مشرق وسطی پراجارہ داری تھنک ٹینکس ادارے امریکا کا اصل ہتھیار ہے

امریکاکے تحقیقاتی ادارے اورتھنک ٹینکس اسلامی دنیا بالخصوص مشر ق وسطی کانقشہ بدلنے کے لیے پوری سرگرمی کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ مصری صحافیوںاورماہرین کی ایک ٹیم نے امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹوںپر تحقیق کرتے ہوئے کہاہے کہ امریکی اوریہودی تھنک ٹینکس اسلامی ملکوںمیں اپنی مرضی کی سیاسی وجغرافیائی تبدیلیاں لانے کے لیے امریکی فیصلہ سازوںکے خطرناک ہتھیار ہیں۔مشر ق وسطی اورشمالی افریقاسمیت دنیاکے دیگر اسلامی ممالک میں حالیہ جاری حالات امریکی تھنک ٹینکس کی من گھرٹ رپورٹوںکانتیجہ ہے۔ تھنک ٹینکس ماہرین کو” خیالات اورافکار کے بروکرز “کہاجاتاہے ۔

مصرکی عربی ویب سائٹ المحیط کی رپورٹ کے مطابق تیسری دنیا بالخصوص اسلامی ملکوںسے متعلق امریکی فیصلوںپرامریکی تھنک ٹینکس کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ان کی بنائی ہوئی رپورٹوں کی روشنی میں امریکی پالیسی ساز منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ان اداروںمیں تعینات سیاسی وسفارتی ماہرین کی ٹیمیںشب وروزبیٹھ کر دنیاکے مختلف ممالک کے سیاسی حالات اورعوامی نظریات ورجحانات سے متعلق تجزئے اورتخمینے لگاکررپورٹیں تیارکرتے ہیں اورپرانہیں فیصلہ سازوں کے سپردکردیاجاتاہے۔اس بنا پرعالمی سطح پرموجود بڑی قوتوں کے فیصلہ سازوں کے تھنک ٹینکس کی رپورٹیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیابھر میں امریکی سرپرستی میں ہونے والے کسی بھی کارروائی سے قبل امریکی ماہرین کی رپورٹیں ضرورشائع کی جاتی ہیں۔سیاسی پالیسیاں بنانے کے پیش نظر تھنک ٹینکس کے معیاری مراکز ہر خودمختار ملک وقوم کے لیے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔اس ضرورت کومحسوس کرتے ہوئے امریکا اس میدان میں سب سے آگے ہے جبکہ اس کے بعد یورپی ہے ۔رپورٹ کے مطابق دنیابھرمیں اس وقت یورپی اورامریکی تھنک ٹینکس کے 1750مراکز قائم ہیںان میں 80فیصد امریکی ہیں اورباقی یورپی ملکوں کے ہیں۔عالمی سطح پرمعتبرسمجھے والے 6 بڑے تھنک ٹینکس بھی امریکاہی کے ہیں۔کارنیگی اینڈومنٹ،دی سنٹر فارامریکن پروگریس،رانڈ،ہیرٹیج فاونڈیشن ،بروکنگزانسٹی ٹیوشن اورواشنگٹن انسٹیٹیوٹ شامل ہیں۔بین الاقوامی سیاسیات کے مصری ماہر ڈاکٹرسعید الاوندی کاکہناہے کہ مشرق وسطی میں امریکی پالیسی کوکامیاب بنانے کے لیے امریکی ادارہ کارنیگی کوسالانہ ڈیڑ ارب ڈالرزدیتاہے۔عرب دنیا میںسیاسی بے چینی،عدم استقراراورامن وامان کی کشیدہ صورتحال کے پیچے کارنیگی سے وابستہ نام نہادماہرین کی رپورٹیں ہیں۔کارنیگی عرب ملکوں کے درمیان کشمکش کاسبب بننے والی رپورٹیں شائع کرتاہے اس سے مشر ق وسطی کے امورمیں امریکی مداخلت کی راہیں کھلتی ہیں جبکہ ان ملکوں کے باشندے ذہنی انتشارکاشکارہوجاتے ہیں ۔کارنیگی1910ءمیں وجود میں آیاہے ۔اس وقت سے اب تک مشر ق وسطی میںرونما ہونے والی جغرافیائی اورسیاسی تبدیلیوںمیںاس کی رپورٹیں کسی نہ کسی طرح اثراندازرہی ہیں۔المحیط کے مطابق کارنیگی ایسی رپورٹیں تیار کراتاہے کہ جومشرق وسطی میں جغرافیائی تبدیلیوں کی بنیادبن سکیں۔کارنیگی کی سرگرمیوں کی نگرانی وسرپرستی خفیہ امریکی ادارہ سی آئی اے کرتاہے۔