عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے’’
سالانہ کینسر رپورٹ دوہزار چودہ ‘‘ میں سروے کے بعد رپورٹ جاری کی ہے جس
میں تشویشناک حد تک بتایا گیا کہ آنے والے عشروں میں کینسر کے مریضوں میں
تیزی سے اضافہ ہو گا۔ کینسر کی بیماریاں جن میں پروسٹیٹ ، پھیپھڑے اور
چھاتی کے ٹیومر میں مبتلا افراد کی اموات کا امکان ہے رپورٹ میں بتایا گیا
کہ اعداد وشمار کے مطابق کینسر میں مبتلا افراد کی رہائش یا خطے کے پیشِ
نظر اس بیماری میں اضافہ ہو گا ،ادارے کا کہنا ہے چین اور ہندوستان کے
علاوہ کئی ترقی پذیر ممالک میں کینسر کی دیگر اقسام میں مبتلا افراد کا
مزید اضافہ ہو گا علاج معالجے کے باوجود لاکھوں افراد اس موذی مرض میں
مبتلا ہو کر موت کا شکار ہونگے،اگر آنے والے بیس سالوں کے دوران ترقی پذیر
ممالک نے ماحولیاتی آلودگی ، اشیائے خورد نوش اور تمباکو نوشی میں احتیاط
نہ برتی اور کوئی لائحہ عمل یا ٹھوس اقدامات نہ کئے تو اموات میں کئی گنا
اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر مغربی یورپ میں کینسر کے امراض میں
واضح کمی واقع ہوئی جبکہ مشرقی یورپ ، افریقا اور ایشیا کے کئی ترقی پذیر
ممالک میں اضافہ ہوا ہے ،کینسر پرطویل تحقیق کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ
کیا کہ جن ممالک میں ماحولیاتی تبدیلی میں تیزگی اور آلودگی کی شرحِ مقدار
میں اضافہ ہوا اسکے سبب پروسٹیٹ ، پھیپھڑوں اور چھاتی کے ٹیومر میں مبتلا
ہو کر ہزاروں افراد کی اموات ہوئیں۔
مطالعے کے نتائج سے یہ ثابت ہوا کہ مغربی ممالک میں کینسر میں مبتلا افراد
کی تعداد گھٹ کر تینتالیس فیصد رہ گئی جبکہ دنیا بھر میں باسٹھ فی صد افراد
اس مرض میں مبتلا ہو گئے،اعداد و شمار کے مطابق شمالی ، وسطی اور جنوبی
یورپ میں کینسر کی شرح میں بتدریج کمی واقع ہوئی اور مشرقی یورپ میں کینسر
کے لاتعداد کیسز سامنے آئے جن میں معقول اور مکمل علاج نہ ہونے پر کئی
افراد موت سے ہمکنار ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں پھیپھڑوں اور چھاتی کے کینسر میں
مبتلا افراد میں کئی گنا اضافہ ہو اجن میں ایشیا کے ممالک سر فہرست ہیں۔بین
الاقوامی ٹیم یورو کئیر نے طویل تحقیق کے بعد ایک معروف میگزین کو بتایا
سال دوہزار سے دو ہزار سات تک کے اعداد وشمار کے مطابق یورپ کے انتیس ممالک
میں نو میلین بالغ اور ساٹھ ہزار بچوں میں کینسر کے امراض پائے گئے، جبکہ
دنیا بھر میں کینسر کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد یورپ سے کئی گنا
زیادہ ہے، یورو کئیر کے ماہرین نے بتایا کہ کینسر کے علاج میں جدید ترقی
ہونے کے باوجود مجموعی طور پر اسکی روک تھام اور قابو پانا مشکل ہوتا جا
رہا ہے،مغربی ممالک میں کئی اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں
اسکے علاج کی رفتار نہایت سست ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غربت اور ماحولیاتی
آلودگی شامل ہیں۔
ادارے کے سائنسدانوں نے کینسر کے امراض اور وجوہات کی تحقیق کے بعد وضاحت
سے بتایا کہ علاج کیلئے مالیاتی اخراجات ، ریاستی نظامِ صحت کے موثر
اقدامات نہ ہونے کے سبب کئی افراد معمولی بیماری میں مبتلا ہو کر موت کا
شکار ہوجاتے ہیں،کسی بھی بیماری کے علاج کیلئے ریاستی نظام صحت کے ادارے کا
کردار بہت اہم ہوتا ہے، علاوہ ازیں ادویات کا دستیاب نہ ہونا اور نامکمل
علاج کی صورت میں زندہ رہنے کے کم چانس ہوتے ہیں۔
جرمن کینسر ریسرچ سینٹر کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ کینسر کی کئی اقسام میں
مبتلا افراد کی وجوہات اکثر تمباکو نوشی ، الکوحل اور موٹاپا کے علاوہ ان
کی طرزِ زندگی ،سماجی و اقتصادی عوامل، ماحولیاتی آلودگی ،آبادی اور نظام
صحت کا اہم کردار ہے،جن ممالک میں نظام صحت اور صحت کی بقا کے منصوبے کے
تحت عمل نہیں کیا جاتا یا جدید علاج معالجے ، ادویات ،تھیراپی سے اجتناب
کیا جاتا ہے وہاں مجموعی طور پر مثبت انفرادی نتائج آنا ناممکن ہے،کیونکہ
موثر اور جدید علاج سے ہی کینسر کے کئی اقسام میں مبتلا بیماریوں مثلاً
پھیپھڑے ، چھاتی ، لبلبے اور پروسٹیٹ جیسے امراض پر قابو پایا جا سکتا ہے
یا کم سے کم انسان زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ایک مطالعے کے مطابق کینسر
کی روک تھام اور قابو پانے میں مزید بہتری آئی ہے سکریننگ اور دیگر تھیراپی
سے کینسر میں مبتلا مریضوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور دیکھ بھال سے علاج
کرنے سے مثبت نتائج کا رحجان پیدا ہوا، لیکن ترقی پذیر ممالک اور ان خطوں
میں جہاں نظام صحت کی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی بدترین مشکلات کا شکار ہیں۔
وسطی یورپ کے ممالک جہاں جدید تیکنیک سے کینسر کی روک تھام کرنے اور
قابوپانے کی کوششیں جاری ہیں اور کامیابی حاصل ہوئی۔
آسٹریا۔بیلجیم۔فرانس۔جرمنی۔سوئزرلینڈ۔نیدر لینڈ اور برطانیہ۔ |