فیصل آباد میدان جنگ بن گیا

عبدالودود ربانی
تحریک انصاف پاکستان کے ”سی پلان“ کا پہلا مرحلہ فیصل آباد میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں خونریز تصادم کی صورت میں مکمل ہوا ہے۔ اسلام آباد کے 30نومبرکے جلسے میں عمران خان نے اپنے پلان سی کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے تین بڑے صنعتی و تجارتی شہروں اور بعدازاں پورے ملک کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا، پاکستان تحریک انصاف کے اعلان کے مطابق15 دسمبر لاہور، 8 دسمبر فیصل آباد، 12 دسمبر کراچی، 18 دسمبر کو پورے پاکستان کو بند کرنا طے تھا۔ عمران خان کے اس اعلان کو تمام سیاسی، سماجی، مذہبی، تاجر وٹرانسپورٹ تنظیموں، سول سوسائٹی اور باشعور و سنجیدہ حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرناپڑا، لاہور اور فیصل آباد کی تاجر تنظیموں نے اپنی الگ الگ پریس کانفرنسز میں پی ٹی آئی کے اجتماع سے لاتعلقی کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی تبدیلی کرنا پڑی اور شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ہمارے پرامن احتجاج کا مقصد شڑڈاﺅن نہیںہے۔ تاہم عمران خان مسلسل کہتے رہے کہ مکمل شڑڈاﺅن ہڑتا ل ہوگی۔ عمر ان خان کے پلان سی کے مطابق 8 دسمبر کو فیصل آباد شہر کو بند کیا جانا تھا، مسلم لیگ کا گڑھ ہونے کے سبب جو نہ صرف ایک مشکل ہد ف تھا، بلکہ ایک ٹیسٹ کسی بھی تھا۔ حکومت کو سنجےدہ مذاکرات کے لیے ٹےبل پر لانے کا انحصار بھی اس پہلے مرحلے کی مکمل کامےابی پر تھا۔ ےہی وجہ تھی پاکستان تحرےک انصاف اور حکومت کی طرف سے بھرپور تےارےاں دےکھنے مےں آئیں۔ پی ٹی آئی گھنٹہ گھر چوک پر سٹےج لگا کر جلسے کرنے کا ارادہ تھا۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی اتحادی رہنے والی جماعت پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے فیصل آباد میں ہونے والی اس احتجاج میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ عوامی تحریک رہنماﺅں کے مطابق فیصل آباد کی شٹرڈاو ¿ن کی کال پر تحریک انصاف نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا، اس لیے وہ اس احتجاج میں تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق)، پاکستان سنی تحریک اور سنی اتحاد کونسل نے پیر کے روز فیصل آباد میں ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے شانہ بشانہ چلنے کا یقین دلایا تھا۔ حکومت پنجاب نے فیصل آباد 8 ہزار پولیس اہلکاروں کو 25ہزار ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے 7ہزار شیلوں سے لیس کر کے تعینات کر دیا تھا۔ انتظامےہ حکومت اور پی ٹی آئی اپنے اپنے طور پر تےارےوں مےں مصروف تھی ہی، اس کے ساتھ ساتھ مسلم لےگ ن فےصل آباد کی قےادت اور کارکنان بھی بھرپور تےارےوں مےں مصروف تھے۔ انڈے، ڈنڈے، ٹماٹر اور پتھر کے ڈھےر جمع کرلےے گئے تھے۔ دوطرفہ تےارےوں سے حالات کشےدگی کی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ احتجاج کو انتشار کی جانب دھیکنے کی صورت میں حکومت کی جانب سے سختی سے نمٹنے کے بیانات بھی دیے گئے تھے۔ جس پر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ فریقین کے رویے سے فیصل آباد کے حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں ، جو یقینا ملک کے لیے نقصان کا باعث ہوں گے۔ انہی حالات کے پیش نظر بعض رہنماﺅں نے فریقین پر مذاکرات کرنے پر بھی زور دیا تھا، لیکن دونوں جانب سے ٹال مٹول کا مظاہرہ کیا جاتارہا اور مذاکرات نہ ہونے کے نتائج فیصل آباد میں سامنے آگئے۔فیصل آباد پیر کے روز میدان جنگ بنا رہا۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے کارکن ایک دوسرے پر پتھراؤ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے، جبکہ ایک شخص جان سے گیا۔

