شام کے سابق صدرحافظ الاسد نے
اپنے اقتدارکے لیے خطرہ بننے والے علماءکرام اور سیاسی کارکنوںکو بے دردی
کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے ایڈولف ہٹلر کے بدنام زمانہ قاتل
اسکواڈ(ایس ایس )کے سفاک افسر کی خدمات لی تھیں۔نازی مجرم نے شام کے حکمران
نصیری فرقے کے ساتھ نظریاتی اورسیاسی اختلافات رکھنے والے ہزاروں
علماءاورسیاستدانوں کومنظرسے ہٹانے کے لیے بھاری رقوم خرچ کرکے نازی دور کے
ایک سفاک اوربے رحم افسر” الویز برونر“کوشام لایاتھا۔ عرب ویب سائٹ وطن
نیوز کے مطابق مشرق وسطی کے لیے جرمن انٹیلی جنس کے ذمہ دار نے اعتراف
کرلیاہے کہ ایڈولف ہٹلر کے قاتل اسکواڈایس ایس کے اہم افسر الویز برونرنے
اپنی زندگی کے آخری ایام شام میں گزارے ہیں اورمرنے کے بعداسے دارالحکومت
دمشق میں ہی دفن کیاگیاہے۔اسرائیلی جریدے بدیعوت احرونوت نے اپنی رپورٹ میں
جرمن انٹیلی جنس کے حوالے سے کہاہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعدنازی فوج کے
دیگر افسران کی طرح الویز برونرکانام بھی مطلوب ترین جنگی مجرموںکے بلیک
لسٹ میںشامل کیاگیاتھا۔اس کی گرفتارکرکے کچھ عرصے تک امریکی اوربرطانوی
عسکری مراکز میں رکھاگیاتھا۔شاطر دماغ نازی افسر تحقیق کاروںکو چکمہ دے کر
خود کو الویز برونرکے بجائے ایک بے گناہ اورعام آدمی ظاہرکرنے میں کامیاب
ہوکر رہائی پالی اوروہاںجرمنی سے دوسرے یورپی ملک آسٹریاچلاگیا۔آسٹریامیں
ایک سفارتی دوست کے تعاون سے شناخت اورسفرکے جعلی دستاویزات بنواکر وہ
مصربھاگ گیا۔مصرمیں الویز برونرنے فلسطینی مفتی اعظم الحاج امین الحسینی سے
ملاقات کی ۔فلسطینی سرزمین پر یہودیوںکے شروع ہونے والی قبضہ تحریک کے باعث
فلسطینی مفتی اعظم کی یہود دشمنی کافائدہ اٹھاتے ہوئے الویز برونرنے ان سے
پناہ دینے کی درخواست کی۔60کی دہائی میںمفتی امین الحسینی نے اسے شام میں
اپنے کچھ معتمدساتھیوں کے پاس بھیج دیاجہاں اسے پناہ دی گئی ۔شام میں رہتے
ہوئے الویز برونرنے خودکو جرمن تاجر کی حیثیت سے متعارف کرادیااوراس بہانے
جرمنی کے سفارت کاروںسے تعلقات استوارکرلئے۔1960ءمیں شامی پولیس نے الویز
برونرکومنشیات فروشی کے الزام میں گرفتارکرلیاتاہم ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ
گرفتاری اس کی ایک چال تھی جو اس نے اس وقت شامی وزیردفاع اورمسلح افواج کے
کمانڈرزانچیف حافظ الاسد تک رسائی کے لیے چلی تھی۔نازیوںکے قاتل دستے ایس
ایس کے انتہائی اہم عہدیدارہونے کے باعث اسرائیلی ایجنسی موساد مسلسل الویز
برونرکی تلاش میں تھی۔ الویز برونرکوحکومتی سرپرستی کی ضرورت تھی ۔ الویز
برونرکومعلوم ہوا تھا کہ شامی اقتدارپرقبضے کے لیے حافظ الاسد اپنے
وفاداروںپرمشتمل ایک تربیت یافتہ اوراعلی صلاحیتوںسے آراستہ فوج اورقاتل
