زیرِ علاج پاکستان کے بے رحم مُعالج

 پاکستان ایک نظریاتی ،نور بھری سلطنت ہے دنیا کے نقشے پراس کا قیام قدرت کا عظیم انعام ہے پاکستان کا وجود جہاں رب کائنات کا ایک منفرد احسان ہے وہاں یہ سیدالمرسلین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کی برہان ،تحفہ قرآن اور اولیاء کا فیضان ہے، یہ مجاہدوں ،غازیوں اور شہیدوں کی ایک انمٹ داستان ہے، یہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے بھر پور ایک کان ہے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ عہدِ شباب ہی میں اسے کئی بیماریوں نے گھیر لیا ہے یہ روگ زدہ پاکستان اپنی نظریاتی روح کی قوت کے بل بوتے پر بیماریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے ۔

اکھنڈ بھارت کی سوچ،نام نہاد روشن خیالی،کرپشن ،لسانیت ،صوبائی تعصب ،دین کے نام پر دغا ،زہر آلود نظامِ تعلیم ،ظلم و ستم اورفراڈ وغیرہ کے جراثیم جسدِ پاکستان میں سرایت کر چکے ہیں اور اسے کمزور کرنے میں مسلسل مصروف ہیں،اسے غیر ملکی مداخلت اور دہشت گردی کے گہرے زخموں کا بھی شدت سے سامنا ہے ،غربت اس کے لیے دردِ سر ہے،حکومتیں اس کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کرتی آرہی ہیں ۔اس کے باسی جمہوریت اور حب الوطنی کے نام پر باربار ڈَسے جا چکے ہیں۔

جب بھی کوئی پاکستان کی خوشحالی کی بات کرتا ہے تو لوگ اچھلنا کودنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی پاکستان کے مسائل کے حل کا نعرہ بلندکرتا ہے لوگ اس کے نعرے بلند کر تے ہیں اور اسے اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں۔ پاکستان کی غربت وہ طاقت جسے استعمال کر کے لوگ حکمران بنے غریب تو غریب تر ہوا مگر اس کی غربت نے کئی جاگیردار اور سرمایہ دار جنم دیے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے سہارے کچھ لوگ سرے محل تک جا پہنچے، عوام دوستی کے نعرے پر کچھ لوگوں کے گھوڑے بھی مُرَبّے کھاتے رہے، کچھ لوگوں کی فیکٹریاں حساب سے باہر ہوئیں اورپیسہ بیرونی بینکوں تک جا پہنچا مگر غریب غربت کے بیرکوں سے نجات نہ پا سکا ۔

بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے آپ کو پاکستان کا معالج قرار دینے والوں میں اکثرپاکستان کے نظریاتی مزاج ہی سے واقف نہیں علاج کیا کریں گے یہ مختلف الانواع معالج کاروباری ،بیوپاری ،بھکاری ،زرداری ،مداری ،کھلاڑی اور اناڑی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی پاکستان کا حقیقی معالج نہیں ہے بلکہ یہ بے رحم معالج پاکستان کے لیے خود ایک مستقل بیماری ہیں ہمارے ملک کی بہت سے پارٹیاں ڈائس سے ہٹ کر ڈانس پارٹیاں بن چکی ہیں۔ان میں سوچ کی جگہ گالی گلوچ ،سنجیدگی کی جگہ کشیدگی اور معنی خیزی کی جگہ اشتعال انگیزی نے لے لی ہے ان میں فحاشی، الزام تراشی، بدمعاشی اور عیاشی کا کلچر عام ہو چکا ہے ۔پہلے پہر اور پچھلے پہر موقف بدلنے کو سیاست قرار دیا جا رہا ہے جھوٹ اور منافقت کو قیادت کہا جارہا ہے۔ اربابِ اقتدار اور اس کے اصحابِ انتظار کی کُشتی کی دھول کاپوری قوم خمیازہ بھگت رہی ہے۔ضرب عضب کی تڑتڑاہٹ ،تھر کی تھر تھراہٹ اور آئی ڈی پیز ( Despoiled Persons Internlly )کی کپکپاہٹ کی طرف کوئی دیکھ نہیں رہا ۔امداد چاہنے والوں کو استبداد کا سامنا ہے سیاسی جلسے عریانی فحاشی کے مخلوط میلے بن گے ہیں خواتین جلسوں میں بطور مستورات نہیں بلکہ بطور مقابلہ حسن اور ماڈلنگ کے لیے لائی جارہی ہیں سیاسی افق گرد آلود اور اندھیر ہو چکا ہے۔

