نیوز میکر جنہوں نے دنیا بدلنے کا عزم کیا

 آج کل میڈیا کا دور ہے۔ آنکھ اوجھل پہا ڑ اوجھل شائد اسی لیئے کہا گیا تھا کہ اگر آپ خبروں میں نہیں ہیں تو پھر کہیں بھی نہیں ہیں۔ وہ لوگ جو ہمیشہ خبروں میں ان رہتے ہیں۔ میڈیا انھیں نیوز میکر یا خبر بنانے والے کہتا ہے۔ معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے چند ماہ پہلے ایشیا کی ان شخصیات کی لسٹ جاری کی تھی۔ جنہیں نیوز میکر کہا جا تا ہے.27افراد کی اس لسٹ میں 2 پاکستانی بھی شامل ہیں،تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اﷲ کو غیر ملکی میڈیا نے پاکستانی نیوز میکرز قرار دیا ہے، مولوی فضل اﷲ تو اب کبھی کبھی اخباات کی ہیڈنگ میں آتے ہیں لیکن عمران خان کے بغیر تو اب میڈیا کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ کپتان کے ایک کزن تو سیاسی دھرنا چھوڑ کر بھاگ گئے ورنہ وہ بھی نیوز میکرز میں آگے آگے ہی تھے۔ اس فہرست میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور عام آدمی پارٹی کے سربرا ہ،دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں،،لسٹ میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے وان ھننگ ،،چینی وزیر خزانہ لو جی اور ارب پتی چینی بزنس مین وان جیانگ اور چینی انٹر نیٹ علی بابا گروپ کے چیئر مین جیک ما بھی شامل ہیں۔،،جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے ،،شمالی کوریا کے کم جونگ،،جنوبی کوریائی سکیٹنگ گرل کم یونا،انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے گورنر جوکو وڈوڈو،،جاپانی سوفٹ بینک کے مالک ماسا یوشی بھی اس فہرست کا حصہ ہیں۔ جاپانی بیس بالر ماسا ہیرو،،جاپانی فٹ بالر سنیچی ٹنکانا ،،سام سنگ کے مالک جے وائے لی،،تھائی لینڈ کی وزیر اعظم ینگ لک شینا وترا،برما کی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی،،تائیونی پاپ گلو کار جیسن شن ارب پتی تائیوانی تاجر ٹیری گو بھی لسٹ میں شامل ہیں۔ارب پتی کلائیو پامر،،افغان وزیر خارجہ رنگین دادفر،،ہانگ کانگ کے ارب پتی تاجر لی کاشنگ،،بینک آف چائنہ کے چیئرمین جیاؤ ڑنگ،، ہانگ کانگ کے ماہر تعلیم چارلس لی،،کیتھے پیسیفک ایئرلائنز کے چیف ایگزیکٹوایین چو بھی اس لسٹ میں شامل ہیں۔

عمران خان
عمران خان کو دنیا کرکٹ کی وجہ سے جانتی ہے۔ دنیا کے اس عظیم کرکٹر کا پورا نام عمران خان نیازی ہے۔ جو تحریک انصاف کے سربراہ ، پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، شوکت خانم میموریل ہسپتال کے بانی اور اب دھرنا اور شہر ہی نہیں پورا م بند کرنے کی تحریک بپا کیئے ہوئے ہیں۔ عمران خان لاہوری ہیں۔ وہ لاہور میں 25 نومبر 1952میں اکرام اﷲ خان کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کیلیے 1971 سے 1992 تک کھیلتے رہے۔ پشتونوں کے مشہور قبیلے نیازی سے تعلق ہے۔ ان کی والدہ شوکت خانم صاحبہ زیادہ تر میانوالی میں رہی .کپتان جناب اکرام اﷲ خان صاحب کے اکلوتے بیٹے ہیں.ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کیا.تاہم بعد میں برطانیہ گئے. وہاں رائل گرائمر سکول میں پڑھا اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا۔ آپ 1974 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔عمران خان صاحب نے کرکٹ کی دنیا اپنا مقام بنایا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس وقت وہ سیاست کے بجائے کرکٹ سے زیادہ تعارف کرایا جاتا ہے.عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے 1992 میں عالمی کرکٹ کپ جیتا تھا.