فیصل آباد شہر کی8دسمبر کی صبح کا آغاز معمول کے مطابق ہوا، شہر کے آٹھ بازار بھی معمول کے مطابق کھلے رہے۔ تمام سرکاری دفاتر، اسکولز اور کالجز میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے خلاف اپنے ”پلان سی“ کو کامیاب بنانے کے لیے فیصل آباد کے 9 مختلف مقامات پر احتجاج کیا گیا، جبکہ ناولٹی پل، گھنٹہ گھر چوک، الائیڈ چوک اور ملت چوک پر کافی کشیدگی رہی۔ اطلاعات کے مطابق پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کارکنان ملت چوک میں جمع ہوئے، تاہم کارکنان کی ایک کثیر تعداد نے ہجوم کی شکل میں شہر کے مختلف علاقوں میں ٹائر جلا کر سڑکیں اور بزور دکانیں اور مارکیٹیں بند کرانا شروع کروادیں۔ پی ٹی آئی کارکنان کا ہجوم جب صوبائی وزیر مملکت عابد شیر علی کے حلقہ ناولٹی پل پر پہنچا تو یہاں پی ٹی ئی اور مسلم لیگ ن کے کارکنان آمنے سامنے آگئے۔ دونوں جماعتوں کے کارکنان کے درمیان تلخ کلامی اور ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے ”گو نواز گو“ اور (ن) لیگی کارکنوں نے ”رو عمران رو“ کے شدید نعرے لگائے۔ تاہم مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا، جس پر پی ٹی آئی کارکنان شدید مشتعل ہوگئے اور انہوں نے واٹر کینن پر بھی پتھراؤ شروع کر دیا۔ تاہم اس موقع پرسادہ کپڑوں میں ملبوس شخص کی جانب سے فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے تین کارکن زخمی ہوگئے، جنہیں الائیڈ ہسپتال منتقل کیا گیا، جبکہ پی ٹی آئی کا ایک کارکن دوران علاج دم توڑ گیا۔ جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوگئے اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا اور تحریک انصاف کی جانب سے منگل (آج ) ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیا گیا۔ آخری اطلاعات آنے تک مقتول کے قتل کا پرچہ مقتول کے بھائی عطاءاللہ کی مدعیت میں کاٹ دیاگیا ہے، جس مےں رانا ثناءاللہ، رانا ثناءاللہ کے داماد اور ڈی سی او کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

فیصل آباد واقعہ کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا اپنے کارکن کے قتل کا الزام حکومت پر لگاتے ہوئے کہنا تھا کہ امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی ذمہ دار حکومت ہے اور حکمرانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کراؤں گا۔ پرامن احتجاج سارے پاکستانیوں کا حق ہے اور اسے تحفظ دینا ریاست کا فرض ہے، لیکن فیصل آباد میں شریف خاندان نے اپنے گلو بٹوں کے ذریعے تشدد کا کھیل کھیلا۔ اگر کوئی غلطی کرتے تو پولیس کا کام روکنے کا تھا، گلو بٹوں کا نہیں۔ (ن) لیگ کے گلو بٹ تیاری کے ساتھ آئے اور ان میں سے ایک شخص مظاہرین پر گولیاں برساتا رہا اور پولیس صرف اسے دیکھتی رہی، رانا ثنااللہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ احتجاج کرنے والوں کو دیکھ لیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری نے بھی فیصل آباد واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف پر امن سیاست پر یقین رکھتی ہے اور جو کچھ ن لیگ کے کارکنوں نے فیصل آباد میں کیا، ہم اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ پرامن احتجاج کرنا ہمارا جمہوری حق ہے، حکمران ہمارے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ پنجاب پولیس مسلم لیگ (ن) کے گلوبٹوں کے ذریعے انتشار پھیلانا چاہتی ہے، (ن) لیگ کی ڈنڈا بردار فورس نے ہمارے کارکنوں پر حملہ کیا۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما راناثناءاللہ نے فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے قتل ہونے والے کارکن کے حوالے سے صاف کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا کوئی بھی