تیل کی قیمتوں میں کمی کے معیشت پر اثرات

پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے اثرات نظر آرہے ہیں اور عوام کو کچھ حد تک ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے ۔محکمہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق نومبر میں پاکستان کی سالانہ افراط زر کی شرح 3.96 فیصد پر آگئی جو کہ اکتوبر میں 5.82 فیصد تھی۔آزاد تجزیہ نگاروں کے مطابق دس سال کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح چار فیصد سے نیچے آئی ہے۔ ان کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں کمی ماہ دسمبر میں مہنگائی کی شرح کو مزید کم کرسکتی ہے۔مہنگائی کی شرح نیچے آنے کی وجہ پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہے جس کے باعث ٹرانسپورٹ اور اشیاء استعمال کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوئے۔ اب پھر دسمبر میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)نے بجلی کی قیمت میں مزید 47 پیسے فی یونٹ کمی کی خوشخبری سنائی ہے۔ وزارت پٹرولیم کے ذرائع کے مطابق یکم دسمبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 9روپے فی لیٹر تک مزید کمی کی جائے گی۔گزشتہ ماہ بھی حکومت نے پٹرول9 روپے 43پیسے جبکہ ڈیزل 6 روپ8پیسے18 فی لیٹر سستا کیا تھا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اثر دوسری اشیائے ضرورت پر بھی پڑا ہے اور ان میں کمی کا رجحان دیکھا گیاہے۔گاڑیوں کے کرائے کم ہوئے ہیں اور مسافروں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ ڈیزل سستا ہونے سے تھرمل بجلی کے پیداواری اخراجات بھی کم ہوئے ہیں جس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پٹرول کی قیمتوں میں جب اضافہ ہوتا ہے تو باربرداری کے اخراجات بڑھ جانے سے ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ جس کا بوجھ عام لوگوں پر پڑتا ہے۔ پٹرول،ڈیزل سستا ملتا ہے تو عوام کو سستی سفری سہولیات کے ساتھ دوسری اشیائے صرف بھی سستی ملتی ہیں۔ماضی میں بھی تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے لیکن اس کے فوائد کبھی عوام تک منتقل نہیں کیے گئے ۔یہ بڑی خوش کن بات ہے کہ حکومت اقتصادی اقدامات کے ذریعے ملکی معیشت کے فروغ کے لیے خلوص نیت سے مصروف عمل ہے۔ حکومت ٹیکس دہندگاں کو بھی ہر طرح کی سہو لت و عزت دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا ہے ۔بہتری کی جانب گامزن معیشت کو سازشی دھرنوں کے ذریعے بگاڑنے کی کوشش نہ کی جاتی تو ملک کو اربوں کا جو نقصان ہوا ہے اس رقم سے بھی عوام کو مزید ریلیف مل سکتا تھا۔وزیراعظم نوازشریف کہہ چکے ہیں کہ ملک معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن دھرنوں اور احتجاجی جلسے جلوسوں نے ترقی کے عمل کی رفتار سست کر دی ہے ۔عوام کو اوور بلنگ کی جوشکایت ہے اس کا جائزہ لینے کے لیے آڈٹ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔ ایک فرم نے اپنی ابتدائی رپورٹوں میں کہا ہے کہ بجلی کے بلوں میں مجموعی طور پر 31 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ 22 فی صد ٹیرف اور 9 فی صد بجلی کی کھپت میں اضافہ کے باعث اضافہ ہواہے۔سیکریٹری واٹر اینڈ پاور نے تجویز دی ہے کہ وہ صارفین جو 300 سے500 ماہانہ یونٹ صرف کرتے ہیں۔ انہیں 22 ملین روپے سبسڈی دی جائے۔