مینار پاکستان کی گواہی
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
جماعت اسلامی کے سہ روزہ
اجتماعات عام جو عموماَپانچ چھ سال بعد ہوتے ہیں کراچی کے ان خاندانوں کو
جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے کہیں شہر باہر نہیں جا پاتے ایک موقعہ یہ بھی
فراہم کرتے ہیں کہ اب جا ہی رہے ہیں تو بچوں کی چھٹیاں کرا کے کچھ آگے
گھومنے کے پروگرام بنا لیے جائیں ۔چنانچہ ایسا ہی کچھ پروگرام ہمار ا بھی
بن گیا اس لیے اس موضوع پر تاخیر ہوئی اس درمیان میں یہ بھی خواہش تھی کہ
دیگر صحافیوں اور دانشوروں کے مضامین و آرٹیکلز کو بھی دیکھ لیا جائے کہ کس
نے کس انداز اور زاویہ نگاہ سے اس سہ روزہ اجتماع عام کو پرکھا اور جانچا
ہے ۔ہمیں بہت اچھے مضامین اور تحریریں پڑھنے کو ملیں جس سے ہمیں بھی ہر
پہلو سے آگاہی حاصل ہوئی ۔ہم 20نومبر کو جماعت اسلامی میڈیا سیل کے نگراں
جناب ذاھد عسکر ی کی قیادت میں کراچی کے صحافیوں اور رپورٹروں کی ٹیم کے
ساتھ تیز گام سے روانہ ہوئے ہماری بوگی میں تیس سے زائد صحافی حضرات تھے جب
کہ برابر والی بوگی میں حلقہ صحافت کے ذمہ دار جناب نصراﷲ چوہدری حلقہ
صحافت سے وابستہ صحافیوں کی ٹیم لے کر جا رہے تھے ۔ان دونوں بوگیوں میں
ہمارے علاوہ جو دیگر لوگ تھے ان میں بھی اکثریت اجتماع عام کے شرکاء کی تھی
پہلے ہمیں جس کمپارٹمنٹ میں جگہ ملی اس میں روزنامہ جنگ کے رپورٹر جناب
جاوید رشید صاحب تھے جاوید بھائی ہمارے لیاقت آباد کے پرانے ساتھی ہیں سوچا
کہ چلو ان کے ساتھ سفر اچھا گزر جائے گا لیکن ہمارے امیر نے ہمیں وہاں سے
اٹھا کر دوسرے کمپارٹمنٹ میں بٹھا دیا جہاں جناب سرفراز صاحب اور ۔۔۔عثمانی
صاحب ،اقبال چوہدری صاحب ان کا بیٹا اور ایک نوجوان صحافی جو پی پی آئی میں
ہوتے ہیں ہمارے ہمسفر تھے۔سرفراز اور عثمانی صاحب بظاہر تو آپس میں بحث
مباحثہ کرتے اور لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں لیکن اندر سے یہ ایک ہی ہیں جس
طرح جڑ ایک ہوتی ہے اس کے دو تنے ایک دوسرے کے مخالف سمت میں نظر آتے ہیں ۔عثمانی
صاحب کی بات اس جملے سے شروع ہوتی تھی دیکھو میاں میرا جماعت وماعت سے کوئی
تعلق نہیں اور پھر ساری گفتگو جماعت ہی کے حوالے سے ہوتی بہر حال ان کے
ساتھ سفر اچھا گزر گیا ہم جمعہ کے بعد اجتماع گاہ میں پہنچ پائے ۔ٹھیک
ساڑھے تین بجے قاری وقار احمد چترالی صاحب کی قرائت سے پروگرام کا باقاعدہ
آغاز ہوا نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد ناظم اجتماع جناب میاں مقصود صاحب نے
اجتماع کے حوالے سے ہدایات دیں ان کی تقریر کا ایک جملہ بہت اہم تھا جو لوگ
دور دراز سے چل کر اجتماع گاہ میں پہنچ گئے وہ سمجھو اس اجتماع میں شریک ہو
گئے ۔امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ جماعت