کارکن اس قتل میں ملوث نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے خود جلاؤ گھیراؤ کیا ہے، عوام نے پی ٹی آئی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔ رانا ثناءاللہ نے پی ٹی آئی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے تاجروں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ رانا ثنا اللہ کے بیان پر پی ٹی آئی رہنما شفقت محمود کا کہنا تھا کہ جھوٹ بولنے پر ن لیگ کو شرم آنی چاہیے، ن لیگ حالات کشیدگی کی جانب لے کر جا رہی ہے، ن لیگ نے کارکنوں پر ڈنڈوں سے حملہ کیا، پرامن احتجاج روکنے کے لیے (ن) لیگ نے فائرنگ کا پلان بنایا تھا، ن لیگ چاہتی تھی کہ مذاکرات کے دروازے بند ہوجائیں۔ فیصل آباد واقعہ کے حوالے سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ فیصل آباد میں پیش آنے والے واقعے سے مذاکرات کی راہیں دھندلا گئی ہیں۔ جب کسی تحریک میں خون شامل ہوجائے تو پھر حکومتیں باقی نہیں رہتیں۔ نواز شریف کی ٹیم میں ناقص اور نااہل وزرا و مشیران پر مشتمل ہے ۔ حکومت کی جانب سے فیصل آباد میں لگائی گئی آگ کی شدت اب کراچی اور لاہور میں بھی محسوس ہوگی، کیونکہ جب لوگوں کی آواز کو طاقت سے بدل دیا جاتا ہے تو پھر وہ آواز سارے نظام کو بدل دیتی ہے۔جبکہ وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ فیصل آباد واقعہ عمران خان کی جانب سے مرو یا مارو جیسے بیانات کی عکاسی ہے۔

فیصل آباد واقعہ پر سیاسی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنے کا مشورہ دیا اور کہا ہے کہ تصادم کی صورت میں حالات قابو سے باہر ہوئے تو تیسری قوت اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما زاہد خان نے بھی فیصل آباد واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں انارکی پھیلانےکی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم دونوں پارٹیوں کو اپنے کارکنوں سے پرامن رہنے کی اپیل کرنی چاہیے۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائی کرنے کی بجائے صبر وتحمل سے کام لیں اور احتجاج کو ہر قیمت پر پرامن رکھیں۔ احتجاج کرنا اور اسے برداشت کرنا جمہوریت کا حصہ ہے، لیکن کسی بھی فریق کی جانب سے اسے پرتشدد راستے پر ڈالنے کا عمل جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔سماجی حلقوں کی جانب سے فیصل آباد واقعہ پر پی ٹی آئی اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کیونکہ فیصل آباد ایک انتہائی پرامن اور تجارتی شہر ہے، ماضی میں یہاں کبھی اس طرح سیاسی لڑائی نہیں دیکھی گئی، لیکن اب پی ٹی آئی کی ہٹ دھرمی اور حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے فیصل آباد میں خونریز تصادم شروع ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے فیصل آباد میں احتجاج کی کال دی ہوئی تھی تو ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری زیادہ تھی کہ وہ حالات کو پرامن طریقے سے کنٹرول کرے، لیکن جب حکومت نے جماعتی مفادات کو سامنے رکھ کر اقدامات کرنا شروع کیے تو پرامن فیصل آباد پرتشدد ہو گیا۔ جس کا سراسر نقصان حکومت کو ہوگا، کیونکہ اگر حکومت اس احتجاج سے پرامن طریقے سے نمٹتی تو معاملہ صرف ایک دن کی ہڑتال اور احتجاج پرختم ہوجاتا، لیکن اب یہ معاملہ یہاں رکنے والا نہیں لگتا، بلکہ پی ٹی آئی کو ملنے والی ایک لاش ”پلان سی“ کی کامیابی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اب بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری طور پر اپنے وزراءکو اشتعال انگیز بیانات دینے سے روک کر مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے، تاکہ حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701260 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.