کارنیگی کے تمام تر اخراجات امریکی حکومت برداشت کرتی ہے جسے امریکی صدرکے خصوصی دستخط سے جاری کردئے جاتے ہیں اس کے علاوہ امریکاکے متمول یہودی اداروں کی جانب سے اسے باری رقوم دی جاتی ہیں۔کارنیگی کی من گھڑت رپورٹوںکے ذریعے امریکی فیصلہ سازوںنے 1942ءمیں یہودیوںکو فلسطینی سرزمین پربسنے کااستحقاق دلایاتھا۔ اس کے علاوہ مشرق وسطی کے عرب ملکوں کے درمیان اختلافات اورسیاسی کشمکش میں اس ادارے کی متعددرپورٹیںسبب بنی ہیں۔ عالم اسلام سے متعلق امریکاکارانڈ کارپوریشن بھی گزشتہ نصف صدی سے فعال ہے ۔امریکی ریاست کالیفورنیامیں واقع رانڈ کارپوریشن کو 1946ءمیں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی وزارت دفاع نے بنایاہے اس کی بنیادی ذمہ داری نئے وجودمیں آنے والے اسلامی ملکوںخاص طورپر خلاف عثمانیہ کے سقوط کے بعدمشرق وسطی کی نئی حکومتوںاورعوامی سطح پر پیداہونے والے تاثرات اورعوامی وحکومتی سرگرمیوںسے متعلق رپورٹیں بناکر امریکی محکمہ دفاع کے فیصلہ سازوںکوپیش کرناہے۔ رانڈ کارپوریشن میں اس وقت 1600،اعلی تعلیم یافتہ اورتجربہ کار ماہرین تعینات ہیں۔ 1999ءکے بعدکارنیگی کی طرح رانڈکارپوریشن کی بھی تمام ترتوجہ مشرق وسطی کے عرب ملکوںپرمرکوزہے۔رانڈکو سی آئی اے کے ساتھ امریکاکے فیڈرل تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی بی سرپرستی حاصل ہے۔ رانڈ کارپوریشن مشر ق وسطی کی اسلام پسند تنظیموں کو کیٹگریوںمیں تقسیم کرنااوران پر تجزیاتی رپورٹیں تیارکراناہے۔ مشر ق وسطی کی اسلام پسندتنظیموں پر پابندی لگانے اوربعض تنظیموں کااعتماد حاصل کرنے کے لیے امریکی کانگریس اورپالیسی سازوں کے فیصلوںمیں اس ادارے کے نمایاں اثرات ہوتے ہیں۔کارنیگی کی طرح رانڈ کارپوریشن بھی امریکی محکمہ دفاع سے سالانہ 159ملین ڈالرز وصولتاہے۔مشر ق وسطی سے باہر بھی رانڈ کارپوریشن فعال ہے۔نائن الیون کے بعدعالمی سطح پرامریکی متعدداسلامی تنظیموں پر امریکی پابندی رانڈکارپوریشن کی رپورٹوں کی روشنی میں لگی ہے۔

مشرق وسطی کی ماہرتجزیہ کار، امیمہ عبداللطیف کے مطابق اسلامی تنظیموں سے متعلق معلومات کے لیے رانڈ کارپوریشن کی سرگرمیوںکادائرہ اب مشر ق ،جنوب مشرقی ایشیااورخلیجی ملکوں سے نکل کردیگر اسلامی ملکوں تک پھیل گیاہے۔المحیط کے مطابق کارنیگی اوررانڈ کارپوریشن کے بعدایک امریکی تھنک ٹینک” واشنگٹن انسٹیٹیوٹ“کانام آتاہے۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ اسرائیل اورعرب ملکوں کے درمیان تعلقات اوراختلافات کی نوعیت پرنظررکھنے اورعرب حکومتوں کو اسرائیل سے قریب لانے کی مہم پرکام کررہاہے ۔عرب اوراسرائیل کوقریب لانے کے لئے واشنگٹن انسٹیٹیوٹ نے مختلف مواقع پرپروگرامات منعقد کرائے ہیںجبکہ اس حوالے سے اس کی رپورٹیں وقتاًفوقتاً عرب اورامریکی میڈیاپرشائع ہوتی رہتی ہیں۔واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کو 1985ءمیں امریکا،اسرائیل تعلقاتی کمیٹی نے تشکیل دیاہے ۔امریکی حکومت کے علاوہ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کوامریکاکی یہودی لابی سالانہ کروڑوںڈالرزدیتی ہے۔واضح رہے کہ ”تھنک ٹینک“ماہرین کی اصطلاح میںاس تحقیقی وتصنیفی ادارے کوکہاجاتاہے جوعوامی پالیسی کے متعلق تحقیق ،تجزیہ اورمشورہ کام کام کرتاہے۔یہ ایک آزاداوربغیرفائدے کے چلنے والاادارہ ہوتاہے یہ اپنی تحقیقات اورمشوروں کے ذریعہ پالیسی سازی کے عمل کومتاثرکرتاہے۔