انہوں نے 88 ٹیسٹ میچ کھیل کر 362 وکٹیں 22.81 کی اوسط سیحاصل کیں۔ 1981 -1982 میں لاہور میں سری لنکا کے 8 کھلاڑی صرف 58 رنز دے کر آؤٹ کیے۔ اور 23 مرتبہ ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے 36.69 کی اوسط سے 3807 رنز بنائے جن میں سے 5 سنچریاں بھی شامل ہیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور ایڈی لینڈ میں 1991 میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے 132 رنز رہا۔ ان کا شمار پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کو بھارت اور انگستان کو انگریزی سرزمیں میں ہرایا۔ بطور کپتان انھوں نے 48 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 14 جیتے اور 8 ہارے اور 26 برابر یا بغیر کسی نتیجے سے ختم ہوئے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 1992 میں ان کی قیادت میں کھیلتے ہوئے پانچواں کرکٹ عالمی کپ جیتا۔ یہ اعزاز ابھی تک پاکستان صرف ایک دفعہ ہی حاصل کر سکا ہے۔ انھوں نے 175 ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ اور 182 وکٹیں حاصل کیں۔ 3709 رنز 33.41 کی اوسط سے بنائے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 102 ناٹ آؤٹ تھا جو انہوں نے سری لنکا کے خلاف 1983 میں کھیلتے ہوئے بنائے۔ ان کی قیادت میں 139 ایک روزہ میچ کھیلے گیے جن میں سے 77 جیتے 57 ہارے، چار بے نتیجہ رہے جبکہ 1 میچ برابر رہا۔انہوں نے مجموعی طور پر 5 عالمی کرکٹ کپ میں حصہ لیا جو کہ 1975 ، 1979 ، 1983، 1987اور 1992 میں منعقد ہوئے۔سیاست میں مشرف نے انھیں آگے بڑھانے کا سوچا اور پیچھے ہٹ گئے۔ پھر خان صاحب خود ہی چل پڑے۔ پاکستان تحریک انصاف بنائی۔ اب اس کے چیئرمین ہیں.ان کی پارٹی.2013 کے عام انتخابات میں ووٹ لینے کے لحاظ سے دوسری اور نشستیں جیتنے کے لحاظ سے تیسری بڑی پارٹی بنی۔ اگست 2014 مین آپ نے آزادی مارچ شروع کیا جس کا مقصد پاکستان کو ایک مستحکم اور شفاف محکوم ریاست بنانا تھا۔ لیکن اب وہ شہر اور ملک بند کرانے کی مہم پر ہیں۔انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے صدراتی ایوارڈ بھی ملا۔ علاوہ ازیں 1992 میں انسانی حقوق کا ایشیا ایوارڈ اور ہلال امتیاز (1992 ) میں عطا ہوئے۔1995میں عمران خان نے مرحوم برطانوی ارب پتی، سر جیمز گولڈ سمتھ کی بیٹی، جیمیما گولڈ سمتھ سے شادی کی۔ جیمیا گولڈ سمتھ نے شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام جمائما خان ہے۔ اس شادی کا شہرہ پوری دنیا میں ہوا اور عالمی میڈیا نے اس کو خصوصی اہمیت دی۔ لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اور عمران خان نے جمائما کو طلاق دے دی۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ پاکستان کی دوسری نیوز میکر شخصیت مولوی فضل اﷲ کی ہے۔ جنہیں تحریک طالبان کا سربراہ بھی بنایا گیا۔ عالمی میڈیا کے لئے تحریک طالبان پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنا حکیم اﷲ محسود کے مار ے جانے سے کہیں زیادہ اہم خبر تھی۔

مولوی فضل اﷲ۔ تحریک طالبان