اسکواڈ بنارہاہے۔لیکن فوج میں موجود غیرنصیری افراد اورشامی علماءحافظ
الاسد کے مقاصدکی راہ میںرکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ الویز برونرنے اسی وقت سے
فلسطینی تحریک کاساتھ دینے کے بجائے حافظ الاسد تک رسائی کافیصلہ
کرلیا۔شامی انٹیلی جنس میں نصیری افرادپرمشتمل گروپ کی مدد سے الویز
برونرحافظ الاسد تک پہنچا۔حافظ الاسد نے الویز برونرکوغنیمت جان کراسے
انٹیلی جنس میںٹارچرکنسلٹنٹ کے طورپرانتہائی خفیہ طریقے سے تعینات
کرلیا۔موساد کے مسلسل پیچھاکرنے اوراسرائیل کے بغل میں رہنے کے سبب حافظ
الاسد نے الویز برونرکی حفاظت کے لیے اس کے عہدے کوخفیہ رکھ کراسے بھاری
سیکورٹی مہیاکی۔اسے شامی انٹیلی جنس میں اعلی اختیارات دینے کے ساتھ ہرقسم
کی سہولیات فراہم کی گئیں۔حافظ الاسد کی نمک کاحق اداکرنے کے لیے الویز
برونرنے اپنی پیشہ ورانہ مہارتوںکو برروئے کار لاتے ہوئے شام میںمزیدخفیہ
اذیتی مراکز قائم کرلئے۔پہلے سے موجود ٹارچرسیلوںمیںموجود قیدیوںبالخصوص
حافظ الاسد کے مخالف علماءکرام اور سیاستدانوںکوبڑی تعدادمیں موت کے گھاٹ
اتاردیا۔مخالف فوجی افسران اورسرکاری عہدیداروںکوراستے سے
ہٹاکر1970ءمیںحافظ الاسدملک کاطاقتورصدربن گیا۔اس نے الویز برونرکو مزید
ترقی دے دی۔رپورٹ کے مطابق حافظ الاسد نے اپنے صدربننے کے بعدالویز برونر
کوالاخوان المسلمون کے سرکردہ لیڈران اوسرگرم کارکنوںکاہدف دے دیا۔اجرتی
قاتل نے شام میں اسلامی تنظیم الاخوان المسلمون اور گرفتارہونے والے دیگر
حق پرست علماءکرام، سیاسی کارکنوںاور بعث پارٹی کے مخالفین کو اذیتی مراکز
میں وحشیانہ تشددکانشانہ بنایا۔الویز برونرنے ہٹلر کے قاتل اسکواڈایس ایس
کے طرزپر خفیہ پولیس کی برانچ قائم کی ۔پیشہ ورقاتلوںکو تمام تر ان
طریقوںکو تربیت دی جو وہ جرمنی کے حراستی کیمپوںمیں استعمال کرتے
تھے۔2فروری 1982ءکو شامی شہر حماة میں الاخوان المسلمون کے قتل عام
کاالمناک واقعہ الویز برونرکی کارستانی تھی ۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے
مطابق اس قتل عام کے نتیجے میں 22ہزارسے زاید مسلمان مردوخواتین اوربچوںکو
موت کے گھاٹ اتاراگیاتھا ۔مفتی اعظم فلسطین سے مدد لینے والے الویز برونرنے
شام میں پناہ گزین فلسطینی مسلمانوںکے خون میں بھی ہاتھ رنگے ۔الویز
برونرکے تربیت یافتہ قاتل اسکواڈ نے ہزاروں مسلمانوںکو ٹارچرسیلوںمیںتعذیب
دے کر ہولناک طریقوںسے ماردیا۔رواں برس شامی فوج سے فرارہونے والے ایک ایک
عینی شاہدنے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کوشامی جیلوں میں قیدیوںکے ساتھ ہونے
والے ظالمانہ سلوک کی اتاری جانے والی 55ہزار تصاویر دی ہیں۔کیٹلاگ میںشامی
قیدیوںکی تصویریں دیکھ کر عالمی ماہرین نے کہاتھاکہ شامی حکومت نازی فوج کی