مشرق وسطی کے تحقیقاتی ادارے ”مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ برائے تحقیقات “سے وابستہ بین الاقوامی سیاسیات کے ماہرڈاکٹرطارق فہمی کے مطابق امریکاکسی بھی تحقیقاتی مرکزکوآزادانہ کام کرنانہیں دیتا۔امریکااوریورپ کے تمام تھنک ٹینکس اداروں کایہ دعوی محض دھوکہ ہے کہ وہ کسی سیاسی ونظریاتی وابستگی کے بغیرکام کرتے ہیں ۔امریکا کے تمام تحقیقی تھنک ٹینکس اداروں میں ملٹری ،حکومت اورسفارت کے اہم عہدوںسے ریٹائرڈافرادکوبٹھایاگیاہے۔

مصری انشورڈاکٹرطارق فہمی کے مطابق امریکی تھنک ٹینکس کے نام پربننے والے ان مراکز میں ہزاروںدانشور اسلام اورمسلمان ممالک کے خلاف سرگرم ہیں۔امریکی اوریہودی لابی عالم اسلام کے خلاف اس مہم کی سربراہی کررہی ہے۔یہ مراکزاسلام اورمسلمانوں سے متعلق جھوٹے موادپرمشتمل رپورٹیں بناتے ہیں امریکی اوریورپی اخبارات اورٹی وی اس پروپیگنڈے میں شامل ہیں۔ان اسلام دشمن ماہرین کوقدامت پسندامریکیوں اوریہودیوں سے کروڑوں ڈالر ملتے ہیں۔یہ اسلام کے خلاف ویڈیوز،دستاویزی فلمیں اورنشریاتی رپورٹیں بناکر دنیابھرمیں مسلمانوں کاامیج خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینک اوراس طرح کے تحقیقی اداروںکی اہمیت ہرملک اورادارے کے لئے مسلم ہوتی ہے تاکہ مستقبل کے لیے پالیسی سازی میں کام آئے تاہم امریکی ادارے اسلامی ممالک میں اپنے مفادات کوتحفظ دینے کی غرض سے ایسے کسی مرکز کو کامیاب بنانے نہیں دیتے۔امریکی مفادات کے علاوہ ان تھنک ٹینکس مراکزسے وابستہ عیار دانشوراورسامراجی میڈیاکی کمرشل سوچ بھی ہے کیونکہ کسی اسلامی تھنک ٹینکس ادارے کی کامیابی سے کی مارکیٹ پربرااثر پڑسکتاہے۔ مشر ق وسطی سے متعلق سیاسی امورکے فلسطینی ماہراحمددلول کے مطابق اسلامی ممالک کو ایسے مراکز کافقدان ہے اورجوگنے چنے ہیں ان کی سروے رپورٹیں بین الاقوامی معیار کی نہیں ہوتیں۔

رپورٹ کے مطابق اسلامی دنیا میں مصرمیں 1968ءسے” الاہرام فاراسٹرٹیجک اسٹڈیز“قائم ہے۔ یہ اسرائیلی وسعت پسندانہ عزائم سے متعلق معلوماتی رپورٹیں بناکر مصری فوج اورپالیسی سازوںکو پیش کرتاہے اورعرب دنیامیں اسے عوام کے سامنے پیش کرتاہے ۔مرکز کی ذمہ داری عالم اسلام کو صہیونی منصوبوں سے متعلق آگاہی اورذہن سازی کرناتھی۔عرب دنیا بالخصوص مصری دانشوروںاوربین الاقوامی تعلقات اورسیاسیات کے ماہرین کے سبب اس مرکزسے کافی معیاری رپورٹیں شائع ہوئی ہیں تاہم مصری جرنیلوںاورفوجی اسٹیبشلمنٹ کی اسرائیل دوستی اورذاتی مفادات کے زدمیں آکر یہ تھنک ٹینکس اب صرف مصری فوج کی خوشامد میں مصروف ہے۔قطرمیںبھی 2006ءمیں ”الجزیرہ فاراسٹڈی“کے نام سے ایک تھنک ٹینکس قائم کیاگیاہے یہ کافی فعال ہے تاہم اب تک بین الاقوامی سطح پرکام کرنے کے لیے موزوں نہیں۔اس کے علاوہ مشرق وسطی اورخلیج میں ”مرکزراقب“، ”مرکزنخبہ الفکر“،”عرب ریلیشن فورم“،” مسبار فاراسٹڈیزاینڈریسرچ “اورتیونس کا” موسسہ زیتونہ “کے نام سے کئی تھنک ٹینکس کام قائم ہیں۔رپورٹ کے مطابق اسلامی ملکوں میںتھنک ٹینکس کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست اسلامی ممالک کے حکومتی اداروںکی غفلت ،دانشوروںاورمفکروں کا الگ الگ زاویہ نظر،گروہی وفرقہ وارانہ نفرتیںاورسب سے اہم سیکولرازم اوراسلامائیزیشن کی کشمکش ہے ۔