کٹھ پتلیوں او رتتلیوں سے ملکی استحکام کی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ سیاست جو خدمتِ خلق کا مقدس شعبہ تھا اس کی عینک میں مفادات کے شیشے فکس کر دیے گئے ہیں۔ زخمی پاکستان کے علاج کی بجائے بے رحم معالج پاکستان سے مذاق کرنے میں مصروف ہیں قوم کی حکمرانوں سے وابستہ امیدیں دھری کی دھری رہ گئی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ کچھ تو ان کے ذوقِ اقتدار پرغالب خوئے کاروبار ہے، کچھ ان کا دہشتگرد تنظیموں پر انحصار ہے اور یہ بھی ہے کہ ان کے چند وزیروں اور مشیروں کا ٹولہ بیکار ہے ۔

ایک سنگین مذاق 14 اگست کو دھرنوں کی شکل میں شروع ہوا اور پھر اس نے جلسوں کا رخ اختیار کر لیا۔ تا حال پاکستان اسی گرج اور گرد کی کیفیت سے گذر رہا ہے۔عمران خاں بہت باخبر ہوگا مگر پاکستان کی پاکستانیت سے بے خبر ہے اس لیے کہ اس کے مجوزہ نئے پاکستان میں ہمیں نظریہ پاکستان کی جان نظر نہیں آتی ۔ اس نے جب یہ کہہ دیا کہ مودی جیسا بھی ہے ایماندار تو ہے اب اس کے بارے میں افسوس کرنا بھی ناقابل افسوس ہے۔

زیر علاج پاکستان کے ساتھ جو مذاق طاہر القادری نے کیا وہ بڑا بے باک ،المناک ،شرمناک اور خطرناک ہے۔اس نے تمام طبیبوں سے پاکستان کی نبض چھڑاتے ہوئے کہا کہ پیچھے ہٹو!اس کا علاج میرے پاس ہے پہلے تو اس نے علاج کیلئے ایک کروڑ نمازیوں کی شرط لگائی ،پھر اس نے یہ شرط ختم کر دی اور غریب عوام سے تھوڑا بہت لے کر اس نے پاکستان کی تمام بیماریوں کا علاج اسلام آباد میں دھرنے کو قرار دیا۔اگرچہ اس دھرنے کے لئے کچھ لوگوں کو مرنا بھی پڑا لیکن اس کا اصرار تھا کہ پاکستان کے ہر دکھ درد کا علاج صرف اور صرف دھرنا ہی ہے۔ بہت سے لوگوں کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم رہا اور بالا ٓخردھرنے کے لیے نکل پڑا اس نے دھرنے میں بیٹھنے کو عظیم عبادت ،تاریخ ساز کردار ،راہ ِکربلا ،بڑے جہاد ،حج اور لیلۃ القدر سے بڑا مقام دیا دھرنے میں شامل نہ ہونے والوں کا گھر بیٹھنا حرام قرار دیا۔ بار بار حکومت گرائے بغیر واپس جانے کو ممنوع قرار دیا انقلاب کے بغیر اسلام آباد سے اپنی واپسی کو باعثِ قتل جرم قرار دیا۔ غریب ملک پاکستان کے کروڑوں روپے خرچ کیے پاکستانی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا 80 دن تک ڈرامہ رچاکر قوم کا قیمتی وقت ضائع کیا ،دعووں اور دھمکیوں کا خوب استعمال کیا ،وعدوں اور قسموں کا بے دریغ خون کیا ۔موصوف کے بقول سینکڑوں کارکن شہید ہوئے کئی اہل کار جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے رستے بند اور کاروبا ر ٹھپ ہوئے وزیرستان کے دس لاکھ بے گھر ہونے والے افراد توجہ خاص سے محروم ہوئے ضرب عضب آپریشن کے غازی اور شہید پس منظر میں چلے گئے۔ شاہراہ دستور پر دستور کے پرخچے اڑے پارلیمنٹ اورپی ٹی وی پر حملے ہوئے جس سے چین کے صدر سمیت کئی ممالک کے سربراہان کے دورے منسوخ ہوئے شاہراہ دستور اور ڈی چوک سے منسلک گرین بیلٹ پربیت الخلاء بنے ۔دھرنے ماحولیاتی غلاظت اور جنسی آلودگی کا باعث بنے ،ساٹھ دن تک عورتیں اور بچے ڈھال بنے ،لوگوں کو دھرنے میں بٹھائے رکھنے کے لیے اسلامی تعلیمات کی غلط تشریحات کے فتوے صادر ہوئے ،کئی ہنستے بستے گھر اجڑے پوری دنیا میں پاکستان کی رسوائی کے قصے بنے ،یہ تھی انٹرنیشنل اسیٹبلشمینٹ کی تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ اور اس کے مہروں کا تھوڑا سا مذاق،پھر کیا ہوا:انقلاب یا شہادت کی روزانہ تسبیح پڑھنے والے نے صرف اتنا کہہ کر بساط سمیٹ لی کہ اﷲ نوازشریف کی حکومت کو فورًا گرانا نہیں چاہتا سارے حلف پامال ہوئے، ساری قسمیں ٹوٹ گئیں، سارے دعوے ہَوا ہوئے۔ کہاں گئے اس کے یہ عہدوپیمان ’’اگر آپ سارے بھی چھوڑ کے چلے جائیں توتاجدار کائناتﷺ کے مدینہ و گنبد خضریٰ کی قسم میں آپ کے لیے تنہا بیٹھا رہوں گا۔‘‘ دھرنے کے خاتمے پر دھاڑیں مار کر رونے والے مردو زن کے آنسو تو شاید ان کو مائل بتوبہ کر دیں مگر اپنی ناکامیوں کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنانے والے کو کیا احساس ؟اس بھیانک دھرنے کے عریانی فحاشی کے داغ اور اخلاقی اقدار کی پامالی کے دھبّے کتنی برساتوں سے بھی نہیں اتریں گے ۔اقبال نے کہا !
مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

