’’گو پولیو گو ــ‘‘ کا نعرہ لگانے کی ضرورت ہے

پولیو ایک ایسا خاموش وائرس ہے جو معصوم بچوں کو زندگی بھر کے لئے مفلوج بنا دیتا ہے ۔عام طور پر اس موذی مرض کا شکار پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچے ہیں جو آلودہ پانی پیتے ہیں ۔یہ وائرس نظام تنفس پر حملہ آور ہوتا ہے اور فالج ، پھٹوں کی کمزوری ، اعضاء کی ساخت بگاڑنے اور کچھ صورتوں میں موت کا بھی سبب بن سکتا ہے ۔پولیو کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بنی نوع انسان کی تاریخ۔حضرت انسان ہر دور میں اس مرض کی تشخیص اور سد باب کے لئے کوشاں رہا ہے ۔ تاہم یہ کوششیں اس وقت تیز ہوئیں جب انیسویں صدی میں اس وائرس نے ایک وباء کی شکل اختیا ر کی ۔ایک طویل جدوجہد کے بعد یہ کوششیں رنگ لائیں اور بلآخر 1952میں امریکی ریسرچ سائنٹسٹ ڈاکٹر جوناس سالک نے پولیو کے علاج کے لئے ایک موثر ویکسین تیار کی ۔ یہ طب کی دنیا کا ایک عظیم کارنامہ تھا ۔یہ دریافت اس وقت ہوئی جب وبائی شکل اختیار کرنے والے اس مرض نے لوگوں کو دہشت زدہ کررکھا تھا ۔اس مرض کا سب سے بڑا شکا ر معصوم بچے تھے ۔لوگ اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سکول جانے ، پارک کی سیر کرنے اور کھیل کود کے لئے جانے سے روک دیا تھا ۔پولیو سے متاثرہ خاندانوں کو دوسروں سے علیحدہ رکھا جاتا تھا ۔ہر بچہ خوفزدہ تھا کہ نجانے کب وہ اس موذی مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلا جائے گا ۔ایسے وقت میں اس ویکسین کی دریافت کسی نعمت سے کم نہ تھی ۔ اس دریافت کے بعد عوام میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کے پروگرام شروع کیے گئے جن کا فوری اثر سامنے آیا۔ صرف امریکہ میں 1952 میں پولیو کے 35000 کیس تھے اور 1957 میں یہ کم ہو کر 5300 رہ گئے۔ 1961میں البرٹ سبین نے زیادہ آسانی سے دی جانے والی ویکسین OPV بنائی۔ یہ قطروں کی شکل میں تھی اور اسے پلایا جا سکتا تھا۔ویکسین کی دستیابی کے باوجود پولیو بدستور خطرہ بنا رہا جس کے 1961 میں برطانیہ میں 707 شدید کیس دیکھے گئے جن کے نتیجے میں 79 اموات واقع ہوئیں۔ اگلے سال یعنی 1962 میں OPV کا استعمال شروع کیا گیا۔ 1982 کے بعد سے برطانیہ میں مقامی طور پر کوئی پولیو کا کیس سامنے نہیں آیا ہے۔1988 تک پولیو کا امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپ کے زیادہ تر حصوں سے خاتمہ ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود یہ 125 ممالک میں موجود تھی۔ 2002 میں عالمی ادار صحت نے نے یورپی خطے کو پولیو سے پاک قرار دیا۔2012تک افغانستان، نائجیریااور پاکستان کے علاوہ دنیا کے باقی تمام ممالک سے اس مرض کا خاتمہ کردیا گیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ افغانستان اور نائجیریا میں اس سال پولیو کے نئے مریضوں میں کمی آئی ہے وہیں پاکستان میں ایک برس میں پولیو کے نئے مریضوں کی تعداد کا 14 سال پرانا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں 2010 کے بعد پولیو کیسز میں اضافہ ہوا ۔یہاں 2012 میں پولیو کے 54کیسز رجسٹرڈ ہوئے، جب کہ 2013کے دوران یہ تعداد بڑھ کر 93 ہوگئی ۔رواں سال پولیو کیسز میں خوفناک اضافہ ہوا اور یہ تعداد 246 تک جا پہنچی ۔جبکہ ہمار ے پڑوسی ملک بھارت کو اس مرض سے چھٹکارا حاصل کئے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی بین الاقوامی صحت ریگولیشن کمیٹی(آئی ایچ آر) پولیو وائرس کو دیگر ممالک تک پہنچانے کے حوالے سے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتی رہی ہے۔ ڈیبلو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں رپورٹ ہونے والے 80 فی صد کیسز کاذمہ دار پاکستان ہے ۔