آخر داعش ہے کیا؟

تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔البتہ کچھ تصاویر ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے دو کے بجائے ان گنت رخ ہوتے ہیں۔خصوصاً اگر تصویر تجریدی آرٹ کی شاہکارہوتو پھر تو ہر رخ کے اندر بھی ایک رخ ہوتاہے۔لیکن داعش [1]کےمخالفین کو داعش کی تصویر میں صرف اور صرف اس کا منفی رخ ہی دکھائی دیتاہے۔ظاہرہےکہ جب آپ مشرقی افق پر بیٹھ کر تاریخ کی دوربین کے ذریعےدنیائے اسلام کے قلب و جگر میں داعش کے وائرس کو دیکھیں گے تو آپ کومیڈیا کے پردوں میں چھپے ہوئے "سرطان"کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ لیکن اگر آپ تل ابیب کے لرزتے ہوئے ایوانوں کی فصیل کے سائے میں بیٹھ کر وائٹ ہاوس کی عمارت پر ایک نگاہ ڈالیں گے تو آپ کو "داعش "ایک مضبوط اور محکم ستون کی مانند نظر آئے گی۔ایک ایسا ستون جس نے کانپتے ہوئے اسرائیل،سہمے ہوئے امریکہ،ڈرے ہوئے بعثیوں اور ہانپتے ہوئے ڈکٹیٹر عرب حکمرانوں کو وقتی طورپرسہارادے رکھاہے۔

استعماری طاقتوں کو داعش کے سہارے کی ضرورت بہت پہلے محسوس ہوگئی تھی۔ظاہری اعدادوشمار کے مطابق جب امریکہ نے ۲۰۰۶ میں عراق پر حملہ کیا تو امریکیوں نے اپنے اگلے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ۱۵اکتوبر۲۰۰۶ کو عراق میں موجود دہشت گرد گروہوں کو "دولۃ الاسلامیہ فی العراق" کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جس کا کرتادھرتا ابو عمر البغدادی کو نامزد کیاگیا۔جس کے بعد۲۰۰۶میں ہی داعش کے ابتدائی تربیتی مراکز امریکہ کی سرپرستی میں اردون میں قائم کئے گئے"۔۲۰۰۶سے۲۰۱۴تک "اندرون خانہ حکمت عملی" کاکام مکمل کیاگیا۔اس دوران اندرون خانہ حکمت عملی کے تحت دو اہم کام کئے گئے۔ایک تو دنیاکے مختلف ممالک سے جوانوں کو بھرتی کیاگیااور دوسرے اسی عرصے میں دنیاکے متعددممالک میں داعش کے نیٹ ورک کی داغ بیل ڈالی گئی۔نمونے کے طور پر کچھ نیٹ ورکس کا تعارف ہم کروائے دیتے ہیں:

تحریک شباب صومالیہ:
۲۰۰۷میں صومالیہ میں فعّال شدت پسند اسلامی گروہوں کو ملاکر تحریک شباب صومالیہ قائم کی گئی۔کہ جس نے تھوڑے ہی عرصے میں صومالی فوج کو شدید زک پہنچائی۔

مغربی اسلامی اور شمال مغربی اسلامی ممالک میں داعش کا قیام:
تحریک شباب نے ہی مغربی اسلامی اور شمال مغربی اسلامی ممالک میں سرگرم جنگجووں کو اپنے ساتھ ملایااور اپنی سرگرمیوں کو ان مناطق میں رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔

لیبیامیں انصارالشّریعہ کا قیام:
قذافی کی عبرتناک موت کے بعدلیبیاکے مشرقی حصے میں پہلے سے موجودشدّت پسند گروہ "جماعت اسلامی لیبیا"کے نیٹ ورک کو داعش کے سانچے میں ڈھال کروہاں انصارالشّریعہ قائم کی گئی۔

یمن میں انصارالشّریعہ کا قیام:
۲۰۱۱سے۲۰۱۲کے دوران یمن میں داعش کی شاخ قائم کرنے کے لئے اس نئی حکمت عملی کے تحت وہیں پر موجود موجود"القائدہ جزیرۃ العرب" نامی گروہ کو "انصارالشّریعہ"نامی گروہ میں تبدیل کیاگیا اور یوں یمن میں داعش وجود میں آگئی۔

عراق میں داعش کا قیام:
عراق میں پہلےزرقاوی کی سربراہی میں "القاعدہ آف عراق" کوپروان چڑھایاگیا بعد ازاں اسی نیٹ ورک کو داعش کے نیٹ ورک میں تبدیل کیاگیا۔[2]