وزیراعظم نے اس سلسلے میں متاثرین کو فوری ریلیف دینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی ہے جس نے اپنا کام شروع کر دیاہے۔ اووبلنگ کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے ایسے میٹر لگائے ہیں جو بہت تیز چلتے ہیں جن سے بجلی کے بل زیادہ آتے ہیں ۔یہ معاملہ پاور کمپنیوں کے ساتھ اٹھایا گیاہے ، جس کے بارے میں مبینہ طور پر وہ پہلے آگاہ نہیں تھیں ۔وفاقی حکومت کا یہ موقف ہے کہ تخفیف غربت،بہتر معیار زندگی،اچھے منصوبوں ،ڈیموں اور نئی موٹر ویز کی تعمیر مضبوط معیشت کی مرہوں منت ہیں۔ا گر کسی حکومت کی کارکردگی پر کھنا ہوتو اسے پانچ سال کی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔اگر موجودہ حکومت کے سامنے غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں تو وہ بہتر پاکستان کی تعمیر کے لیے د لجمعی سے کام کرے گی اور آئندہ جو بھی حکومت بنے گی، اسے ایسا پاکستان ملے گا جس کی معاشی بنیادیں مستحکم ہو چکی ہو گی۔ اگرملک اس طرح اندونی خلفشار کا شکار رہا تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کی کوششوں کابھی آغاز کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی گیس کے بقول تیل وگیس کے 37 نئے کنوئیں دریافت ہوئے ہیں۔ پٹرولیم پالیسی 2010 پر عمل درآمد کر تے ہوئے تیل و گیس کی تلاش کے 44 نئے سمجھوتے کیے گئے ۔گزشتہ سال تیل و گیس کی تلاش کے لیے 137 نئے کنوئیں کھودے گئے جبکہ پچھلی حکومت کے پانچ سالہ دور میں 370 کنویں کھودے گئے تھے۔حکومتی کوششوں کے باعث تیل کی یومیہ پیداوار 98980 بیرل تک پہنچ چکی ہے ۔جو ملک کی تاریخ کی سب سے زیادہ پیداوار ہے۔سوئی سدرن گیس کمپنی کا 400 ملین کیو بک فٹ یومیہ پیداواری صلاحیت کا قدرتی مائع گیس کا پلانٹ لگانا ایک اوربڑی کامیابی ہے۔یہ آئندہ سال فروری تک کام کرنا شروع کر دے گا۔یہ ایل ایف جی ٹرمینل انٹیگریٹڈپاور پاور پروٹیکشن سسٹم(IPPS)کو مائع قدرتی گیس( LNG)فراہم کرے گا۔جس سے2500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی گیس چوری کی روک تھام کا قانون بھی وضع کیا گیا ہے۔جس سے گیس کی بچت میں مدد ملے گی اور آمدن بڑھے گی۔ وزارت پانی وبجلی نے زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی تین روپے 65پیسے فی یونٹ سستی کردی ہے۔ کسانوں کو زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی 10روپے 35پیسے یونٹ ملے گی۔اس سے قبل زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی کی قیمت 14روپے فی یونٹ تھی۔ کسانوں کو بجلی سستی ملنے سے ان کی پیداوار ی لاگت میں کمی آئے گی ۔ جس کا لامحالہ اثر اشیائے صرف کی قیمتوں پر بھی پڑے گا۔ یہ تمام اقدامات حکومت نے عوام تک ریلیف پہنچانے کے لئے اٹھائے ہیں۔ حکومت شاہرات کی تعمیر میں بھی سنجیدہ ہے۔ اندازہ کریں کہ جب عوام کو سستی سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ بہترین شاہرات دستیاب ہوں گی تو ترقی کا کیا عالم ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو یکسوئی سے کام کرنے دیا جائے تاکہ تمام اقدامات عوام کے لئے ثمرآور ثابت ہوسکیں۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ ریلیف یقینی بنانے کے لئے مانیٹرنگ کا نظام بھی بنائے تاکہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ اور بدعنوانی کا تدارک فوری طور پر کیا جاسکے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.