مسلم راشٹریہ منچ اور مسلم ووٹرس

25 نومبر سے جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ کی ریاستوں کی اسمبلیوں کے انتخابات شروع ہوگے۔ دونوں ریاستوں میں رائے دہی پانچ مرحلوں میں ہوگی اور نتائج کا اعلان 23؍ دسمبر کو ہوگا ۔ دہلی میں بھی ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے گوکہ ابھی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن سیاسی پارٹیوں نے دہلی میں بھی انتخابات کی تیاریاں انتخابی پروگرام کے اعلان سے قبل سے ہی شروع کردی ہیں

جموں و کشمیر، جھارکھنڈ اور دہلی کے انتخابات میں بی جے پی اپنی ساری توانائیاں اور قوت جھونک رہی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ آر ایس ایس اپنا سارا زور لگارہی ہے۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات ہوں یا مہاراشٹرا اور ہریانہ کی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی بی جے پی کی طرف سے دراصل آر ایس ایس نے ہی لڑے ہیں۔ بیرونی ممالک (خاص طور پر امریکہ میں) ہندتوا کے نظریات پر اٹوٹ ایقان رکھنے والے ہندتووادی آر ایس ایس اور آر ایس ایس خاندان کی رکن وشواہندو پریشد سے راست وابستہ ہیں ۔ جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں آر ایس ایس کے کارکن سرگرم عمل ہیں۔ جھارکھنڈ سے بہت زیادہ توجہ جموں و کشمیر پر دی جارہی ہے کیونکہ ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں برسر اقتدار آکر کسی ہندو کو ریاست کو وزیر اعلیٰ بنانا آر ایس ایس کی بہت پرانی تمنا بلکہ دیرینہ خواب ہے۔ جو پارٹی مسلمانوں کو اپنی طرف سے امیدوار بنانے کے لئے ٹکٹ دینے کی روادار نہیں ہے۔ جس کا ریاستوں کی کابینہ کے 151 وزیروں میں صرف ایک مسلمان وزیر ہو وہ بھلا انتخابات میں اپنی شاندار کامیابیوں کے دور میں ملک کی کسی ایک ریاست میں بھی مسلمان وزیر اعلیٰ بھلا کیسے اور کیونکر برداشت کرسکتی ہے۔ کشمیر میں توخیر 87حلقوں میں سے (64یا 66) حلقوں سے مسلمان رائے دہندگان کا غلبہ ہے ویسے یوں بھی ملک میں بی جے پی مسلمان رائے دہندوں کو نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ اس لئے آر ایس ایس نے مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے نام سے قائم کیا گیا ہے جموں و کشمیر (خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں) ایم آر ایم کے کارکن سرگرم عمل ہیں۔

یہ ایم آر ایم کیا ہے ؟ یہ ضمیر فروشوں بلکہ بکے ہوئے ملت فروشوں ، موقع پرستوں ، چاپلوسی کرنے والے مفاد پرستوں (جوکہ تاریخ کے مشہور غداروں میر جعفر اور میر صادق سے بھی بدتر ہیں)۔ کا ایک چھوٹاسا گروہ ہے لیکن بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ جموں و کشمیر کے علاوہ ایم آر ایم کے غدرانِ ملت سے دہلی کے مسلم علاقوں میں بھی کام لیا جارہا ہے۔

جموں و کشمیر ، دہلی اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں سے گذارش ہے کہ بی جے پی کے حق میں آپ سے اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کی اپیل کرنے والوں کو (خواہ داڑھی پگڑی دستار یا لباس سے مولوی، مولانا، مرشد اور ذاکر کیوں نہ نظر آئیں) قطعی منہ نہ لگائیں بلکہ ان کو بری طرح دھتکاردیں۔ یہ لاکھ کہیں کہ ’’بی جے پی مسلمانوں کی دشمن نہیں ہے۔ کانگریس اور سیکولر پارٹیاں ہی مسلمانوں سے دشمنی کرتی رہی ہیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک بنارکھا تھا اور مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ایم آر ایم کی ٹیم میں مسلمان با مسلم نام کی مسلمان نظر آنے والی برقع و حجاب میں خواتین بھی ہیں جو اپنی چرپ زبانی سے مسلمان خواتین کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں گی۔ ان کو ناکام بنانا ہے۔