بچے کھچے فریب خوردہ انقلابیوں کی خواہشات پر بالآخر نواز شریف کی نوازشات نے پانی پھیر دیا اور شاہراہ دستور پر انقلاب کے خواب چکنا چور ہونے پر انہیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا،کچھ کے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں تھا مگر پچھلوں کو مطمئن کرنے کا جواب تو کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ پاکستانی میڈیا بڑا رمز آشنا ہو چکا ہے ۔اس نے شیخ الالہام کے اس جملے سے کہ’’ اﷲ نواز حکومت کو فورًا گرانا نہیں چاہتا ‘‘فورا اخذ کرلیا کہ جس منہ سے حکومت کو فرعون ،یزید ہٹلر ،اور مسولینی کی حکومت کہا جاتا رہا صبح شام یا ’’تم نہیں یا ہم ‘‘کا الٹی میٹم دیا جاتارہا روزانہ حکمرانوں کو ہتھکڑیاں پہنانے اور گریبان سے پکڑنے کی باتیں ہوتی رہیں۔ آج اسی منہ سے حکومت کے لیے تائید ایزد ی کا اعلان بتا رہا ہے کہ اس واعظ نے کسی حوضِ نوازشات سے غرارے کر کے لہجہ بدل لیا ہے پھر کیا ہوامیڈیا میں گذشتہ دھرنے اور اس دھرنے کے ریٹ کے تقابل ہونے لگے کسی نے کہا گزشتہ حکومت کے خلاف دھرنے کا 35 کروڑریٹ لگا اب 65 کروڑ ہے ۔ایک نجی ٹی وی جو اس پورے ڈرامے کی کوریج میں پیش پیش تھا اس نے 2 ارب کا ریٹ بتا کر سب کو چُپ کر ا دیا ۔اب نوبت یہاں تک پہنچی اس پس منظر میں جب کہا جائے دال میں کچھ کالا ہے تو جواب ملتا ہے کچھ ہی کالا ہے ساری دال تو کالی نہیں ۔ہم مان لیتے ہیں کہ پوری دال کالی نہیں لیکن دین کو نفسانی خواہشات کی تسکین کیلئے بے دردی سے استعمال کرنے کی وجہ سے جو لوگوں کا دین سے اعتماد اٹھا ہے یہ نقصان پوراکون کرے گا؟ پاکستان میں اصلاح نظام کی صحیح اور سنجیدہ قوتوں کوجو شدید دھچکا لگا ہے اس کی تلافی کیسے ہو گی؟ دھرنے سے ملنے والی رسوائی سے فیس سیونگ کے لیے طاہر القادری نے امریکہ سے واپسی پر بیٹری چارج کروانے کے بعد جلسوں کا رخ کر لیا ہے۔ اس سے پوچھنا چاہیے جب آپ کے بقول اﷲ نواز شریف کی حکومت کوفورا گرانانہیں چاہتا اس لیے دھرنا ناجائز ہو گیا تو حکومت گرانے کے لیے جلسے کرناکیسے جائز ہوگیا۔ کیا موصوف کے گمان کے مطابق عرش کا فیصلہ دھرنوں اور جلسوں کے بارے میں جدا جدا ہے اصل میں اصل کہانی تو اب ختم ہو چکی ہے۔ اب جلسے حکومت گرانے یا انقلاب لانے کے لیے نہیں بلکہ دھرنے کی ہزیمت کی خفت مٹانے ،ڈیل پر لعنت برسانے اور روٹھے کارکنوں کو منانے کے لیے ہیں ہم ڈیل کے بارے میں نہیں بولتے مگر وارنٹ گرفتاری اور اشتہاری کے جرائم کی طویل فہرست کے باوجود حکومتی ڈھیل مسلسل کچھ بول رہی ہے اور پول کھول رہی ہے۔ ویسے تو موصوف نے خود ہی دھرنے کی اختتامی تقریر میں ُمکاّ لہرا کر مُک مُکا کی طرف اشارہ کر دیاتھا ۔

