ریاست اور سیاست بھی کیا چیز
ہوتی ہیں،ایک مرتبہ ان سے کسی کا دل لگ جائے اور ان پرقبضہ ہوجائے پھرتو
چھوڑنے کو من ہی نہیں کر تا،بار بار شکست کھانے کے بعد پھر اس کے حصول کی
کوشش ہوتی ہے۔ اس جد وجہد میں چاہے اس کی زندگی کے چل چلاؤ کاوقت آگیا ہو ،مگر
صاحب ریاست اور صاحب سیاست ان سے کنارہ کش نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان
میں ریٹائر منٹ کا شعبہ اور تصور نہیں ہے۔
قارئین باتمکین! جس وقت میں یہ تحریر سرپر دقرطاس کر رہا ہوں اس وقت ۲۰؍اے
فیروز شاہ روڈ پر واقع سماج وادی پارٹی کے مرکزی دفتر پربی جے پی بنام
نریندرمودی یا نر یندرمودی بنام بی جے پی کو گھیر نے اور مرکزی و ریاستی
اقتدار سے بے دخل کر نے کے لیے ’’تیسرے مورچے ‘‘کے قیام کے حتمی منصوبے
بنائے جارہے ہیں جس میں سابقہ پارٹیوں جیسے سماج وادی پارٹی،راشٹر یہ
جنتادل،جنتا دل یونائٹیڈ،جنتادل سیکولرکے علاوہ نئی پارٹیوں کو بھی شامل
کیا جارہا ہے جن میں انڈین نیشنل لوک دل وغیرہ کا نام لیا جارہا ہے نیز
’’سماج وادی جنتادل‘‘کے نئے نام سے اس مورچے کے قیام کی تیاریاں کی جارہی
ہیں۔
یہ کہنے کی بات نہیں کہ اس مورچے کی مدت کتنی اور خاکہ کیسا ہو گا۔کون اس
کاچیئر پرسن بنے گا اور کس کے ہاتھ میں اس کی زمام کار آئے گی،اسی طرح اگر
یہ محاذ مرکزی اقتدار کے قابل ہوتا ہے تو وزارت عظمیٰ کا تاج کس کے سر
پررکھا جائے گا؟کیوں کہ تیسرے مورچے کے قیام کی ہمیشہ سے سب سے بڑی روکاٹیں
تو یہی ہیں۔ یہاں ہر پارٹی کا سربر اہ ،چیئر پرسن اور وزارت عظمیٰ کی دوڑ
میں شامل ہوتا ہے اور خود کو دوسرے سے زیادہ قابل اور لائق تصور کر تا
ہے۔اسی وجہ سے آج تک ہندوستان میں کسی تیسرے محاذ کا قیام نہیں ہو سکا ہے۔
تیسرے محاذ کے قیام کا غلغلہ تو خوب مچا ہوا ہے اوراطلاعات و اخبار کے
مطابق اس مرتبہ ضرور ’’سماج وادی جنتا دل‘‘کے نام سے تیسرے محاذ کا قیام
ہوگا، مگرتیسرے محاذ کے قیام کی آواز اٹھانے والی پارٹیوں اور ان کے
سربراہوں کے اعمال سے ہر کوئی واقف ہے کہ کس طرح یہ ایک غیر متوقع حصول
اقتدار کی خاطر اتحادکو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور تیسرے محاذ کا بنابنایا
خاکہ اپنے آپ ٹوٹ جاتا ہے۔
سماج وادی پارٹی کے قومی سربراہ ملائم سنگھ یادوخود کو اس محاذ کا سب سے
بڑا نیتا اور قائد مانتے ہوئے خود کو وزارت عظمیٰ کا پہلا حق دار مانتے ہیں
۔اسی طرح جنتا دل یونائٹیڈ نتیش کمار کا پلے گر اؤنڈ بن کر رہ گئی
ہے،ایسالگتا ہے جیسے شرد یادواس کے محض کٹھ پتلی سربراہ ہیں اور ان کے ہاتھ
میں جے ۔ڈی۔ یو۔ کاکچھ نہیں ہے،نہ وہ خود مختار ہیں اور نہ خود فیصل ،بس !
