سیاسی دوغلا پن

ہر کسی کی گود کو اپنا نا راکھیل ازم کا بنیادی اصول و خاصہ ہے ۔ جہاں پر اپنا مفاد دیکھا وہیں پر جھک گئے ۔ سیاسی اکابرین میں سے کئی ایسے نام ہیں جنہیں عوام نے ان کے کردار سے پذیرائی عطا کی اور عزت سے نوازا لیکن انہیں عزت راس نہیں آئی ۔ان خود ساختہ فرزندان قوم وملت کی فہرست سے ہر سیاسی اگاہی رکھنے والا واقف ہے ۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جسے بھی قدرت عطا کی اکثریت نے اسے خدائی عطا کی بجائے اسی اپنی کاوش وسعی کا امتیاز قرار دیا ۔ سیاستدانوں نے معاشرے کو عوام کیلئے زندان بنا چھوڑا ہے ۔ ہر قانون اور ضابطہ کا اطلاق صرف عوام پر ہوتا ہے ۔ ہر صاحب اقتدار اور اختیارآئین اور قانون سے بالاتر ہے ۔

مشرف ایمرجنسی اکیلے ڈکلیئر کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کا ساتھ دینے والے اب یا تو حکمران جماعت کا حصہ بن چکے یا پھر مضبوط اپوزیشن کی پناہ میں ہیں ۔ پہلی دفعہ انصافی ہوا کا جھونکا محسوس کیا ۔ میں مشرف کو آئین اور قانون کا مجرم ہونے کے ساتھ اسلام دشمن بھی قرار دیتا ہوں ۔ مشرف نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا اور اپنے ادارے کی قوت کے زور پر آئین اور قانون کو بوٹ تلے روند ڈالا ۔ مشرف نے اﷲ اور رسول کی تابعداری کی بجائے امریکہ کے خوف اور حمایت کو اہم جانا ۔ مشرف اگر چاہتے تو اس وقت آئین کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو ایک ادارے کا ملازم جانتے ہوئے رٹیائرمنٹ قبول کر کے ایک طرف ہو سکتے تھے ۔ انہوں نے طاقت کا استعمال کیا تو کیا یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ اس میں اور بھی دوستوں کی مشاورت ہر حال میں شامل ہے ۔اس مشاورت اور اس وقت اس کی مدد کرنے کو اعانت جرم قرار دینا کسی طور بھی غلط نہیں ۔ اگر مشرف کو آئین کا باغی قرار دیا جا ئے تو اس کی مشاورت اور اعانت کرنے والے کیونکر بری الذمہ قرار دئیے جائیں ۔ یہ انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے ۔ اگر مشاورت کرنے اور اعانت کرنے والے اچھا کرتے تو اس کو نہ کر دیتے ۔ اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جاتے ۔ مشرف کبھی اس اقدام کو نہ کر پاتا ۔ عہدے بچائے گئے مراعات لی گئیں تو پھر جرم میں اعانت تو بنتی ہے ۔

آگے چل کر مشرف کے مارشل کو سیاسی بیساکھی فراہم کرنے والی سیاسی قیادت بھی مشرف کے اقدامات اور جرائم میں پوری طرح شریک ہے ۔ اگر یہ اسے سیاسی بیساکھی فراہم نہ کرتے تو یقینا وہ سیاسی طور پر بے سہارا ہو کر آئینی اور قانونی جواز کی چھتری تلے پناہ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا ۔ جن ججوں نے اس کے حق میں فیصلہ دیا وہ بھی کوئلے کی دلالی میں ہاتھ اور منہ کالا کرنے سے کیسے مبرا قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔ آئینی اقدامات کو سیاست کی نظر کرنے اور ان پر صرف نظر کرنے سے ہی ڈکٹیٹر شپ کو ہو ا اور حوصلہ دیا گیا ہے ۔ موقع پرست اور خوشامدی افراد نے اپنے مفادات کیلئے آئین اور قانون کو زرخرید لونڈی بنا دیا ۔یہ حقیقت کچھ چھپی نہیں کہ کس نے کس موقع پر کیا کیا تو پھر اس کی پردہ پوشی کیسے ممکن بنائی جا رہی ہے ۔ ایک شخص کو قربانی کا بکرا بنانے سے کیا پوری ہسٹری کا صدقہ ہو جائے گا ۔معاشرے انصاف کے سہارے ہی زندہ رہتے ہیں ۔ قربانی کے بکروں کے صدقے پر معاشرے کی گرتی دیواروں کو سہارا نہیں دیا جا سکتا ۔ اس کیلئے انصاف کی ستون کھڑے کرنے ہوتے ہیں ۔ سیاسی مافیا نے عوام کو سیاسی زندان میں قیدکر رکھا ہے ۔ مفاد پرست لوگ معاشرے میں سیاسی عہدوں پر قبضہ کر چکے ہیں ۔ ہر سیاسی جماعت پر اہل ثروت حضرات کاآستانہ ہے تو غریب کی جگہ کہاں ہے ۔ سیاست کو دھن دولت کی شاہراہ بنادینے سے عام متوسط آدمی اس شاہراہ کی تیزرفتار ٹریفک کے زد میں آکر کچلا جاتا ہے ۔ سیاسی شاہراہ پر عوام اور عوام دوست عناصر کی عدم موجودگی سے طبقہ اشرافیہ کے نمائیندے اپنے مفادات کے گھوڑے سر پٹ دوڑا تے چلے جا رہے ہیں ۔ ان کے قدموں سے اڑنے والی دھول میں عوامی مفاد گم ہو چکے ہیں ۔ پھر بھی عوام خوبصورت جسیم اور خاندانی وجاہتوں پر اپنی چاہتیں نچھاور کرنے پر مجبور ہیں ۔