لوگ کہتے ہیں طاہر القادری کو اسلام آباد پر چڑھائی اور ماڈل ٹاؤن سے لے کر دھرنے کے اختتام تک 80 دنوں کی اعضاء کی شاعری سے کیا ملا ہے؟ سچ یہ ہے کہ انقلاب ملا نہ استعفیٰ، حکومت گری نہ ہتھ کڑی لگی، قصاص ملا نہ شاباش بلکہ جس کرپٹ نظام پر حملہ کرنے نکلے تھے اسی کا حصہ بن کے واپس لوٹے۔ انتخاب نہیں، انقلاب کی رَٹ لگانے والے عملًا انتخاب انتخاب کرتے واپس ہوئے بلکہ عام انتخابات کا انتظارکیے بغیر دھرنے کے خاتمے کی ندامت کے دباؤ میں ضمنی انتخاب میں ہی حصہ لینے کا اعلان کر دیا اور بھکر کی صوبائی سیٹ کے ضمنی ا لیکشن میں ایک رافضی امیدوار کو عوامی تحریک اور اپنی اتحادی جماعتوں کاامیدوار بناکے اور ایڑی چو ٹی کا زور لگاکے اسے ایک آزاد امیدوار سے بھاری ہزیمت سے ہروابھی لیا ہے بلکہ انتخاب ہی میں موصوف کی طیبعت خراب ہو گئی ہے پتہ نہیں کالم نگاروں کو کیا ہے؟ انہیں موصوف کی بیماری میں بھی کچھ کالا کالا نظر آتاہے ۔

۔‘ بھکر کے ضمنی انتخاب نے طاہر القادری کو آئینہ دکھلا کر اس کے انقلاب کے رہتے خواب بھی تتر بتر کر دئیے ہیں اس نے صوبائی سیٹ جیتنے کے لیے بھکر میں تین دن ڈیرے لگائے اور نذر عباس کہاوڑ کے الیکشن لڑنے کو اپنا الیکشن لڑنا قرار دیااور عوام سے کہا ملک نذر عباس کو ووٹ دیتے وقت تم نے میرا چہرہ سامنے رکھنا ہے اس کے باوجود حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے دو امید واروں نے 94606 ووٹ حاصل کیے اور طاہر القادری کے امید وار نے محض 13500 ووٹ حاصل کیے۔ طاہرالقادری نے تووہاں انتخابی کمپین میں کہا تھا مجھے تم ملک میں دو تہائی اکثریت دے دو تو میں نظام بدل دو ں گا پورے ملک میں دو تہائی اکثریت تو بڑی دور کی بات ہے عوام نے طاہرالقادری کو ایک صوبائی حلقے میں بھی دو تہائی اکثریت نہیں بلکہ دو تہائی سے بھی زائد اقلیت کا تحفہ عطا کیا ہے یہاں تک کہ کہاوڑ برادری ایک سردار کے بقول 13500 ووٹوں میں صرف 2000 ووٹ طاہر القادری کے ہو سکتے ہیں باقی کہاوڑ برادری اور اس کے ذاتی اثر و رسوخ کے ہیں ۔کھودا پہاڑ اور نکلا لاکھوں ووٹوں میں سے صرف دو ہزار ۔