عرب واسلامی دنیا کے سیکولراوراسلام پسند دانشور الگ الگ حلقوںمیں بٹ چکے ہیں۔عرب ملکوںکی بادشاہتوںکی سلامتی اوربقاءکے تقاضے بھی ایسے اداروں کی آزادنہ تحقیقاتی رپورٹیں شائع کرانے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ المحیط کے مطابق ڈاکٹرسعید الاوندی نے بتایاکہ عالم اسلام کے داخلی عوامل کے علاوہ اس میدان میں مسلم ممالک کو پیچھے رکھنے کی امریکی اوریہودی لابی کی کوششیں بھی کارفرماہیں۔متحدہ عرب امارات میں قائم ہونے والے ایک اہم تھنک ٹینکس”شیخ زویدانسٹیٹیوٹ“ کونائن الیون کے بعد امریکی سفارت خانے نے اس وقت زبردستی بندکرادیاتھا۔جب انسٹیٹیوٹ نے عرب اورفرانسیسی ماہرین کی ایک رپورٹ میں دلائل کے ذریعے نائن الیون کے واقعہ میں امریکی سی آئی اے کوملوث قراردیاتھا۔شیخ زوید انسٹیٹیوٹ کوبین الاقوامی معیارکے ماہرین کی خدمات حاصل تھیں۔ماہرین کی ٹیم اوردولت کی فراوانی کے سبب اس کی کامیابی کی توقعات زیادہ تھیں تاہم امریکانے متحدہ عرب امارات میںاپنے سفیر کے ذریعے فوری طورپراس تھنک ٹینک کو منتشر کرادیا۔رپورٹ کے مطابق امریکی تھنک ٹینکس ادارے اسلامی ممالک کے دانشوروں اور ہر شعبے کے کامیاب اورباصلاحیت افراد کو مال اورمراعات کا لالچ دے کرحاصل کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق امریکاکے تھنک ٹینکس ادارے بیٹھے بٹھائے مال کمانے کاموثرذریعہ بن چکاہے۔ان کی ایک ایک رپورٹ اربوںاورکھربوںمیں بکتی ہے۔عرب جریدے ”مصرالعربیہ“ نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے لکھاہے کہ امریکی تھنک ٹینکس ادارے بیک وقت کئی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ایک طرف یہ امریکی سلامتی کے لیے تحقیقاتی رپورٹیں بناتی ہیںاوراس کے عوض بھاری رقوم لیتی ہیں دوسری جانب اسلامی اورعرب ملکوں سے وعدے کرکے بھاری رقوم اینٹتی ہیں کہ وہ امریکی انتظامیہ اورپالیسی سازوںکی نظرمیں ان کاامیج بہتر بنانے میں کرداراداکریں گے۔اسی لالچ میں آکرعرب دنیا کی دولت مند حکومتیں امریکی انتظامیہ اورعالمی سطح پر خودکو بہترثابت کرانے کے لیے ان تھنک ٹینکس کو بھاری دولت دیتے ہیں۔جریدے کے مطابق رواں برس امریکی تھنک ٹینکس کی خدمات لینی والے عرب ملکوںمیںقطر،متحدہ عرب امارات اورمصرسرفہرست ہیں۔الاخوان المسلمون کے منتخب صدرمحمدمرسی کے خلاف مصری فوج نے امریکی تھنک ٹینکس کو بھاری رقوم دی تھیں۔امریکااوریورپ میں سفارت ،ملٹری اورحکومت کے اہم عہدوں سے ریٹائرڈ ہونے افرادکی نظرمیں تھنک ٹینکس ادارے کمائی کابہترین ذریعہ ہیں۔سروے رپورٹوں کی تیاری میں انہیںمختلف ملکوںکی سیرکے ساتھ ساتھ روپیہ پیسہ بھی ملتاہے اورمفت میںوی آئی پی سیکورٹی سمیت اثرورسوخ کامزہ بھی لینے کومل جاتاہے۔رپورٹ کے مطابق اپنی قومی سلامتی اورخارجی دفاع کے لئے اکثر اسلامی ممالک امریکی اداروں اورماہرین کی خدمات لینے پرمجبورہوتے ہیں۔جو ان سے بھاری اخراجات کی وصولی کے ساتھ انہیں ایسی رپورٹیں جاری کرتے ہیں جو ان کے لیے مزید نقصانا ت اورخسارے کاسبب بن جاتی ہیں ۔
علی ہلال
About the Author: علی ہلال Read More Articles by علی ہلال : 20 Articles with 16674 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.