مئی 2014 میں عالمی ادارہ صحت کا اجلاس ہو اجس میں پولیو وائرس کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ان پابندیوں کے تحت بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کو کے لئے بیرونِ ملک سفر سے کم از کم چار ہفتے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس قبل انسدادِ پولیو کی ویکسین پینا لازمی ہوگا جبکہ ہنگامی حالات میں سفر کرنے والوں کو سفر کے آغاز پر یہ ویکسین پینا ہوگی۔ ان مسافروں کو ویکسین پلائے جانے کا تصدیقی سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔ پولیو سرٹیفکیٹ پر ویکسین کا بیچ نمبر لکھنا لازمی ہوگا۔پاکستان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل کے بین الاقوامی سفر پر دی جانے والی عارضی سفارشات پر عملدرآمد کی رپورٹ ماہانہ بنیادوں پر جمع کرائے، جس میں بتایا جائے کہ کتنی تعداد میں شہریوں کو سفر سے روکا گیا اور کتنے لوگ ویکسنیشن کے بعد سفر کرنے میں کامیاب رہے؟پاکستان سے روزانہ تقریبا 27 ہزار افراد بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ان پابندیوں نے بیرون ملک سفر کرنے والوں کو انتہائی مشکلا ت سے دوچار کر دیا ہے ۔گو یہ پابندیاں عارضی ہیں اور 6 ماہ تک لاگو رہیں گی۔لیکن عالمی ادارہ صحت کی بین الاقوامی صحت ریگولیشن کمیٹی(آئی ایچ آر) کئی بار پاکستان کو متنبہ کر چکی ہے کہ اگر اس نے اس مرض کے خلاف آئندہ چھ ماہ کے دوران اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا تو اس کے شہریوں کو عالمی سطح پر مزید سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان مقررہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تو عالمی ادارہ صحت اضافی اقدامات پر غور کرسکتی ہئے جن میں کسی بھی ملک میں آمد پر شہریوں کی اسکریننگ کا آپشن بھی شامل ہوسکتا ہے،یہ صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔

پاکستان میں اس وائرس کے خاتمے کے لیے 1988میں انسدادی مہم کا آغاز ہوا جبکہ پولیو سے بچا ؤکا قومی دن منانے کا آغاز1994 سے ہوا۔1988 میں تقریبا 28 ہزار پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔اورچند سالوں میں حکومت پاکستان کی کوششوں اور رضاکاروں کی محنت سے پولیو کے کیسز میں کمی آنا شروع ہوگئی۔خیال یہی کیا جارہا تھا کہ 2000 تک پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا ۔اس حوالے سے حکام کی طرف سے کئی بار پاکستان کو پولیو فری بنانے کے دعوے بھی کئے گئے۔ مگرحقیقت میں یہ ممکن نہ ہو سکا۔دو دہائیوں سے زیائد عرصے سے جاری اس مہم میں اب تک تقریبا سوا سو پولیو مہمیں چلائی جا چکی ہیں تاہم منزل کے حصول کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے نے پاکستان پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے ۔2001 میں ولڈٹریڈ سنٹر پر حملے کو جواز بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افعانستان پر حملہ کردیا ۔اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افعا نی پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔لاکھوں افعان پناہ گزین واپس اپنے ملک جاچکے ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق 17 لاکھ افعان پناہ گزین ابھی تک پاکستان میں موجود ہیں۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی نے جہاں پاکستان کو بے شمار مشکلات سے دوچار کیا وہیں ان پناہ گزینوں کی موجودگی میں پولیو فری پاکستان کے ہدف کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ افغان پناہ گزینوں میں پولیو کے نئے کیسز کا سراغ ملتارہااور یہ نئے کیسز پاکستان کو پولیو فری بنانے کا خواب چکنا چور کرتے رہے۔ بعض انتظامی مسائل بھی اس ہدف کے حصول میں ناکامی کا سبب بنے جن میں پولیو رضا کاروں کی مناسب تربیت نہ ہونا پولیوویکسین کو مطلوبہ درجہ حرارت میں نہ رکھنا شامل ہیں( پولیو ویکسین کو 2 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھنا ضروی ہے )۔اس حوالے سے متعلقہ عملے کی لاپرواہی کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ۔پولیو فری پاکستان کے ہدف میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں کی امریکہ نواز پالیسیوں کے باعث دہشتگردی کے خلاف جنگ کا پاکستان منتقل ہونا ہے ۔اس جنگ کے پاکستان منتقل ہونے کے باعث ہزاروں پاکستانی شہری شہید ہوچکے ہیں جن میں 6 ہزار فوجی جوان بھی شامل ہیں۔یہ جنگ تا حال جاری ہے اس جنگ کے یہاں منتقل ہونے سے دور دراز علاقوں میں حکومتی عملداری کمزور ہوئی جس کے باعث پولیو ویکسینیشن پر اثرا ت مرتب ہوئے ۔نیز 2006 میں ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنما کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں بھی حالات خراب ہونا شروع ہوگئے ۔بعد میں نواب اسلم رئیسانی کی خراب حکمرانی حالات میں مزید خرابی کا باعث بنی ۔دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ اور بلوچستان کی خراب صورتحال نے دور دراز کے علاقوں میں پولیو آپریشن کو متاثر کیا اور کئی برسوں تک ان علاقوں میں کشیدگی اور خوف کے باعث پولیو ٹیمیں جا ہی نہیں سکیں ۔جنوبی وزیرستان میں نومبر 2014 میں ڈھائی سال بعد پولیو مہم دوبارہ شروع کی گئی ۔حال ہی میں ایک ہی دن میں پاکستان میں پولیو کے10 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن میں سے 6 کا تعلق وزیرستان سے ہے ۔انسداد پولیو مہم کے مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہونے کی ایک اہم وجہ اس مہم کے خلاف منفی پروپیگنڈا ہے ۔اس منفی پروپیگنڈے کو اس وقت تقویت ملی جب ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ تک رسائی حاصل کی ۔اور بعد میں ایک امریکی آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن کو ہلا ک کر دیا گیا ۔پروپیکنڈا یہ کیا جارہا کہ سی آئی ا ے پولیو مہم کو پاکستا نیوں کی جاسوسی کے لئے استعمال کررہی ہے۔حالانکہ عالمی ادارہ صحت نے نہ صرف وضاحت کی( کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کبھی بھی عالمی ادارہ صحت کی کسی پولیو مہم کا حصہ نہیں رہے )بلکہ سی آئی اے کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے پولیو مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ ایک تاثر یہ پھیلایا جارہا ہے کہ پولیو ویکسین میں ایسے اجزاء شامل کیے گئے ہیں جو نظام تولید کو متاثر کرتے ہیں ادر آبادی کے کنٹرول کے لئے پولیو ویکسین کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ایک افواہ یہ بھی پھیلائی جارئی ہے کہ پولیو ویکسین کمزور قوت مدافعت رکھنے والے بچوں کے لئے انتہائی نقصان دے ہے ۔اور کمزور قوت مدافعت رکھنے والے بچوں میں یہ ویکسین پولیو ، ایڈز اور دوسرے خطرناک امراض کا سبب بنتی ہے ۔

ملک کے طول و عرض میں پھیلائے جانے والے اس منفی پروپیگنڈے کا اثر یہ ہوا کہ بعض علاقوں میں والدین نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا ۔جس کے باعث پولیو رضاکاروں کو مشکلات کا سامنا ہو ا۔اس منفی پروپیگنڈے کو بنیا د بنا کر دہشتگرد عناصر نے پولیو رضاکاروں پر حملے شروع کردیے اور کئی علاقوں میں ٹارگٹ کرکے پولیو ٹیموں کو نشانہ بنایا گیا ۔2012 کے بعد تواتر کیساتھ پولیو رضاکاروں کو نشانہ بنایا گیا ۔پولیو ورکروں پر حملوں کے باعث پولیو مہم کو شدید دھچکا لگا اور متعدد بار عالمی ادارہ صحت کو بھی حساس علاقوں میں اپنا آپریشن معطل کرنا پڑا ۔