باوجود اس کے عوام کوسیاسی مافیا نے مسلسل دھوکے میں رکھا پھر بھی سیاسی کار کو چلانے کیلئے سسٹم کو بچانے کیلئے اسے ڈی ریل ہونے سے بچانا ضروری ہے ۔ اس میں بالیدگی اور بالغ نظری سے تبدیلی کی طرف سفر کا آغاز کیا جانا چاہیے ۔ الیکشن کمیشن کو سیاسی پارٹیوں کے ایکٹ اور اس کی ممبر شپ میں تبدیلی کیلئے قدم بڑھانا چاہیے ۔ کوئی بھی سیاسی کارکن اور لیڈر یہ ثابت ہونے پر کہ اس نے مفاد پرستی کے تحت پارٹی تبدیل کی ہے کو سیاسی منجدھار سے ریڈکارڈ دکھانا ضروری ہے ۔ اس وقت سیاسی پارٹیوں کے ایم این اے اور ایم پی اے سیاسی جماعت کے لیڈر کے زرخرید غلام ہیں ۔ وہ پارٹی کے سربراہ کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ اس وقت کی سیاسی قیادت اپنی پارٹی سربراہ کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائیندہ ہے انہیں عوامی نمائیندہ کہنا غلط ہے ۔ یہ پارٹی سربراہ کی اجازت کے بغیر نہ تو کوئی تجویز پیش کر سکتے ہیں نہ کوئی قانون پاس ہونے پر ووٹ کر سکتے ہیں ۔ پارٹی پالیسی پر ربڑسٹمپ ان نمائیندوں نے کبھی عوامی استحقاق پر آواز بلند نہیں کی۔ بجلی کی قیمتیں کہاں چلی گئیں ان کو پرواہ نہیں ، گیس ناپید ہوگئی انہیں کوئی خبر نہیں ، پیڑول کی قیمت سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ، آٹا گھی سبزی دال سے انہیں مرغوب نہیں ۔ ان کا کون سا رنگ عوامی ہے جس کی بنیاد پر یہ عوامی نمائیندے قرار دئیے جاتے ہیں ۔ کون سی جمہوری قدر قائم کی گئی جس کی بنیادپر جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے ۔

عوام ہیں کہ ہر طرف منتظر ہیں ۔ انصاف کے یہ منتظر ،امن سلامتی کا انہیں انتظار ،کاروبار نوکری کی یہ راہ دیکھتے ہیں ۔ سیاستدان یا تو گذرئے ہوؤں کو زندہ ثابت کرنے پر مصر ہیں یا پھر زندہ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔ پارٹی ٹکٹ ایسی چیز ہے جو منتہائے نظر ہے عوامی نمائیندگی تو ایسے ہی جیسے شاہراہ پر لگے ہوئے لوہے کے بورڈ پر سنگ میل لکھے ہوتے ہیں لاہور 365کلومیٹر ۔ اس لوہے کے بورڈ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہر خاص وعام کو اس پر لکھے ہوئے حروف سے مطلب ہوتا ہے ۔ سیاسی کو بھی پارٹی ٹکٹ سے غرض ہے اسے عوام جو کہ جمہوریت کی اساس ہیں سے کوئی غرض نہیں ۔ جہاں اور جس پارٹی سے انہیں مفاد کی تکمیل نظرآتی ہے سیاستدان اسی طرف لڑھک جاتے ہیں ۔ جمہوری رویے ہی جمہوریت کش ہوں تو جمہوریت کی تعمیر وترقی کے خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہوگی ۔ جمہوری ڈھانچے کی از سرنو تعمیراور اس کی اخلاقیات مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈرشپ سے خیر کی امید رکھنا عبث ہے ۔ جن جماعتوں نے موروثیت کی بنیاد رکھی ہو ان سے جمہوری رویوں کی امید بھی سرآب ہے ۔ الیکشن کمیشن جو کہ ملک میں سیاسی شاہراہ کی تعمیر اور نگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہے کو چاہیے کہ وہ اس شاہراہ کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے قوائد و ضوابط کو از سر نو مرتب کرے ۔ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے ۔ وقت پر کیا ہوا کام بے وقت کی مشقت سے بچاتا ہے ۔ آمریت کو دعوت دینے والے اور آمر کا سہارا بننے والے سیاستدانوں کا احتساب کر کے سیاست کو سیاسی دوغلا پن سے کافی صاف کیا جا سکتا ہے ۔ وقت بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے ۔
Malik Abbas
About the Author: Malik Abbas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.