مولوی فضل اﷲ ان عسکریت پسندوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کی ریاست سے ہر طرح کی ٹکر لینے کے لیے اْس وقت سے کمربستہ ہے جب سے وہ پراسرار طور پر سوات کے گرد پاکستان آرمی کے تنگ گھیر ے میں سے مکھن کے بال کی طرح نکل کر سرحد کے اْس پار کنڑ صوبے میں جا پہنچے۔لحیم شحیم، مولوی فضل اﷲ مشکل راستوں پر چلنے کا عادی نہیں تھا۔ اْس کا کام ریڈیو کے ذریعے واعظ کرنا اور اپنے کمانڈرز کو احکامات جاری کرنا تھا۔فضل اﷲ نے صحت یاب ہونے کے بعد کنڑ کے گورنر کی سربراہی میں ایک بڑا لشکر تشکیل دیا۔ اب یہی فضل اﷲ افغانستان میں سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے جسے حکیم اﷲ محسود اور اس سے پہلے بیت اﷲ محسود نے وزیرستان میں رہتے ہوئے ملک اور قوم پر حملوں کے لیے استعمال کیا۔ دوسرے الفاظ میں مولوی فضل اﷲ کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان اب تحریک طالبان پاکستان افغانستان بن گئی ہے۔ مولوی فضل اﷲ ایک ’’غیر اہم مفر ور‘‘ کے مقا م سے اٹھ کر تحریک طالبان کے قائد کی مسند پر جا بیٹھا ہے۔ وہ اس وقت وہ تمام بدلے چکا سکتا ہے جو اس سرزمین سے نکلتے وقت اس نے اپنے ذہن پر نقش کیے تھے ۔

نریندر مودی بھارتی وزیر اعظم
نریندر دامودر داس مودی کی مادری زبان گجراتی ہے۔ وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ اس سے پہلے، انہوں نے گجرات (بھارت) کے وزیر اعلی کا منصب سنبھالا ہوا تھا۔مودی کا سیاسی سفر 1984 میں شروع ہوا۔ جب آر ایس ایس نے اپنے چند ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا، ان میں مودی بھی شامل تھے۔انہوں نے اڈوانی کی سومناتھ - ایودھیا یاترا اور مرلی منوہر جوشی کی کنّیاکماری - کشمیر یاترا میں حصہ لیا۔ بعد میں انہوں نے گجرات میں انتخابات کے پرچار کی ذمہ داری نبھائی۔ وزیراعلی کیشو بھائی پٹیل کے استعفی دینے کے بعد مودی کو وزیراعلی بنایا گیا۔مودی کا جنم 17 ستمبر 1950 کو گجرات کے مہسانہ ضلعی میں ایک غریب خاندان میں ہوا تھا۔ ان کے والد دامودر داس ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتے تھے اور والدہ ہیرا بین گزر بسر میں مدد کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔بچپن میں خود نریندر مودی اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے بیچا کرتے تھے۔ان کے سوانح نگار کے مطابق بچپن میں ان کے ذہن میں سنیاسی بننے کا بھی خیال آیا تھا اور وہ کچھ دن راماکرشن مشن میں بھی جا کر رہے۔ 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے۔ تعمیر تحریک ("تعمیر نو"). تنظیم کے لیے ایک مکمل وقت آرگنائزر کے طور پر کام کرنے کے بعد، انہوں نے بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں اس کے نمائندے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ نریندر مودی کودہلی میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے طور پر بھیجا گیا تھا۔.1995 میں، مودی پارٹی کے قومی سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا اور بھارت میں پانچ اہم ریاستوں کے انچارج بنا دیاگیا. 1998 میں انہوں نے جنرل سیکرٹری (تنظیم)، ایک پیغام ہے کہ وہ اکتوبر 2001 تک منعقد کے طور پر ترقی دی گئی.نریندر دامودر داس مودی متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ مودی کے مخالفین انھیں تفرقہ پیدا کرنے والی شخصیت گردانتے ہیں۔ سنہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران مودی گجرات کا وزیراعلی تھا جس کی وجہ سے ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پس پردہ اس میں ملوث تھے۔

عام آدمی کی پارٹی کے سربراہ اروندکجروال
