سارک کانفرنس - امید کی کرن

سارک کانفرنس علاقائی و اقتصادی تعاون بڑھانے،خطے میں غربت کے خاتمے کے لئے امید کی کرن

نیپال میں دو روز جاری رہنے والی اٹھارویں سارک کانفرنس چھتیس نکاتی مشترکا اعلامیہ پر ختم ہوگئی۔ جس میں علاقائی و اقتصادی تعاون بڑھانے،خطے میں غربت کیخاتمے کیلیے اقدامات کرنے کے علاوہ سارک ڈویلپمنٹ فنڈکے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ سارک ممالک کازمینی راستوں کے ذریعے روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ آئیندہ انیس ویں سارک کانفرنس دو ہزار سولہ میں اسلام آباد میں ہو نے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اگر حقیقت پسندانہ اور مرحلہ وار اقدامات کیے جائیں تو خطے کے مسائل کے خاتمے میں بڑی مدد ملے گی۔کانفرنس میں رکن ممالک نے توانائی کی شراکت کے معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں سارک سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین کی طرز پر جنوبی ایشیائی ممالک پر مشتمل اقتصادی یونین اور مشترکہ ترقیاتی فنڈ کے قیام پر اتفاق کیا گیا ہے جبکہ کانفرنس کے آٹھ ملکوں کے درمیان توانائی کی شراکت کا ایک معاہدے پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔ تاہم خطے میں معاشی تعاون کے دو دیگر معاہدوں پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔اقتصادی یونین نے ہوا،پانی،شمسی،بائیوفیول کے منصوبوں ، زراعت،غذائی تحفظ ،تحقیقی اور فنی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ۔جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم یا سارک جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو تقریباً 1 اعشاریہ 47 ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تنظیم 8 دسمبر 1985 کو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔ 3 اپریل 2007 کو نئی دہلی میں ہونے والے تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں افغانستان کو بھی آٹھویں رکن کی حیثیت تنظیم میں شامل کیا گیا۔ جنوبی ایشیائی ممالک پر مشتمل ایک تجارتی بلاک کا خیال بنگلہ دیش کے صدر ضیا الرحمن نے پیش کیا۔ 1981 میں کولمبو میں ہونے والے ایک اجلاس میں بھارت، پاکستان اور سری لنکا نے بنگلہ دیشی تجویز کو تسلیم کیا۔ اگست 1983 میں ان رہنماؤں نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک اجلاس میں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کے معاہدے کا اعلان کیا۔ 7 ایشیائی ممالک جن میں نیپال، مالدیپ اور بھوٹان بھی شامل ہیں، نے زراعت و دیہی ترقی مواصلات، سائنس، ٹیکنالوجی اور موسمیات،صحت و بہبود آبادی،ذرائع نقل و حمل،انسانی ذرائع کی ترقی کے شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا،افغانستان کو 13 نومبر 2005 کی بھارت کی تجویز پر 3 اپریل 2007 کو مکمل رکن کی حیثیت سے تنظیم میں شامل کیا گیا۔ افغانستان کی شمولیت سے تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ کر 8 ہوگئی ہے۔ اس تجارتی بلاک کی اہمیت اس وقت اور بڑھ گئی جب اپریل 2006 میں ریاستہائے متحدہ امریکہ اور جنوبی کوریا نے مبصر کی حیثیت سے تنظیم میں شمولیت کی باقاعدہ درخواست دی۔ بعد میں یورپی یونین نے بھی مبصر کی حیثیت سے شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی اور جولائی 2006 میں سارک وزرا کونسل میں اس حیثیت کے لیے باقاعدہ درخواست دی۔2007 میں ایران نے بھی مبصر کی حیثیت کے لیے درخواست دی۔ یوں نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں اس تجارتی بلاک کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کر لیا گیا۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سارک رہنماؤں نے خطے سے غربت کے خاتمے کے لیے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔ اختتامی اجلاس میں جہاں متفقہ طور پر کٹھمنڈو اعلامیہ جاری کیا گیا وہیں اجلاس کے آخری دن کٹھمنڈو کے قریب ایک تفریحی مقام پر آٹھ ملکوں کے درمیان مشترکہ گریڈ کے ذریعے بجلی کی شراکت کے ایک معاہد ے پر دستخط بھی ہوئے ۔ اس موقع پر بھارت صرف ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھا بلکہ دو مزید معاہدے جن کا تعلق ٹرانسپورٹ اور ریلوے سے تھا ان پر بھی دستخط کرنا چاہتا تھا تاہم پاکستان نے اس پر یہ کہہ کر دستخط سے انکار کردیا کہ ان معاہدوں پر وزرا کی سطح پر بات چیت نہیں ہوئی او ر ان پر بات چیت کرنا ابھی مناسب نہیں۔ کانفرنس کے شرکاء نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا جس پر بھارت بھی رضا مند ہو گیا۔ نیپال کے وزیراعظم سشیل کوئرالہ نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سربراہان کے درمیان تعمیری بات چیت ہوئی ہے اور یہ سارک کے ایجنڈے کے فروغ میں بھر پور کردار ادا کریں گے۔ اس کانفرنیس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان مختصر مصافحہ بھی ہوا۔ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری تناؤ میں کمی آئی ہے۔ نواز شریف نے تو یہاں تک کہا کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ سارک کے قیام کو تین دہائی گزر چکی ہیں۔ لیکن یہ پلیٹ فارم اب بھی یورپی یونین کی طرح موثر نہٰن بن سکا ہے۔ سارک کے استحکام میں علاقائی تنازعات بڑی رکاوٹ ہیں ۔ بھارت پاکستان کے تنازعات بھی اس میں اہم رکاوٹ ہیں۔ سارک مملک کو دہشت گردی کے چیلنج کو بھی سامنا ہے۔جنوبی ایشاء مملک کے لئے سارک ایک اہم ترین پلیٹ فارم ہے جس کے ذرریعے خطے کے عوام کی خوشحالی اور رکن ممالک اپنی اجتماعی بہتری کیلئے شاندار انداز سے کام کر سکتے ہیں، سارک کو اس ضمن میں یورپی یونین کی تقلید کرنی چاہیئے۔ جس نے بہت تھوڑے عرصے میں ویزہ، کرنسی، پاسپورٹ میں یکسانیت کے علاوہ یورپی یونین میں شامل ممالک اقتصادی تعاون میں بھی زبردست انداز سے پیشرفت کی ہے۔ یورپی یونین بڑے ممالک کی تنظیم ہے اور اس کے مقابلے میں سارک میں شامل ممالک چھوٹے ہیں لیکن اس تنظیم میں خطے کے ممالک کیلئے کام کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے۔سارک کو موثر بنانے میں پاک بھارت کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا، اور تعاون کے فروغ بڑھانے کے لئے مل جل کر قدم بڑھانا ہو گا-
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387424 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More