شام میں داعش کا قیام:
آج سے تقریبا تین سال پہلے[3] ترکی کی سرحد کے قریب شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں القاعدہ آف شام،جبھۃ النصرہ اور اس طرح کے دیگر چند گروہوں کو فعال کرکے ان کے اختلاط سے داعش کو جنم دیاگیا[4]۔۲۰۱۱کے آخر میں جبھۃ النصرہ نے اپنے آپ کو داعش کی شاخ کہنا شروع کیا اور بہت سارے دہشت گردی کے واقعات کو اپنے ذمے لیا۔

اس وقت شام میں رقه، حلب، حومه لاذقیه، حومه دمشق، دیرالزور، حمص، حماه، حسکه و ادلب جیسے علاقوں میں داعش وقتا فوقتا اپنے وجود کا اظہار کرتی رہتی ہے۔

پاکستان میں داعش کا قیام:
ایک نظریے کے مطابق پاکستان میں اسامہ بن لادن کے قتل کے ساتھ ہی دہشت گرد گروہوں کو ایک نیا اور بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیّا کرنے کے لئے داعش کے قیام کی خاطر کام شروع ہوگیاتھا۔اس سلسلے میں دیگر ممالک کی مانند پاکستان میں بھی پہلے سے موجود سرگرم انتہا پسند تنظیموں کے کچرے سے ہی "داعش سازی" کی گئی ہے۔اب پاکستان میں داعش کے وجودکے اظہار اور جوازکے لئے ایک خاص فرقہ وارانہ ماحول کی ضرورت ہے چنانچہ سپاہِ صحابہ اور تحریک جعفریہ سے بھی پابندی ہٹائی گئی ہے تاکہ تصادم اور ٹکراو کی فضا تیار ہوسکے۔البتہ امید ہے کہ ہمارے ہاں کا مقامی استعمار سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ کے نام کو استعمال کرنے میں ناکام رہے گا۔[5]

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کچھ شدت پسندوں نے اپنے آپ کو داعش سے منسلک کہنابھی شروع کردیاہے اورداعش کے نام سے وال چاکنگ بھی شروع ہوچکی ہے۔ 16 اکتوبر 2014 کو امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے انکشاف کیاتھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد اور اس تنظیم کے 5 دیگر اہم کمانڈرداعش میں شامل ہوگئے ہیں،۱۶ اکتوبر کوہی کراچی میں داعش کی طرف سے وال چاکنگ دیکھنے کو ملی،یاد رہے کہ اس سے پہلے ستمبر میں پشاور کےقصہ خوانی اور خیبربازار میں پشتو اور دری میں لکھے گئے پمفلٹ تقسیم کئے گئے تھے جن میں داعش کا تعارف اور اغراض ومقاصد درج تھے۔

اسی طرح ڈان نیوز میں بلوچستان کے داخلہ اور قبائلی امور کے محکمے کی شائع شدہ ایک سیکرٹ انفارمیشن رپورٹ کے مطابق داعش نے ہنگو اور کرم ایجنسی میں دس سے بارہ ہزار کے لگ بھگ جنگجو بھرتی کئے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کیاگیاہے کہ داعش نے لشکر جھنگوی(ایل ای جے) اور اہل سنت والجماعت(اے ایس ڈبلیو جے) کے کچھ عناصر کو پاکستان میں خود سے ہاتھ ملانے کی پیشکش کی ہے جبکہ اس عسکریت پسند تنظیم نے دس رکنی ایک اسٹرٹیجک پلاننگ ونگ بھی قائم کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق داعش نے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضرب عضب کے جواب میں خیبرپختونخوا میں فوجی تنصیبات اور حکومتی عمارتوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی ہے جبکہ وہ اہل تشیع کو بھی ہدف بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔[6]

یہ سب تو مختلف ممالک میں داعش کے قیام کا ایک مختصر نقشہ تھا ۔جس سے صاف پتہ چلتاہے کہ داعش کوئی نیاگرو ہ نہیں بلکہ پہلے سے موجود القاعدہ اور القاعدہ سے ہم فکر گروہوں کی ہی نئی شکل ہے۔لیکن اس وقت ہمارے لئے دو سوال بہت اہم ہیں،ایک یہ کہ طالبان اور القاعدہ کے ہوتے ہوئے مغربی طاقتوں نیز امریکہ اور اسرائیل کو داعش نامی گروہ تشکیل دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اور دوسرا یہ کہ پاکستان کے حکمرانوں کے داعش سے کیامفادات وابستہ ہیں؟