نتیش کمارجیسا کہتے ہیں انھیں کر نا پڑتاہے،جیسا چلاتے ہیں انھیں چلنا پڑتا
ہے،اسی بات نے نتیش کمار کو مغرو ربنا دیا،نتیجتاً وہ بھی خود کو اس محاذ
کا بڑا نیتا اور وزیر اعظم تصور کر نے لگے ہیں۔تیسری جانب سابق وزیر اعظم
دیوی لال گوڑا ہیں جو جنتا دل سیکولر اور خود کو اس محاذ کا سربراہ اور
وزارت عظمیٰ کا حقیقی امید وار سمجھتے ہیں ،چو نکہ وہ سابق میں وزیر اعظم
رہ بھی چکے ہیں اس لیے ان کا دعوا ہے کہ وہی وزیر اعظم ہوں گے۔بہتی گنگامیں
جب نے سب ہاتھ دھونے لگے تو لالوپر ساد یادو کیوں بھلاپیچھے رہیں ،ان کابھی
بہار جیسی سنگلاخ اور سیلابوں کی سرزمین پر پندرہ سال کا طو یل حکومتی
اورسیاسی تجربہ ہے،نیز وہ مرکزی حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے بھی
فرائض انجام دے چکے ہیں ،اسی طرح انھیں ان کی حسن کارکر دگی پر امریکہ سے
سرٹیفکیٹ بھی حاصل ہے،اتنی ساری خوبیوں کے باوجود ان کا اس دوڑ میں پیچھے
رہنا کوئی معنا نہیں رکھتا لہٰذا وہ بھی دوڑ پڑے ۔پانچویں ، چھٹی،ساتویں
،آٹھویں ،نویں اور دسویں پارٹیاں بھی یہ دیکھیں گی تو ان کے من بھی میں
ضرور اقتدا رکا لالچ اور بڑے عہدے کے حصول کی طلب پیدا ہوگی ۔تصور کیجیے جب
تیسرے محاذ کا ہر فرد محاذ کا سربر اہ اور وزیراعظم بننے کے خواب دیکھے گا
تو اس محاذ کا کیا انجام ہو گا ۔گزشتہ تیس برس سے یہی ہوتا آرہا ہے ۔یعنی
تیسرا محاذ بننے سے پہلے ٹوٹ جاتا ہے۔اسی کا فائدہ اٹھا کرکانگریس جیسی چور
پارٹیاں اور بی جے پی جیسی فرقہ پر ست جماعت اور غنڈے عناصر والی حکومتیں
کامیاب ہوجاتی ہیں۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج تک ہندوستانی سیاست میں کسی اور گر وپ کا
اضافہ نہیں ہوا ہے،حالانکہ عوام ہند کو اس کی سخت ضرورت ہے،وہ کانگریس کی
نالائقیوں ،ناانصافیوں،ملک کی لوٹ کھسوٹ،اقربا پر وری اوربی جے پی کی صنعت
کارنوازی،ظلم و تعدی و فرقہ واریت اورفرقہ پرستی سے عاجز اور تنگ ہیں ،مگر
چونکہ مجبور ہیں ،کانگریس،بی جے پی یا یوپی اے،این ڈی اے کو چننے کے علاوہ
کچھ کر بھی نہیں سکتے ۔اس مجبوری کے عالم میں انھیں کسی ایسے محا ذکی بے
انتہاضرورت ہے جو انھیں انصاف دلا سکے اور ان کے عدم تحفظ کے احساس کو ختم
کر ے ۔اس ملک کے لیے حقیقی معنوں میں دل و جان سے ترقی کے منصوبے بنائے اور
یہاں کے باشندو ں کی معاشی اورمادی خرابیوں کو دور کر نے اقدام کر ے ، اسی
طرح یہاں کی اقلیتوں بالخصو ص مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دلائے اور امن و
آشتی کو عام کر ے مگر یہ خواب اتنی آسانی سے شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں
آرہا ہے۔یہ محاذحصول اقتدار کے لالچ اور حرص میں ایک پھر ٹوٹے گا اور پھراس
کے تانے بانے بکھریں گے ۔ |