اسلامی واحد جماعت ہے جو جمہوری ہے نظریاتی ہے اور سیاسی ہے یہاں کوئی
دستور سے بالاتر نہیں ہے ۔کرپشن کا کوئی داغ جماعت کے دامن پر نہیں ہے ۔ہم
جب کہتے ہیں کہ کوئی فرد احتساب سے بالا تر نہیں ہے تو آج میں امیر جماعت
کی حیثیت سے اپنے آپ کو اس لاکھوں کے جلسے میں احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں
،قیامت کے دن شرمساری کے بجائے یہاں میرا احتساب ہو جائے وہ بہتر ہے ۔کچھ
لوگ کہتے ہیں دین کا سیاست سے کیا تعلق ،خلافت اور سیاست نبیوں کی سنت ہے ،یہ
انبیاء انفرادی اصلاح بھی کرتے تھے اور اجتماعی اصلاح بھی کرتے تھے سیاست
اصلاح کا نام ہے یہ فرد کا ،معاشرے کا ،نظام حکومت کی ا صلاح کرتی ہے۔انھوں
نے کہا کے انگریزوں کا نظام اب بھی باقی ہے ،اس نظام میں کیا یہ ممکن ہے کہ
ایک غریب آدمی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے ہم نے چیف جسٹس کو روتے ہوئے
دیکھا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھ پر بھی ظلم ہوا ہے یہ ملک معدنیات کی دولت
سے مالا مال ہے لیکن پھر بھی ملک میں اندھیرا ہے لوڈشیڈنگ ہے مولانا مودودی
نے پرامن تحریک کا راستہ بتایا ہے مین اعلان کرتا ہوں کہ ہم زیر زمین
سازشوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں ہم دل کی دنیا کو تبدیل کریں گے اچھے اخلاق
و کردار ہی ہماری اصل قوت ہے کارکنوں کو کہا کہ تم سورج کی طرح کرنیں
بکھیرو چاند کی طرح روشی پھیلاؤ اور ستاروں کی طرح جگمگاؤ ۔پاکستان میں
مسئلہ آئین کا نہیں ،مسئلہ قیادت کا اور قیادت کی منافقت کا ہے ،لیکن حیرت
کی بات یہ ہے کہ جنھیں لوگ جھولیاں بھر کر بددعائیں دیتے ہیں انھیں جھولیاں
بھر کر ووٹ بھی دیتے ہیں ۔ان کی اس افتتاحی تقریر کے بعد پہلے دن کا
افتتاحی سیشنَ ختم ہوگیا پھر شام چھ بجے سے اجتماع ارکان تھا ۔ہم جب ٹرین
سے آرہے تھے ہمارے ساتھی جناب اقبال صاحب کی اہلیہ کا بار بار فون آرہا تھا
کہ یہاں خواتین میں ایک دن پہلے ہی جگہ کم پڑ گئی سارے انتظامات فیل ہو گئے
وہ ایک دن پہلے ہی اجتماع میں پہنچ گئی تھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ اب جو
خواتین آج یعنی جمعہ اکیس نومبر کو آرہی ہیں ان کے بیٹھنے کی بھی گنجائش
نہیں ہے خود میر گھر کی خواتین نے جو میرے بیٹے عبید کے ساتھ ایک دن پہلے
پہنچ چکی تھیں رش کی صورتحال دیکھ کر گھبرا گئیں پھر ایک قریبی ہوٹل میں
انتظام کرنا پڑا ۔ایک اندازے کے مطابق لیاقت بلوچ کہہ رہے تھے کہ پچاس ہزار
سے زائد خواتین اجتماع میں شریک ہیں ۔اب اس بحث میں پڑنا مناسب نہیں ہے کہ
جلسے میں شرکاء کی تعداد پانچ لاکھ تھی یا دس لاکھ ۔اصل نقشہ تو یہ تھا کہ
ہم جس راستے پر بھی چل رہے ہوں اس میں بھیڑ اتنی کہ ٹھیک سے پیدل اٹھا کہ
رکھنا مشکل نظر آرہا تھا ،ہزاروں کی تعداد میں اسٹالز تھے کسی اسٹال میں