جہاں تک مغربی طاقتوں نیز امریکہ اور اسرائیل کی بات ہے تو یہ امر ہم سب پر عیاں ہے کہ "مسٹرصدام" اپنی زندگی میں مذکورہ طاقتوں کے لئے ایک محکم ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔انہوں نے صرف کویت پر جو چڑھائی کی تھی اسکے تناظر میں امریکہ نے مدد کرنے کی مد میں کویت اورسعودی عرب سے ٩٦٣بلین ڈالر وصول کئے تھے۔اب آپ ایران اور صدام کے مابین ۸سالہ جنگ کے دوران خلیجی ریاستوں سے امریکی بھتے کی وصولی کاتخمینہ خود سے لگالیں۔

صدام کے زوال کےبعد" جنگ کے نام پر مدد "کرنے کےاستعماری کاروبار کو سخت دھچکالگااورطالبان و القاعدہ سمیت دنیا بھر کے شدت پسند گروہوں میں سے کوئی بھی صدام کے خلا کو پُر نہیں کرسکا۔

اس وقت عرب دنیامیں اسلامی بیداری ، ایران،عراق وافغانستان میں مضبوط ہوتاہوا شیعہ سنّی اتحادنیزسعودی عرب اور ایران کے بڑھتے ہوئے مراسم سےعصرِ حاضر کی کاروباری اور استعماری دنیا کے مفادات کو شدیدخطرات لاحق ہیں۔

فی الحال ایک طرف تواس منطقے میں اب کوئی بھی حکمران "صدام "بننے کے لئے تیار نہیں ہے اور دوسری طرف طالبان اور القاعدہ سمیت دیگرشدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کی وجہ سے عام لوگ بھی مغرب اور امریکہ سے متنفّر ہیں۔

اسلامی دنیا کے دانشمند وں اور علماءِ کرام کی اکثریت اب استعماری فارمولے" لڑاو اور کماو" کو سمجھ چکی ہے،[7]امریکی جہادی صنعت کا بھانڈا پھوٹ چکاہے [8]اور اب نفرت انگیز فتوے بیچنے والوں اور اسلحہ تقسیم کرنے والوں کا دھندہ اپنی مقبولیّت کھوچکاہے۔

ایسے میں استعماری طاقتوں کو فوری طورپر اب کسی ایسے سہارے کی ضرورت ہے جو صدام کا متبادل بنے۔جس سے شیعہ اور سنّی دونوں ڈریں اور تمام اسلامی ممالک اس "متبادل صدام" کے خلاف استعمار سے مدد لینے پر مجبور ہوجائیں اور اس طرح استعمار مسلمان ممالک سے بھتہ وصول کرتارہے۔
اب رہی یہ بات کہ پاکستان کے حکمرانوں کے داعش سے کیامفادات وابستہ ہیں؟ تو اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ شدّت پسند گروہوں کو فعال کرکے صرف بڑی طاقتیں ہی بھتہ وصول نہیں کرتیں بلکہ ہمارے ہاں کا مقامی استعمار بھی انہی شدّت پسندوں کی مدد سے اپنی تجوریاں بھرتاہے۔

آپ اس وقت صرف کوئٹہ سے لے کر تفتان تک کے راستے میں ہونے والی لوٹ مار اور رشوت خوری کا جائزہ لے کر دیکھ لیں اسی سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ دہشت گردی کی وارداتوں سے لوگوں کو ہراساں کرکے سرکاری کارندے کس طرح لوٹتے ہیں۔اس روٹ پر سفر کرنے والے مسافرین اور متاثرین کے مطابق[9] راستے میں قدم قدم پر سرکاری ملازمین چائے پانی کاتقاضا کرتے ہیں اور اگرآپ انہیں چائے پانی نہ دیں تو آپ کے رکھوالےآپ کی حفاظت کی خاطر آپ کو گاڑی سے اتارکر وہیں اپنے پاس بٹھالیتے ہیں۔بعض اوقات ڈرائیور حضرات،سواریوں سے چندہ اکٹھاکرکے سرکاری ڈیوٹی پر مامور قومی رکھوالوں کو چائے پانی پیش کرتے ہیں۔

