ یہ نہیں کہ قیادت غیر دینوں کے حوالے کرکے اسلام کا ستیا ناس کردے۔ حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ بیت المقدس جارہے تھے۔ آپؓ اور غلام باری باری اونٹ پر بیٹھتے جب منزل پر پہنچے تو غلام کی باری تھی اور خود حضرت عمرؓ نے مہار سنبھال لی تھی آپؓ کے قمیص میں بارہ پیوند بھی لگے ہوئے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ امیر المومنینؓ کون ہیں؟ تو کیا حضرت عمرؓ اسلام کو پستی کی طرف لے گئے تھے؟ یا اسلام کے پھیلاؤ پر توجہ دی تھی؟ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں اسلام دُنیا کے طول و عرض تک پھیل گیاتھا ۔ حضرت عمرؓ اگر خلافت کے عہدے پر فائز نہ ہوتے تو کیا مسلمان اتنی بڑی تعداد میں دُنیا کے طول و عرض میں پھیلتے؟ کیا حضرت عمرؓ نے ایسا کہا تھا کہ میں ویسے بھی سادہ زندگی گزارتا ہوں، تو مجھے خلافت کی کیا ضرورت ہے۔ یہ غیر مسلم عہدے کا شوق رکھتے ہیں تو اس لیے میں اُن کے لیے اپنی نشست خالی کرتا ہوں؟ کیا حضرت عمرؓ نے ایسی کوئی پالیسی اپنائی تھی جوکہ اسرائیل نے حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں اپنی ریاست قائم کی تھی۔ اسلیے کہ سلیمانؑ وقت کے بادشاہ تھے۔ اس سے پہلے موسی ؑ کے زمانے میں موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کو تنبیہ کی تھی لیکن موسیٰ ؑ کی قوم اپنے مخالفین کے مقابلے میں طاقت ور نہیں تھے۔ اس لیے قبضہ نہیں کیا تھا۔ اور اب جو اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے تو ریاست بنادیا ہے، کیونکہ امریکہ آج کل سپر پاور ہے۔ خدا ان ظالم سامراج حکمرانوں کا ستیا ناس کردے۔ کیونکہ امریکہ کو سپر طاقت نام نہاد مسلمانوں نے بنایا ہے، جوکہ ٹیکنالوجی کو گناہ قرار دے کر اپنے لیے استعمال کرنا گناہ اور امریکہ کو بخشنا ثواب سمجھتے ہیں۔ میں نے دوران مطالعہ پڑھا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا جب برصغیر کے مسلمان عہدیداروں نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفے دیے تھے، اور ہندووں کے لیے راہ ہموار کی تھی۔جوکہ ہندووں نے خالی نشستیں سنبھال کر برصغیر پر اپنی گرفت مضبوط کرلی، جوکہ سرسید احمد خان یہ پالیسی دین کے لیے اچھا نہیں مانتے تھے تو نام نہاد اسلامیوں نے اُن کو کافر کہا جوکہ برصغیر پر بہت عرصہ تک مسلمانوں کی بالادستی قائم تھی۔ جو نااہل اسلامیوں کی کوتاہیوں کی نذر ہوگئی، اور اب تک ہند کے مسلمان غیروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر دین کے دعویدار اپنی خواتین کی ترقی کو برا نہ مناتے تو اج ملالہ یوسفزئی غیروں کے چنگل میں نہ پھنستی۔ کیونکہ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے کہ ایک طرف اُن کو دنیا کی ہر سہولت میسر ہے اور دوسری طرف وہ اپنی دھرتی، اپنے قوم، اپنے وطن سے دور ہوکر غیروں کے درمیان رہنے پر مجبور ہے، جوکہ ہماری قوم، ہمارے مذہب اور ہمارے ملک کے لیے بہت بدنامی کا باعث ہے۔ میں تو اپنے دیش کے ایک ایک ذرہ کو ساری دنیا کی آسائشوں کے بدلے دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ لیکن اﷲ تعالیٰ ہمارے اسلامیوں کو اسلام کے اصل حقائق سے باخبر کرکے خواتین کے جائز حقوق کو مانتے ہوئے خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل ہونے سے بچائے۔ تاکہ قوم ترقی کرکے غلامی سے نجات پائے۔ کیونکہ خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا ہی قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔

حدیث سے ثابت ہے کہ علم مرد و خواتین پر یکساں فرض ہے، اور یہ بھی ثابت ہے کہ عورت کا مرد پر بھی اتنا حق ہے جتنا کہ عورت پر مرد کا۔اور یہ بھی ثابت ہے کہ وراثت میں بیٹی کو بیٹے کی نسبت آدھا حصہ ملنا چاہیے۔ کیونکہ مرد پر ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے اُن کا حصہ زیادہ مقرر ہے۔

لیکن کاش! کہ ہماری قوم میں یہ جرأت نہیں کہ اسلام کے اصل اصول کو مان کر خواتین کو وراثت، تعلیم اور جائز حقوق دے کر اپنی خواتین کو صفِ اول کی خواتین کے ساتھ کھڑا کردے۔

اگر ملالہ یوسفزئی یہاں ہوتی اور اپنی قوم کے بچیوں کو علم کی روشنی سے منور کرتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ کیونکہ بقول ملالہ یوسفزئی کے وہ تعلیم کو عام کرنے کی خواہاں ہے اور ان کو یہ پالسی بہت مہنگی پڑی اور ذہنی اور جسمانی اذیت دے کر ملک بدر کردیا گیا۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس نایاب گوہر سے اور لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
’’ وہ گوہر یکتا ہے تو اوروں کے لیے ہے
جاودانی سندیسہ صرف بہاروں کے لیے ہے‘‘
جوکہ چودہ سو سال پہلے ہی قرآن پاک نے خواتین کے حقوق کا اعلان کیا تھا: علم حاصل کرنے کا بھی، وراثت میں حصہ کا بھی، دیگر جائز حقوق کا بھی۔
Pakiza Yousaf Zai
About the Author: Pakiza Yousaf Zai Read More Articles by Pakiza Yousaf Zai: 21 Articles with 47596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.