جھوٹے وعدوں اور چرپ زبانی سے مودی کو عوا م کو دھوکا دے کر ووٹ لینا آتا ہے۔ امت شاہ اتنا بڑا سازشی اور مکار ہے وہ بی جے پی سے برگشتہ ووٹرس کو مذہب، مسلک، ذات پات کی بنیاد پر بری طرح تقسیم کرکے جملہ ووٹرس کے صرف 32 فیصد سے بھی کم ووٹ لے کر اکثریت حاصل کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ ہر حلقہ میں کسی ایک مخالف بی جے پی امیدوار کو ووٹ دیں۔ ایم آر ایم والے آر ایس ایس کی حکمت عملی اور ایجنڈہ کے خلاف مسلمانوں کو غلط باتیں وثوق سے کہہ کر گمراہ کریں گے۔ مثلاً گجرات فسادات 2002ء میں مودی کی بے گناہی تو عدالت (عظمیٰ ،سپریم کورٹ) نے تک تسلیم کرلیا ہے۔ گجرات فسادات میں مودی بے قصور ہیں۔ اسی لئے انہیں مسلمانوں سے معافی نہیں مانگی۔ بی جے پی کشمیر کے لئے دفعہ 370 اور مسلم پرسنل کی قطعی مخالف نہیں ہے۔ وہ ان کو باقی رکھے گی۔ بابری مسجد کی جگہ وہ رام مندر کی تعمیر وہ عدالت حکم کے بغیر زبردستی ہر گز نہیں کرے گی۔ جھوٹ، فریب دھوکا بی جے پی کا طرہ امتیاز ہے۔ مودی نے اپنی بیوی کے بارے میں جھوٹے حلف نامے تک داخل کئے ہیں۔ ان کے وزرأ سمرتی ایرانی اور ؍ کرشن کٹھیریا نے تعلیمی قابلیت کے بارے میں جھوٹے حلف نامے داخل کئے۔ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت سے قبل بابری مسجد کی حفاظت اور دیگر باتوں کے تعلق سے سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ کی خلاف ورزی کی تھی اور سزا پائی تھی۔ اس لئے بی جے پی کے وعدوں پر یقین تو گجا ان کو سننے کی بھی زحمت نہ کریں۔

آر ایس ایس جانتی ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں مودی نے جو وعدے کئے تھے اب ان پر یقین کرکے رائے دہندے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا میں اس کی کامیابی مخالف حکومت رجحان اور کانگریس سے عمومی بیزاری کے سبب ہوئی ہے لیکن جموں و کشمیر، جھارکھنڈ اور دہلی میں بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ متبادل موجود ہیں۔ جموں اور کشمیر میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے متبادل موجود ہیں اس لئے جموں و کشمیر میں بی جے پی کو مخالف حکومت رجحان کا فائدہ بی جے پی کو نہیں ہوگا۔

بی جے پی کی کامیابی میں مخالف بی جے پی ووٹس کی تقسیم کا بھی خاصہ دخل رہا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں خوش فہمی کا شکار ہوکر اپنی کامیابی کا یقین رکھنے والی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کی کمی ہے نہ ہی فروخت ہونے والی چھوٹی چھوٹی مسلمان پارٹیوں اور معاوضہ لے کر بہ حیثیت آزاد امیدوار انتخابات لڑکر مسلمان ووٹس کی تقسیم کروانے افراد کی کمی ہے۔ بی جے پی کو پیسہ خرچ کرکے جعلی امیدواروں بلکہ پارٹیوں کی خدمت حاصل کرنا آتا ہے۔ تو دوسری طرف اقتدار میں جزوی شراکت کی ترغیب سے چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کرنا بھی خوب آتا ہے۔ جموں و کشمیر میں بھی ایسی پارٹیاں ہیں جن میں اہم سجادلون کی پیپلز کانفرنس ہے جنہوں نے حال ہی میں آر ایس ایس کے سابق ترجمان رام مادھو (جواب بی جے پی کے اہم عہدیدار ہیں) اور مرکزی وزیر جے بی نندہ سے ملاقاتوں کے بعد مودی سے ملاقات کی اور نہ صرف مودی کی قصیدہ گوئی کی بلکہ انتخابات کے بعد بی جے پی سے تعاون یا اپنی غداری کا اعلان کیا ہے بلکہ اپنے شہید باپ عبدالغنی لون( جو ممتاز حریت پسند قائد تھے) کے نام کو داغ لگا۔ سجاد لون کی چھوٹی سی پارٹی کپواڑہ اور ہنڈوواڑہ میں بارہ نشستوں پر مقابلہ کررہی ہے ۔ ان کو اور بی جے پی کی علانیہ یا خفیہ مددکرنے والی چھوٹی پارٹیوں کو اور آزاد امیدواروں کو پرانا کشمیر یوں کا پہلا فرض ہے کہ ان کو ووٹ نہ دیں کیونکہ مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم کروانا ہی ان کا کام ہے جو دراصل بڑی غداری ہے۔

ایم آر ایم مسلمانوں کی دوست نہیں ہے بلکہ دوست نما دشمن ہیں۔ یہ ایسے ملت فروش ہیں جو سنگھ پریوار کے قائدین کی چھوکھٹ پر ناک رگڑ سکتے ہیں اور ان ہی کے ذریعہ کل دفعہ 370 کی منسوخی اور ہر لحاظ سے کشمیر کا تشخص ختم کرنے کی بات ہوگی۔ بی جے پی کے حق میں مسلمانوں کو ہموار کرنے کی کوشش کرنے والی یہ ٹولی مسلمانوں کا ایک مطالبہ بھی بی جے پی سے نہیں منواسکتی ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ بی جے پی کشمیرمیوں پر مزید مظالم کیلئے قانون سازی کرے اور ’’افسپا ‘‘سے بھی بدتر قوانین کشمیر اسمبلی سے پاس کروائیے گی۔ ایم آر ایم میں خود کو مسلمان ظاہر کرکے بات کرنے کی اہلیت رکھنے والے سینکڑوں غیر مسلم ہیں جنہوں نے مسلمان نام رکھے ہوئے ہیں یا شاہنواز اور نقوی کی طرح کے مسلمان ہیں جن کی بیویاں اور بچے ہندو ہیں۔ ان کو قریب نہ آنے دینا اور مسلم راشٹریہ منچ کے وجود اور قیام کو ناکام بنانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.