طرح سزائیں دیتی ہے ۔متعددتصاویر میں ہلاک شدہ قیدیوںکے چہرے ڈھانپے گئے
تھے اوران کی نعشوںکی کلائیوںپر سفید لیبل لگے ہوئے تھے اورمرنے والوںکے
جسم مکمل ننگے تھے جو بلکل نازی کیمپوںسے ملتی جلتی کیفیت تھی۔العربیہ کے
مطابق شام میں حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے اورشام کے حالیہ حکمران
بشارالاسد بھی الویز برونرکو ان کی خدمات کے بدلے بھرپورمراعات دیتے
رہے۔بشارالاسد کے خلاف مارچ 2011ءمیں شروع ہونے والی عوامی تحریک کے دوران
ہزاروں قیدیوںکو بے پناہ تشددکرکے قتل کیاگیاہے جبکہ اس وقت ڈیڑ ھ لاکھ سے
زاید افراد شامی جیلوںمیں ناکردہ گناہوںکی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔اس تمام تر
تشدداورٹارچرکے پیچھے حافظ الاسد اوراس کے بیٹے بشارالاسد کی انسان دشمنی
کارفرماہے جنہوںنے ہزاروںبے گناہ انسانوںکوقید وبند میں مارنے کے لیے الویز
برونرجیسے انسان دشمن سفاک کی خدمات حاصل کی تھیں ۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے القدس العربی کے مطابق شام میں الویز
برونرکی موجودگی کی خبر موساد کوہوئی تھی جس کے بعد موساد نے اسے قتل کرنے
کی ہزارہاں کوششیں کی تھیں۔متعدددفعہ اسے زہریلے پارسل بھیجے گئے ۔اس
پردومرتبہ قاتلانہ حملہ بھی ہواتھاجس میں اس کی تین انگلیاں اورایک آنکھ
ضائع ہوئی تھی تاہم وہ مرنے سے بچ گیاتھا۔رپورٹ کے مطابق الویز برونرآج سے
4سال قبل 2010ءمیں اس بدنام زمانہ سفاک کی موت شام میںواقع ہوئی۔اسے دمشق
میں دفن کردیاگیاہے ۔ الویز برونرکی موت کی خبراسرائیل کے عبرانی ذرائع کے
لیے اہم موضوع بنی ہوئی ہے۔امریکامیں قائم جنگی جرائم کے مرتکب ہونےو الے
جرمن نازیوں کی تلاش اوران کاٹرائل کرانے کے لئے سرگرم سائمن ویزنٹل
سینٹرنے بھی تصدیق کی ہے کہ شام میںچارسال قبل مرنے والاشخص اسرائیل کو
مطلوب الویز برونر ہی تھا۔اسرائیلی ٹیلی وژن کے مطابق نازیوںکی گرفتاری مہم
کے سربراہ آفرائم زوروف نے کہاہے کہ جرمن انٹیلی جنس کو الویز برونرکی موت
کی خبر4سال قبل موصول ہوئی تھی ۔اس کے بعدسے اب تک جرمن انٹیلی جنس اس
خبرپر تحقیقات کررہی تھیں۔ آفرائم زوروف کاکہناہے کہ الویز برونرآخری
مرتبہ2001 ءمیں دمشق میں دیکھے گئے تھے ۔ذرائع ابلاغ الویز برونرنازی افسر
ایڈولف آئش مین کے بعد دوسرا اہم افسرتھا۔رپورٹ کے مطابق الویز
برونر1912ءمیں پیداہواتھااس نے انجینیرنگ کی ہوئی تھی وہ 1933کو بننے والی
نازی پولیس ایس ایس میں پالیسی سازافسرکے طورپربھرتی ہواتھا ۔ایس ایس قتل
کے لئے نازیوںکااہم ہتھیارتھا۔یہ اسکواڈ ہٹلر اورپارٹی کے دوسرے قائدین کے
لئے ایک خصوصی گارڈ کی حیثیت سے شروع ہواتھا۔سائمن ویزنٹل سینٹرنے یہودی
نسل کشی کے جرم میںٹرائل کاسامناکئے بغیر الویز برونرکے مرجانے پر افسوس
ظاہرکیاہے۔ |