دہلی کے ریاستی انتخابات میں اک نئی پارٹی وجود میں آئی اور انتخابی پنڈتوں کو حیران کر دیا کیوں کے اس نوزائیدہ جماعت کو بنے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا مگر انتخابی نتائج نے نہ صرف بھارت بلکے بر صغیر کے تمام ممالک پاکستان ، بنگلہ دیش ، میں گہرا اثر کیا اس پارٹی کی بنیاد اک انکم ٹیکس افسر اروند کجروال نے ڈالی وہ ہی اب اس پارٹی کے سربراہ بنے۔ ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے بھاری کامیابی حاصل کی اور دہلی میں اروند کجروال وزیر اعلی(مکھی منتری) منتحب ہوے اور اپنی وزارت اعلی قائم کی اور واقعاتا عام آدمی کی طرح میٹرو بس میں بیٹھ حلف لینے آیے اور دہلی کے شہریوں کے لیے پانی صحت امن کے لیے اصلاحات کیں کئی بار وہ خود بھی شہر کی ٹریفک میں پھنسے دیکھے گے۔ کجروال نے پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کیا۔ کجرول نے جب کرپشن کے خلاف بل کی منظوری چاہی تو کانگریس اور بی جے پی اس کے اڑے آ گئیں کجروال کا کہنا تھا اگر وہ لوک پال بل اسمبلی سے منظور نہ کروا سکے تو مستعفی ہو جائیں مگر بل منظور نہ سکا یوں اروند کجر وال کی وزرات اعلی اپنے اختمام کو پہنچی۔کجروال کچھ کرسکے یا نہ کرسکے لیکن تاریخ میں اپنا نام تو لکھوا لیا۔

جیک ما علی بابا کے مالک
چینی انٹر نیٹ کمپنی علی بابا گروپ کے چیئر مین جیک ما بھی نیوز میکرز میں شامل ہیں۔جیک ما کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ پہلے چینی بزنس میں ہیں جو فوربس مگزین کی کور اسٹوری بنے۔ہونگزو صوبے میں پیدا ہونے اس نوجوان کو انگریزی سیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ روزانہ پینتالیس منٹ بائیک چلا کر ایک ایسے موٹل جایا کرتے تھے جہاں وہ غیر ملکیوں سے انگریزی میں بات چیت کر سکیں . وہ انہیں بطور ایک گائڈ شہر کی سیر کرتے تھے تاکہ انگریزی میں خوب باتیں کرنے کا موقع ملے اور وہ اپنی زبان بہتر بنا سکیں ...نو عمری میں دو دفعہ یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں فیل ہوئے اور مجبورا انہیں ٹیچرز انسٹیٹوٹ میں پڑھانا پر جو کہ ایک عام سی یونیورسٹی ہے .جیک ما نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے میں نے چینی کمپنیوں کے لیے ویب سایٹس بنانے کا سوچا اور اسکے لیے اپنے امریکی دوستوں سے مدد لی ……جس دن میری ویب سائٹ انٹر نیٹ پر آئی میں نے اپنے تمام دوستوں اور ٹی وی لے لوگوں کو گھر پر جمہ کیا ……انٹرنیٹ بہت سلو تھا ، ڈائل اپ کے کنکشن پر ہم نے ساڑھے تین گھنٹے میں آدھا صفحہ ڈونلوڈ کیا .. ہم کارڈ کھیلتے رہے، کھاتے پیتے رہے ...تاکہ ویب سایٹ ڈونلوڈ ہو جائے ...بہت وقت لگا مگر میں حد سے زیادہ خوش تھا کہ میں نے سب کو دیکھا دیا کہ انٹر نیٹ کا وجود ہے۔ جیک ما کی کمپنی چین کی آن لائن شاپنگ کمپنی علی بابا ہے۔علی بابا امریکہ کی سلیکون ویلی سے کاروبار کرتی ہے اور دوسری آن لائن ریٹیل (خوردہ) کمپنیوں کی ہی طرح اس کا زور خوردہ خریداروں پر نہ ہو کر بڑے کاروباریوں پر رہتا ہے۔مبصرین کا کہنا تھا کہ نیویارک سٹاک ایکسچینج میں شامل ہونے کے بعد علی بابا کا نام بھی فیس بک، ایمیزون اور ای بے جیسی کمپنیوں کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔یہاں ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ آخر علی بابا پر کیا کیا دستیاب ہے تو جواب کچھ اس طرح دیا جاتا ہے وہاں کیا دستیاب نہیں؟یہ کمپنی آن لائن مارکٹنگ، آن لائن خدمات اور لاجسٹکس تو مہیا کراتی ہی ہے اس کے علاوہ یہ بہت سی دوسری چیزیں بھی فراہم کراتی ہے۔یہاں فوجی سازو سامان آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اگر کوئی ٹینک، توپ، گولہ، راکٹ لانچر خریدنے کی حسرت رکھتا ہو تو اس کے لیے بھی یہاں بہت کچھ ہے۔

انڈونیشیا کے صدر جوکووڈوڈو