موصوف نے پہلے کہا انتخاب نہیں انقلاب پھر دھرنا ختم کر کے یہ کہا انتخاب انقلاب ساتھ ساتھ اب انتخاب نے تو طاہرالقادری کے انقلاب سے معذرت کر لی ہے اب اس کی صورتحال یہ ہے کہ ’’نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘

یہ حقیقت ہے کہ عوامی رائے کوئی معیار نہیں اور اس پرکبھی اہل حق کا انحصار نہیں معیار تو عظمت کردار ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر تحریک نظامِ مصطفیٰ ﷺ اور آج تک ہمارے اکابرین کی عظمت وکردار کے مخالفین نے بھی نغمے گائے ۔تاریخ نے حضرت مولانا امام شاہ احمد نورانی کی چادر سیاست کو چوم کر اس کے با اصول او ر بے داغ ہونے کی گواہی دی مگر میڈیا میں اور زبان خلق پر جو طاہر القادری کی داستانیں ہیں العیاذ والحفیظ

مقام افسوس یہ ہے کہ موصوف کو مسلک اہل سنت کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہ سب کچھ اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ یہ کام ہمارے مسلکی مخالفین کا ہے جنہیں مسلک اہلِ سنت پر طعن و تشنیع کے لئے اس شخص کا وجود غنیمت محسوس ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ اسے بے خبری میں اہل سنت کہہ دیتے ہیں۔ ہاں کچھ فریب خوردہ اورکچھ فروٹ خوردہ بھی اسے سنی قرار دیتے ہیں ،اگر کوئی موصوف کو مسلکِ اہل سنت کی طرف اس لیے منسوب کرتا ہے کہ اس کی ولادت سنی گھرانے میں ہوئی تویہ تو ٹھیک ہے اور اگر کوئی اسے سنی اور اہل سنت کا نمائندہ قرار دیتا ہے تو یہ سراسر غلط ہے۔مسلک اہلسنت کو ہر گز اس شخص کے کردار کا ذمہ دار نہ قرار دیا جائے۔ کہاں چودہ صدیوں میں اہلسنت کے ٹھوس عقائد اور خوبصورت معمولات اورکہاں اس شخص کے بہت سے غلط نظریات ،بے تحاشا خرافات اور نازیبا حرکات ۔ہمیں تو شدید قلق ہے کہ ہمارے مشرب میں قادری کرم نوازیوں کی اصلاح تھی مگر اب قادری قلابازیوں اور قادری شعبدہ بازیوں پر کالم لکھے جا رہے ہیں ۔جو نہایت قابل افسوس ہے۔

نومبر کے آخر میں اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے نعرے کے تحت مینار پاکستان کے سائے تلے بھی پاکستان کے لیے ایک شفا خانہ قائم کرنے کا ڈھنڈوراپیٹا گیا مگر یہ بھی علاج کے نام پر ایک فراڈ اورڈرامہ تھا کیونکہ اس اجتماع میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے رسول اﷲﷺ کی تلوارعضب کی طرف منسوب آپریشن کو جو پاکستان کی سا لمیت کے لیے ناگزیر ہے ڈرامہ کہا۔اس شخص کونسبت رسول ﷺکا کوئی پاس رہا اور نہ ہی افواج پاکستان کے بہتے لہو کا کوئی احساس رہا ۔ اصل میں جن لوگوں کے اکابر نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی ان کی نسل میں اب بھی یہ جراثیم موجود ہیں۔ جنہیں اس وقت کانگریسی علماء کہا گیا آج بھی ان کے بیانات سے ملک دشمنی کی بو آرہی ہے۔ جنہوں نے کل پاکستان بنانے کو گناہ کہا تھا آج پاکستان بچانے کو ثواب کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے کہا اب جمہوریت نہیں قتال فی سبیل اﷲ کا وقت ہے ہم منور حسن کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس کے خلاف فوری ایکشن کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

