پاک بھارت تعلقات اور سارک کا کردار

دو قومی نظریہ برصغیر میں مسلمانوں کو دیگر مذاہب سے اس لئے ممتاز کرتا ہے کہ اس کے تحت مسلمان بندوں کی غلامی سے نکل کر ایک ایسی ذات کی پناہ میں آگئے تھے جہاں سے کسی شے کا انکار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مایوسی کا گمان کی توقع کی جاتی ہے ۔ ماضی میں مسلمانوں نے اگر برصغیر میں ہندوئوں سمیت دیگر مذاہب سے وابستہ افراد پر حکمرانی بھی کی ہے تو اس کی اساس وہ تعلیمات تھیں جو خاتم المرسلین ۖ کی جناب سے کل عالم کی بہتری کیلئے عطا کی گئی تھیں ۔ ہندوئوں نے گوکہ اس خطے میں اپنی حاکمیت قائم رکھی لیکن وہ کسی بھی طرح سے ذات پات کی غلامی سے کبھی بھی آزاد ہوئے اور ہی اپنے مذہب کی غلام گردشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بنیادی طور انگریزوں سے آزادی حاصل نہیں کی بلکہ ایک طرح سے بھیک پائی ہے جو انہیں مسلسل کمپنی سرکار کی خوشامندوں کے بعد نصیب ہوئی کیونکہ انہوں نے انگریز سرکار کویہاں اپنی فلاح وبہبود کیلئے جگہ نہیں دی تھی بلکہ اس کا مقصدمسلمانوں سے اپنی حکمرانی چھیننے کا بدلہ لینا تھا۔ انگریزوں کے پاکستان کا نقشہ بنانے اوراس میں مسلم علاقوں کی تقسیم کیلئے جو طریقہ کار واضع کیا گیا اس میں بھی انہوں رخنہ اندازی کی اور اقتدار کی منتقلی کے موقع پر بھی بد دیانتی کامظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے کشمیر ، جونا گڑھ سمیت کئی مسلم علاقوں کا آزاد مسلم ریاست کے ساتھ الحاق نہ ہوسکا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندستان کو پاکستان کا قیام ابتدائ ہی سے گوارہ نہ تھا ورنہ اثاثہ جات کی تقسیم میں دیانت وامانت کا دامن نہ چھوڑا جاتا اور نہ ہی 1965ئ ، 1971ئ سمیت کئی دیگر جنگیں نہ ہوتیں اور نہ ہی ملک میں عصیبت کا ماحول پیدا ہوتا جس سے مشرقی پاکستان کا پاکستان سے الگ ہونے کا دل خراش واقعہ وقوع پذیر ہوتا۔ پاکستان کا ظرف دیکھئے کہ اس کے باوجود ہمارے حکمران بھارت کو اپنا بڑا بھائی گردانتے ہیں اور انکی ہمیشہ بھر پور کوشش کی ہے کہ خطے میں قیام امن کیلئے باہمی تعلقات کی بہتری کیلئے مذاکرات کئے جائیں ۔ بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی دیگر اقدامات کے ساتھ پاک بھارت تعلقات میں تعطل کے خاتمے کیلئے ذاتی طور اہم کردار ادا کیا۔ میاں نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں سیکرٹریز کی سطح پر مذاکرات پر زور دیا ۔ راوں سال تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھی 1999ئ کی طرز پر پاک بھارت تعلقات بہتر کرنے کیلئے کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے نریندرمودی کے بھارتی وزیراعظم بننے کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی البتہ مودی نے بجائے ان کیجانب سے خیرسگالی کا مثبت جوب دینے کے انہیں دہشت گرد ملک کا سربراہ قرار دیتے ہوئے چارج شیٹ تھمادی ۔ علاوہ ازیں لائن آف کنٹرول کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اشتعال انگیزی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پاکستان کی سرحدوں پر فائرنگ کردی ۔

پاک بھارت تعلقات میں سب سے اہم رکاوٹ کشمیر کا تنازع ہے جس پر اقوام متحدہ نے باقاعدہ قرارداد منظور کررکھی ہے جبکہ بھارت ہے کہ وہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جو بنیادی طور پر اس کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں اور المیہ یہ ہے کہ مودی نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر اس کی مداخلت کو غلط ٹہرایا دیا جسے کسی بھی طرح اقوام متحدہ کی توہین قرار نہ دینا ناانصافی نہ ہوگی۔پاکستان کا روزل سے تاحال یہی موقف ہے کہ کشمیریوں کو اظہار کا حق دیا جائے تاکہ وہ فیصلہ کرسکیں کہ انہیں کس طرح سے رہنا ہے لیکن بھارت نے ہمیشہ اس کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ ان کی آزادی سلب کرنے کیلئے مسلسل ان پر مظالم ڈھارہا ہے تاکہ وہ اس سے باز آجائیں۔