جوکوو ڈوڈو نے انڈونیشیا کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا کر سب کو حیران کردیا تھا۔ جوکووڈوڈو انڈونیشیا کے پہلے صدر ہیں جن کا انڈونیشیا کے سابق صدر اور آمر حکمران سوہارتو سے کسی قسم کا تعلق نہیں رہا ہے۔ ان کی حلف برداری کی تقریب پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ حلف برداری کی تقریب میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سمیت فوجی، سیاسی اور کاروباری افراد نے شرکت کی۔ جوکووڈوڈو موجودہ صدر سوسیلو بمبانگ کی جگہ اگلے پانچ سال کے لیے انڈونیشیا کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل وہ دارالحکومت جکارتہ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ انڈونیشیا کے پہلے صدر ہیں جن کا سابق صدر سوہارتو کے بتیس سالہ دورِ حکومت سے کسی قسم کا تعلق نہیں۔ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے جوکووڈوڈو نے فرنیچر کے کاروبار کے ذریعے اپنی سیاسی حیثیت کو مستحکم کیا۔ جکارتہ کے گورنر بنے اور آج انڈونیشیا کے صدر مقرر ہوئے۔ تریپن سالہ وڈوڈو انڈونیشیا کی تاریخ کے ساتویں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے تیسرے صدر ہیں53 سالہ جو کو ویدودو 21 جون 1961 کوانڈونیشی شہر‘ سوراکارتا (Surakarta)میں پیدا ہوئے۔ والد‘ نوتو مہردیجو معمولی ترکھان تھے۔ انہیں فرنیچر بنا کر بہ مشکل اتنی آمدنی ہوتی کہ روز مرہ اخراجات پورے ہو سکیں۔ خاندان کرائے کے گھر میں مقیم تھا۔جو کو کی پیدائش کے چند سال بعد نوتو مقروض ہو گیا۔ حتیٰ کہ کرایہ ادا کرنے کو رقم نہ رہی۔ جوکو کی والدہ‘ سدجیامتی نے شوہر کو وہ قیمتی برتن دیئے جو انہیں اپنے باپ سے پہلے بیٹے کی پیدائش پر تحفتہً ملے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ شوہر انہیں بیچ کر کچھ رقم حاصل کر لیں۔ یہ ایک خاتون خانہ کی طرف سے بڑی قربانی تھی۔نوتو مہر دیجو برتن لیے سائیکل میں انہیں بیچنے نکلے۔ افسوس کہ راستے میں برتن گرے اور چکنا چور ہو گئے۔ اس نقصان پر قدرتاً اہل خانہ کو بڑا افسوس ہوا۔ نوتو کے والد کی ایک گھڑی بیٹے کے پاس محفوظ تھی۔ وہ باپ بیٹے کی محبت کی انمول نشانی تھی۔ اب نوتو نے دل پر پتھر رکھ کر وہ جان سے زیادہ پیاری گھڑی گروی رکھ دی۔لیکن گھڑی کے بدلے جو رقم ملی‘ وہ ناکافی تھی۔ چنانچہ کرایہ ادا نہ ہونے پر انہیں گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ پھر وسط شہر میں بہتے دریائے سولو کے کنارے بنی کچی آبادی میں رہنے لگے۔ انہوں نے درخت کاٹ کر وہاں ایک جھونپڑی بنائی اور یوں سرچھپانے کا ٹھکانا میّسر آ گیا۔اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی نوتو کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ترقی کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ ان کے ایک رشتے د ار فرنیچر بنانے کا چھوٹا سا کارخانہ چلاتے تھے۔ نوتو کو وہاں ملازمت مل گئی۔وہ محنتی انسان تھے۔ انہوں نے دان رات محنت کر کے اتنی رقم جمع کر لی کہ اپنی دکان کھول سکیں۔ وہیں بارہ سالہ جو کو بھی باپ سے ترکھان کا کام سیکھنے لگا۔ وہ صبح سکول جاتا‘ سہ پہر کو باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ اﷲ تعالیٰ نے کام میں برکت دی اور وہ چل پڑا۔ جلد ہی جمع پونجی کے ذریعے نوتو نے ذاتی گھر تعمیر کر لیا۔