منور حسن کا ایجنڈا ملک میں جمہوریت کی جگہ قتال سے خلافت قائم کرنے کا ہے یہی داعش کا ایجنڈا ہے۔ کیا ستم ہے جماعت نے مینارِ پاکستان پر داعش کاایجنڈا پیش کرنے کیلئے لوگ اکٹھے کئے جو مینار کے قائل ہیں اور نہ ہی پاکستان کے ۔داعشی کہہ سکتے ہیں مینار پاکستان بدعت ہے کیونکہ رسول اﷲ ﷺ مدینہ شریف میں ریاست قائم کرنے کے بعد کوئی مینار نہیں بنایا تھا یہ وقت ہے کہ پاکستان کو ایسے بے رحم معالجوں سے نجات دلائی جائے ۔میں پاکستان کے ان مختلف الانواع معالجوں سے یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے روگ کا علاج صرف اور صرف شفا خانہ حجاز میں ہے نیا پاکستان بنانے والوں اور پرانے پاکستان کی حفاظت کے دعوے داروں کے لیے یہ فرمان رسول اﷲ ﷺ مینارہ نور ہے ۔البدورالسافرہ ص 201پہ ہے:
اِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ وَجَمَعَ اللّٰہُ الْاَوَّلِیْنَ وَالآْخِرِیْنَ فِیْ صَعِیْدٍ وَّاحِدٍ اَحْضَرَ الْمُلُوْکَ وَغَیَْرَہُمْ مِنْ وُلَاۃِ اُمُوْرِ النَّاسِ فَیَقُوْلُ لَہُمْ اَلَمْ اُمَکِّنْکُمْ مِنْ بِلَادِیْ وَاُطِعْ لَکُمْ عِبَادِیْ لَا لِجَمْعِ الْاَمْوَالِ وَحَشْدِ الرِّجَالِ بَلْ لِتَجْمَعُوْہُمْ عَلَی طَاعَتِیْ وَتَنْفُذُوْا فِیْہِمْ اَمْرِیْ وَنَہِْیِیْ وَتُعِزُّوْا اَوْلِیَائِیْ وَتُذِلُّوْا اَعَْدَائِیْ وَتَنْصُرُوْا الْمَظْلُوْمِیْنَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ۔

جب قیامت کا دن ہو گا اﷲ تعالیٰ ایک میدان میں تمام اولین آخرین کو اور تمام انسانیت کے سلاطین اور بادشاہوں کو اکٹھا کرے گا پھر اﷲ تعالیٰ بادشاہوں سے کہے گا کیا میں نے تم کو اپنے ممالک پر کنٹرول نہیں دیا تھا اوراپنے بندوں کو تمہارا فرمانبردار نہیں بنایا تھا؟ میں نے یہ اس لیے نہیں کیا تھا کہ تم مال اکٹھا کرو اور اپنے خدام جمع کرو بلکہ میں نے تمہیں اس لیے حکومت دی تھی کہ تم لوگوں کو میری فرمانبرداری پر جمع کرو اور ان پر میرا حکم نافذ کرو ،میرے اولیاء کی عزت کرو( میرے دوستوں کو غالب کرو) ، میرے دشمنوں کو ذلیل کرو اور ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کی مدد کرو۔

چنانچہ زیر علاج پاکستان کی شفا کے لیے امریکہ اور برطانیہ کی طرف، یہودو نصاریٰ کے افکار کی طرف اور نام نہاد روشن خیالی کی طرف متوجہ ہونا ہرگز جائز نہیں پاکستان کی شفا صرف اور صرف قرآن و سنت میں ہے ۔شاعر مشرق نے کہا
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان
سفالِ ہند سے میناء و جام پیدا کر
علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا
تیری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali
About the Author: Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali Read More Articles by Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali: 14 Articles with 13270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.