پاکستان جس نے ہر دور میں بھارتی جارحیت اور من مانیوں کے باوجود مثبت ردعمل کا مظاہرہ کیا اور حد درجہ نرمی کا ساتھ پہل کی ہے اس بار بھی کوشش یہی کی گئی کہ معاملات دوستانہ ماحول میں حل کئے جائیں تاکہ خطے میں امن و امان کی فضائ قائم ہوجائے مگر مسلسل اشتعال انگیزی کے باعث حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب بھرپور رد عمل کا مظاہرہ کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ پہلی بار کسی پاکستانی وزیراعظم نے دلیری کا ثبوت دیا ہے کہ خطے میں اگر تنازعات پیدا ہورہے ہیں تو ان کا اصل ذمہ دار بھارت کے علاوہ کوئی اور نہیں جو جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کا خواہشمند ہے ۔
پاکستان اس ساری صورتحال کے باوجود آج بھی جنوبی ایشیا کو تنازعات سے پاک دیکھنا چاہتا ہے اور غربت، جہالت ، بیماری اور بیروزگاری کے خاتمے سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے مشترکہ کوششوں پر یقین پیہم رکھتا ہے ۔ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہونے والی اٹھارویں سالانہ سارک سربراہی کانفرنس سے خطاب میں میاں نواز شریف اس تنظیم کو امن و خوشحالی کیلئے خطہ کے عوام کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا ہے ۔انہوں نے سارک کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور اس حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں کیونکہ پاکستان کی خواہش ہے کہ سارک کو بھی یورپی یونین کی طرح موثر بنایا جائے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یورپی یونین اور دینا کی دیگر علاقائی تنظیمیں لائق رشک ترقی کرسکتیں ہیں تو سارک جو 30سال سے علاقائی تنظیم کی حیثیت سے اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ بھی رکن ممالک کی باہمی ترقی اور بہبود کے شعبوں میں اپنا مقام کیوں نہیں بناسکتی ۔

یاد رکھنے کی بات ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے اور مقام افسوس یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی غربت ، افلاس ، بیماری اور ناخواندگی کا شکار ہے جبکہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ یہاں انسانی اور سماجی اشاریے نہایت نچلی سطح پر ہیں ۔ اس خطہ کا اہم ترین تشخص یہ ہے کہ ا س کی آبادی کا 20 فی صد سے زائد حصہ 24سے 25سال کی عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن اس عظیم افرادی قوت سے سوائے شدت پسندی کے سوا اور کوئی دوسرا تعمیری کام نہیں لیا جارہا ۔

ہم جانتے ہیں کہ کشمیر کے تنازع کا تصفیہ کئے بغیر پاک بھارت تعلقات میں بہتری ممکن نہیں اسی تناظر میں سارک کا کردار بھی موثر تنظیم کی حیثیت سے نہیں رہا اور اس کا اٹھارواں اجلاس بھی اس کشیدگی کو کم نہیں کرسکا جس کی واضح مثال دونوں رہنمائوں کا سٹی ہال میں موجود ہونے کے باوجود علیک سلیک نہ کرنا اور ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے گریز کرنا تھاجو میڈیا پر موضوع بحث بھی رہا البتہ اختتامی سیشن کے موقع پر گوکہ دونوں ممالک کے وزرائ اعظم جس گرم جوشی سے ملے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے بہرکیف متاثر کن نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ سب تعلقات کی بہتری کیلئے کوئی پیش رفت ہوگی کیونکہ پاکستانی اور بھارتی سیاست کا بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست معاملہ فہمی کی پالیسی پر کاربند ہے اور یہاں کے سیاست دان کھلے دل سے سیاست کرتے ہیں ، یہاں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو بھارت مخالفت ، رجحانات اور تعصبات کو ہوا دیکر اپنی سیاسی دکانداری چمکارہی ہو۔ پاکستان کے رائے دہندگان بھارتی رائے دہندگان کے مقابلے میں کھلے ذہن کے حامل ہیں اور مقامی مسائل کے حل کی بنیاد پر کسی بھی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جبکہ بھارت آج بھی بنیاد پرستانہ اور انتہاپسندانہ سیاست کے نرغہ میں ہے ۔ نریندر مودی جیسے اکثر سیاستدانوں کی سیاست پاکستان کے محور کے گرد گھومتی ہے اور پاکستان دشمنی کی منفی کے دائرے سے باہر ہی نہیں نکلنا چاہتی جو خطے میں قیام امن سمیت دیگر معاملات کی بہتری کیلئے ذہر قاتل ہے ۔

المختصر یہ کہ اگر جنوبی ایشیا میں صورتحال کی بہتری مقصود ہے تو سارک اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کو غاصبانہ عزائم سے باز رکھنے کے اقدامات کرے وگرنہ آگ کا یہ الائو بڑکھتا رہے گا جس سے بیرونی قوتوں کو اپنے مفاد کے حصول میں قدر ے کم دشواری کا سامنا ہوگا جو جسی بھی لحاظ سے خطے کیلئے خوش آئند نہیں ہے۔
mujahid hussain
About the Author: mujahid hussain Read More Articles by mujahid hussain : 60 Articles with 49120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.