1980ء میں جو کو نے میٹرک پاس کیا۔ اب کالج میں پڑھائی کا مرحلہ آیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے زیادہ سرمایہ بھی درکار تھا۔ ادھر دکان سے اتنی ہی آمدن ہوتی کہ گھر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ تب تک جو کو کی دو بہنیں بھی پیدا ہو چکی تھیں۔ سو خرچ بڑھ گیا۔اس کڑے وقت میں خاندان والے پھر باپ بیٹے کی مدد کو پہنچے۔ مشترکہ خاندانی نظام کا یہ بہت بڑا وصف ہے کہ اس میں سب لوگ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ چنانچہ نوتو کے بھائیوں نے بھتیجے کی فیس کا بندوبست کیا۔ یوں جوکو جکارتہ چلے آئے اور وہاں گاجا مادا یونیورسٹی کے شعبہ جنگلات میں تعلیم پانے لگے۔1985 میں جو کو نے بی ایس سی فارسٹری کر لیا۔ کبھی انہیں ماں باپ کے ساتھ دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ کبھی دن بھر پیٹ بھرنے کو ایک ہی کھانا ملتا۔ کبھی ایک ہی لباس زیب تن کیے کئی ہفتے گزر جاتے۔ جب ان کی مالی حیثیت مستحکم ہوئی تو جو کو سوچنے لگے‘ کس طرح غریب ہم وطنوں کی حالت بدلی جائے؟ تب انہیں احساس ہوا کہ وہ حکومت میں پہنچ کر ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو غربا کو کم از کم تین فوائد پہنچائے:سرچھپانے کو جگہ دے۔پیٹ بھر کھانا کھلائے اور تن ڈھانپنے کو کپڑا دے۔ دوستوں نے بھی انھیں سیاست میں جانے کا مشورہ دیا۔ان کی خواہش تھی کہ ایماندار،اہل اور مخلص نوجوان انڈونیشی سیاست میں حصہ لیں۔ 2004 سے سوراکارتا کی بلدیاتی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ جو کو شہر کے چپّے چپّے پر گئے اور ہر قسم کے لوگوں سے ملے۔ یوں انہیں مزید واقفیت ملی کہ عام آدمی کس قسم کی مشکلات میں مبتلا ہے۔جوکو نے شہریوں کو یقین دلایا کہ اگر وہ میئر شہر بن گئے، تو ان کے مصائب دور یا کم کرنے کی ہر ممکن سعی کریں گے۔ اس نوجوان رہنما کا خلوص و سچائی باتوں اور آنکھوں سے ظاہر تھی‘ اس لیے جوکو دیکھتے ہی دیکھتے سورا کارتا میں جانے پہچانے عوامی رہنما بن گئے۔آخر 2005 میں وہ شہر کے میئر منتخب ہو ئے۔ انہوں نے حکمران جماعت کے نمائندے کو شکست دے کر سبھی کو حیران کر دیا۔ مگر ابھی جوکو کے کارناموں نے پورے ملک کو چونکا دینا تھا۔ وہ سات برس شہر کے میئر رہے اور اس دوران سوراکارتا کی کایا پلٹ ڈالی۔2005 میں سورا کارتا مجرم پیشہ گروہوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ قانون کانام و نشان نہیں تھا کیونکہ انتظامیہ کرپشن کی دلدل میں پھنسی تھی۔ جوکو نے برسراقتدار آتے ہی بلدیہ کے کرپٹ ملازمین کو گھر بھجوایا اور ایمان دار ملازم بھرتی کیے۔پھر شہر میں اعلان کرا دیا کہ بلدیہ کا جو ملازم رشوت مانگے‘ اس کی خبر انہیں دی جائے۔ چنانچہ چند ماہ میں بلدیہ کے ملازم… افسروں سے لے کر خاکروبوں اور مالیوں تک اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دینے لگے۔اب جو کو دیگر عوامی مسائل کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے شہر میں نئی بسیں چلائیں اور ٹرانسپورٹ نظام بہتر بنایا۔ غریبوں کے لیے کم قیمت مکانات بنوائے۔ مخصوص مقامات میں مارکیٹیں بنائیں جہاں غریب چھابڑی والوں کو مفت دکانیں دی گئیں۔ جن پارکوں میں مجرموں کا بسیرا تھا‘ وہاں نئے درخت و پودے لگوائے اور انہیں بہتر ین تفریحی مقام بنا دیا۔ شہر میں جتنے بھی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے‘ ان کا ٹھیکہ جوکو کے کسی رشتے دار حتیٰ کہ دوست کو بھی نہیں ملا۔جوکو نے یوں شہر میں وی آئی پی کلچر‘ کرپشن اور اقربا پروری کے بخیے ادھیڑ ڈالے اور میرٹ و قانون کی حکمرانی کو پروان چڑھایا۔ وہ روزانہ کسی محلے یا کچی آبادی جاتے اور لوگوں سے گفت و شنید کرتے‘ ان کے مسائل سنتے۔ یوں انہوں نے براہ راست عوام سے تعلق رکھنے کا سلسلہ شروع کیا جوآج بھی جاری ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418946 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More