چلے جاؤ تو وہاں بھی لوگوں کا رش اگر آپ رہائش گاہوں میں جائیں تو وہاں بھی
ایسا محسوس ہوتا کہ شاید پروگرام کا وقفہ ہوگیا ہے اسی لیے لوگ یہاں بھی
بیٹھے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن پروگرام چل رہا ہوتا کہ لاؤڈ اسپیکر کا اتنا
شاندار انتظام تھا کہ مینار پاکستان کے کسی بھی حصے میں ہوں پروگرام میں
ہونے والی تقریر سن سکتے ہیں ان سب مقامات سے گزرنے کے بعد جب اجتماع گاہ
میں پہنچے تو معلوم ہوا کے وہ بھی کھچاکھچ بھری ہوئی ہے ۔اسٹیج سے لاہور
اور قرب جوار سے آنے والے شرکاء سے کہا گیا کہ وہ اجتماع گاہ میں قیام نہ
کریں بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں اور صبح دوبارہ آجائیں سوائے ان
کارکنان کے جن کی ڈیوٹیاں لگی ہوئیں ہیں ۔پہلے دن کے کے پروگرام میں دوسرا
سیشن سات بجے شروع ہوا جب کہ دوسری طرف اجتماع ارکان بھی ہو رہا تھا اس
دوسرے سیشن کا نام پاکستان ہمارا ہے تھا اس میں نوجوانوں کے لیے پروگرام اس
عنوان سے ہو ا کہ ہم ہیں نوجوان ہم سے ہے پاکستان ۔ہوا جس میں یوتھ پنڈال
میں یوتھ ایکسپو طلبہ اور نوجوانوں کے لیے نمائش ہوئی دوسری طرف خواتین میں
اس عنوان پر خواتین رہنماؤں نے تقاریر کیں کہ اے ماؤں بہنوں بیٹیوں امت کی
آبرو تم سے ہے تیسرا سیشن رات نو بجے سے گیارہ بجے تک ہوا جس میں عوامی
مشاعرے کا پروگرام ہوا جمعیت الفلاح کے جنرل سکریٹری جناب مجاھد برکاتی اس
پروگرام کے ماڈریٹر تھے اس سے پہلے وہ کراچی میں ایک زبردست مشاعرے کا
پروگرام فاران کلب میں اسی اجتماع عام کے حوالے سے کرچکے تھے اس لیے مرکز
پاکستان نے اجتماع عام میں مشاعرے کے لیے برکاتی صاحب کی خصوصی خدمات حاصل
کیں اس مشاعرے میں مے ملک کے نامور شعرا حضرات نے اپنے کلام پیش کیے پہلے
دن سفر کی تھکان اتنی زیادہ تھی کہ شوق کے باوجود اس مشاعرے میں شرکت نہ ہو
سکی بہ حیثیت مجموعی یہ ایک بہت اچھا پروگرام تھا ۔اس طرح پہلے دن کا
پروگرام اختتام پذیر ہوا اور پھر بیشتر لوگ اپنی قیام گاہوں میں سونے چلے
گئے جب کے کچھ لوگوں نے اجتماع گاہ گھومنے اور اسٹالز سے خریداری کا شوق
بھی پورا کیا ۔مینار پاکستان اور اس کی یہ جگہ ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے
اس جگہ کی زمین بہت سے رازوں کی امین ہے اس لیے اے مینار پاکستان تم گواہ
رہنا کے جو لوگ بھی اس اجتماع میں شریک ہوئے ان کی کوئی ذاتی غرض یا مفاد
شامل نہیں تھا بلکہ یہ سب لوگ اس لیے اپنے جیب سے خرچ کر کے آئے کہ وہ اس
پاکستان کو اسلامی پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی کے لیے اپنی جان و مال
کے ساتھ دن رات جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں ،کہ اس ملک میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ
کی شریعت نافذہو۔ |
|