کئی مقامات پرلوگوں کے پاسپورٹ چیک کرکے شیعہ سواریوں کو الگ کیا جاتاہے جوکہ سیکورٹی کے حوالے سے انتہائی ناقص قدم ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مزید ہراساں کرنے کا ایک حربہ بھی ہے[10]۔اسی طرح تاریک اور یخ بستہ صحراوں میں مسافروں کو روک دیاجاتاہے۔اگر کہیں پر سرکار کا دل اور کسی اہلکار کی جیب نہ بھرے تومسافروں سے بھری ہوئی بسوں کو واپس بھی بھیج دیاجاتاہے۔صرف یہی نہیں بلکہ گاہے بگاہے ڈاکووں کے بھیس میں گاڑیوں کو لوٹ بھی لیاجاتاہے۔اب آپ اسی سے اندازہ لگائیں کہ دہشت گردی کی آڑ میں تفتان بارڈر لوٹ مار کی مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے لیکن میڈیا سمیت کسی کے پاس وقت نہیں کہ وہ اس لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھائے ۔یہ تو صرف تفتان بارڈر کی صورتحال ہے،آپ دنیابھرمیں ان جگوں پر لوٹ مار کااندازہ کریں جہاں ہرروز دہشت گردی ہوتی ہے ۔

اسی طرح پاکستان کے اندر آجائیں،ہمارے ہاں معیاری اور قومی نظام تعلیم کی کوئی بات ہی نہیں،لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسّر نہیں،شہروں اور بازاروں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں،صفائی اور ہیلتھ کے شعبے کی تو بات ہی نہ کریں،بے روزگاری وبے کسی درودیوارسے ٹپک رہی ہے،مسئلہ کشمیر فراموش ہوچکاہے اور ملک میں ہر طرف ماراماری کا دور دورہ ہے۔کوٹلی آزادکشمیر کے پاسپورٹ آفس سے لے کر تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی تک انسانی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ۔۔۔

یہ سب کچھ اس لئے ہورہاہے چونکہ لوگ دہشت گردی سے دبے ہوئے ہیں،عالمی اور مقامی استعمار کے حکم پر مٹّھی بھر دہشت گردوں نے پوری قوم کوہراساں کررکھاہے۔ آئے روز دانشمند قتل ہورہے ہیں،مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر مار دیاجاتاہے،مسجدوں اور امام بارگاہوں میں خود کش حملے کئے جاتے ہیں،جوانوں کو اغوا کیاجاتاہے۔۔۔ایسے میں کون ہے جسے انسانی حقوق کاہوش ہو ،جو رشوت اور کرپشن سے نجات کے بارے میں سوچ سکے،جو مسئلہ کشمیر کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دے ،جو ۔۔۔

صاف ظاہر ہے کہ دہشت گردوں کا جو بھی نام رکھ لیں اور وہ جس ٹولے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ،ان کا وجود جس طرح عالمی استعمار کے لئے ذریعہ آمدن ہے اسی طرح ہمارے ہاں کے مقامی استعمار کے لئے بھی ایک سود مند تجارت ہے۔ انہی گروہوں کے ذریعے عالمی استعمار اپنے مفادات حاصل کررہاہے۔ ۔لہذا جب تک ہم ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے سوچ بچار نہیں کریں گے،دہشت گردوں کے آگے دبے رہیں گے،کرپٹ اہلکاروں سےخوفزدہ اوربدعنوان عناصر کے سامنےخاموش رہیں گے تو اس وقت تک ہمارے اس ملک میں داعش اور دہشت گرد بھی باقی رہیں گے۔اس لئے کہ حقیقت میں داعش اور دہشت گردی کچھ بھی نہیں صرف بھتہ وصول کرنے کاایک بہانہ ہے۔خواہ یہ بھتہ عالمی استعمار وصول کرے یا ہمارے ہاں کا مقامی استعمار۔

[1] دولت اسلامیہ عراق وشام۔ISIS یعنی Iraq Syria Islamic State
[2] میڈیا کے شواہد کے مطابق اکتوبر ۲۰۰۶ سے ہی عراق میں داعش کی بنیادیں ڈالنے کاکام شروع ہوچکا تھا جو کہ القاعدہ آف عراق کے مرحلے سے گزرتاہوا موجودہ شکل کو پہنچا
[3]مارچ 2011ء میں شام میں داعش کی موجودگی کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں
[4] استفادہ :العالم: https://press.jamejamonline.ir/Newspreview/1527662759187057291
[5] شیعہ علما کے بیانات اور طرز عمل سے یہی لگ رہاہے۔
[6]۔ https://www.dawnnews.tv/news/1012059/
[7] 23 اور 24 نومبر 2014ء کو قم المقدسہ (ایران) میں تکفیریت کے خلاف ہونے والی بین الاقوامی اسلامی کانفرنس اس امر پر کھلی دلیل ہے
[8] داعش کے بارے میں القاعدہ کے بانی شیخ نبیل نعیم کے انٹرویو سمیت متعدد شواہداس سلسلے میں موجود ہیں
[9] میدانی تحقیق
[10] متاثرین کے بیانات
نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 30198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.