دو سال میں 60رضاکار اور انکی سکیورٹی پر معمور اہلکار قتل کئے جا چکے ہیں۔جبکہ درجنوں زخموں سے چور ہسپتالوں میں پڑے کراہ رہے ہیں۔خونخوار قاتل موٹر سائیکلوں پر دندنا تے پھر رہے ہیں کسی بھی وقت کسی پولیو رضا کا ر کی موت کا سندیسا لے کر آتے ہیں ،گاڑیاں روکتے ہیں ،کھلے عام گولیاں چلاتے ہیں، معصوموں کو نشانہ بناتے ہیں، اسلحہ لہراتے ،فتح کا نشان بناتے، رخصت ہوجاتے ہیں ۔ اور ٹی وی اور اخبارات کے دفاتر میں فون کرکے حملے کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں۔پھر ٹی وی چینلز کو اگر سیا ست سے فرصت ملے تو چند گھنٹوں لے لئے تبصرے اور تجزیے ہوتے ہیں ۔ ایسے واقعات کو اخباری شہہ سرخیوں میں بھی کہیں کہیں جگہ مل جاتی ہے۔ مسلح افراد کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ جب چاہیں پولیو ورکرز کی زندگیوں کے چراغ گل کردیں۔حال ہی میں کوئٹہ میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی دلخراش ہے ۔ جہاں دہشتگردوں نے خواتین پولیو رضاکاروں کوبھی نہ بخشا۔اور فائرنگ کے ذریعے تین خواتین پولیو رضا کاروں کو ہلاک کر دیا گیا۔اس واقعے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے بلوچستان میں پولیو مہم معطل کرنے کا اعلان کردیا ۔پاکستان میں رواں برس ریکارڈ کیے گئے 246کیسز میں سے 15کا تعلق بلوچستان سے ہے جو چند ماہ میں سامنے آئے ہیں ۔اس بار کی مہم کے تحت بلوچستان کے 11 اضلاع میں 13 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جو اس بزدلانہ حملے کے باعث مکمل طور پر متاثر ہوا ۔پولیو کے خلاف جدو جہد میں پولیو ورکرز کا کردار اہمیت کا حامل ہے ۔آنے والی نسلوں کو اپائچ ہونے سے بچانے کے لئے پولیو ورکرز شہر ، قصبے ،گاؤں ،گلی ، محلے کا ہر دروازہ کھٹکاتے ہیں ۔بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لئے اُن کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔پولیو رضاکار ہمارے محسن ہیں ۔ اگر ہم اپنے محسنوں کی حفاظت نہ کرسکے تو کبھی بھی اس موذی مرض سے چھٹکا را حاصل نہیں کر سکیں گے ۔

پاکستان سے بھی پولیو کا خاتمہ ممکن ہے۔اس ضمن میں سنجیدہ کوششوں اور ایک نئے جذبے سے مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔صرف جذبے ہی کی نہیں بلکہ مکمل ہوم ورک کی بھی ضرورت ہے۔ پولیو کے خاتمے کیلئے ، حساس علاقوں تک رسائی ،دور دراز علاقوں میں مقامی لو گوں ،ڈاکٹروں اور علماء پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے کرانسداد پولیو مہم کو تیز کرنے اور لوگوں کے ذہنوں میں موجود شکو ک و شہبات دور کرنے کے لئے اور انسداد پولیو مہم کے خلا ف موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔پولیو ورکرز کی مکمل تربیت اور انہیں ان کی اجرت وقت پر دینے اور انہیں ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے عبرت کا نشان بنانے کی ضرورت ہے جو قوم کا مستقبل تاریک کرنے کے در پے ہیں۔جیسے سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشتگردی کیخلاف ایک موثر حکمت عملی اپنائی اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن بھرپور عزم کیساتھ جاری ہے ۔اسی طرح پولیو کے خاتمے کے لئے بھی مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔پورے پاکستان کو مل کر ’’گو پولیو گو ‘‘ کا نعرہ لگانے کی ضرورت ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Asghar Hayat
About the Author: Asghar Hayat Read More Articles by Asghar Hayat: 13 Articles with 21288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.