جھارکھنڈ اور جموں کشمیر ان دو
ریاستوں میں فی الحال انتخابی مہم چل رہی ہے ۔ اس دوران کشمیر کے اندرایک
ہی دن میں چاردہشت گردانہ حملے ہوئے جس کی گونج جھارکھنڈ کے جلسوں میں
سنائی دی ۔ پہلے تو وزیراعظم نے کشمیر میں مرنے والے فوجیوں کو خراجِ عقیدت
پیش کیا اور اعلان کیا کہ یہ ہماری جمہوریت پر حملہ ہے جسے ہم ناکام بنا
دیں گے۔ اس کے بعد راہل گاندھی نے اس کا جواب دیا کہ کانگریس کے دس سالہ
دورِ اقتدار کے دوران کشمیر میں امن و امان تھا اور وہاں سیاح آتے تھے ۔
اب بی جے پی کی حکومت میں دہشت گرد آتے ہیں ۔ راہل گاندھی یہ بولنے سے بھی
نہیں چوکے کہ مودی جہاں بھی جاتے ہیں امن و امان غارت ہو جاتا ہے۔ ان دونوں
رہنماؤں کی ساری باتیں درست ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ انہیں جھارکھنڈ
کےاندر کشمیر کا غم تو ستاتا ہے لیکن پڑوس کی ریاست چھتیس گڑھ میں ہونے
والا حملہ نظر نہیں آتا جبکہ ضلع بستر میں ہونے والے حملے میں زیادہ فوجی
کام آئے اور حملہ آوروں کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔
جھارکھنڈ اور جموں کشمیر کی نہ تاریخ یکساں ہے اور نہ جغرافیہ جبکہ ایک
دوسرے سے متصل جھارکھنڈ و چھتیس گڑھ کی تہذیب و ثقافت تک مشترک ہے اس لئے
فطری طور پر یہ ہونا چاہئے تھا کہ جھارکھنڈ میں کشمیر کے بجائے چھتیس گڑھ
کی دہشت گردی موضوع بحث بنتی لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں
دہشت گردی کے حوالے سےہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ پوشیدہ ہے۔ چھتیس گڑھ کے
قبائلی عوام کی طرح جھارکھنڈ کے ادیباسیوں کی ہمدردیاں بھی ماؤ نوازوں کے
ساتھ ہیں ۔اس لئے راہل گاندھی ماؤ وادیوں پر تنقید کرکے انہیں انتخاب کے
موقع پر ناراض نہیں کرناچاہتے ۔ وزیراعظم چھتیس گڑھ کا حوالہ اس لئے نہیں
دے سکتے کہ گزشتہ دس سالوں سے وہاں ان کی اپنی پارٹی حکومت کررہ رہی ہے ۔
اب اگر بی جےپی اس طویل عرصہ میں اپنے تمام لاولشکر اور بلند بانگ دعووں کے
باوجودسرخ دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی تو بھلا کشمیر میں کیا
کرلے گی ۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کے بجائے کسی اور جماعت کی حکومت ہوتی تو
اسے بدنام کرنے کیلئے ممکن ہے جھارکھنڈ میں ماونوازوں کی دہشت گردی موضوع
بحث بن جاتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں دہشت گردی کی آگ پر
اپنی سیاسی روٹیوں کو سینکنے میں مہارت حاصل کرچکی ہیں ۔ اس لئے وہ دہشت
گردی کی آگ کو بجھانا تو درکنار جب یہ ازخودسرد ہونے لگتی ہے تو اس میں
تیل ڈال دیتی ہیں ۔
عصر حاضر میں دہشت گردانہ حملوں کے پس پشت کارفرما وجوہات کا پتہ لگانا ایک
نہایت پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے اس لئے کہ ہر حملہ کے اغراض و مقاصد ایک
دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔مختلف لوگ اس سے انواع اقسام کے فائدے اٹھاتے ہیں
اس لئے حقائق شاذونادر ہی ذرائع ابلاغ کی زینت بن پاتے ہیں ۔ قدیم زمانے
میں جنگ آمنے سامنےفوجیوں کے درمیان میدان میں لڑی جاتی تھی۔ اس کے بعد جب
ترقی ہوئی تو فضا سے نہتے شہریوں پر بمباری ہونے لگی لیکن وہ معاملہ بھی
دشمن کے حدود میں ہوتا تھا اب یہی چیز دہشت گردی کی شکل اختیار کرکے جمہوری
حکمرانوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہے جس سے وہ انتخاب میں کامیابی حاصل
کرکے اقتدار حاصل یا محفوظ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جب
حکومت پیچیدہ مسائل میں گھر جاتی ہے تو عوام کی توجہات کو دوسری جانب مبذول
کرانے کی خاطر یہ گھناؤنا کھیل شروع کروادیا جاتا ہے۔
جھارکھنڈ میں جو کچھ ہوا وہ عوامی نقطۂ نظر سے بے حدافسوسناک اور انتظامی
زاویہ سے نہایت شرمناک ہے۔بستر ضلع کے سوکما گاوں میں ہونے والے اس حملے
میں کل ۱۴ جوانوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے دو کی لاش تک
نہیں ملیجبکہ حملے کے بعد کوبرابٹالین کے۶۰ جوان رات دیر گئے اپنے کیمپ میں
نہیں لوٹے تھے۔ انتظامیہ کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
مرنے والوں میں سے ایک دیپک کمار زخمی ہونے کے۷ گھنٹے بعد۹ کلومیٹر تک
گھسٹتا ہوا کسی طرح چھاؤنی تک پہنچا اور وہاں بھی مناسب طبی سہولیات کی
عدم موجودگی کے سبب لقمۂ اجل بن گیا۔ ایک ایسی ریاست میں جس کا وزیراعلیٰ
ڈاکٹر رمن سنگھ طبی پیشے سے متعلق ہےفوجیوں کے ساتھ یہ بے اعتنائی کس قدر
اہانت آمیز ہے ۔بی جےپی والوں کو دیش بھکتی کے بھجن گانا تو خوب آتا
ہےلیکن فوجی جوانوں کے ساتھ اس کی ریاستی اور مرکزی حکومت کا یہ سلوک سنگھ
پریوار کی پاکھنڈ کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس حملے کے بعد فوجی تقدس کو پامال
کرنے والا ایک اور واقعہ اس وقت سامنے آیا جب فوجیوں کی وردی امبیڈکر
اسپتال کے کچروں کے ڈبے میں پائی گئی جنہیں کانگریسی اپنے ساتھ لے گئے اور
خوب شہرت حاصل کی۔
دنیا بھر کی سیر کرنے والے وزیراعظم کو جائے حادثہ پر جانے کی توفیق اس لئے
نہیں ہوئی کہ فی الحال وہاں انتخابات کا انعقاد نہیں ہو رہا ہے لیکن مودی
جی نےدیپک کمار کے جموں میں واقع سامبا میں انتخابی جلسہ سے ضرور خطاب کیا
۔ وزیراعظم وہاں دہشت گردی کے خلاف دھواں دھار تقریر تو کر آئے لیکن جو
حکومت اپنے فوجیوں کے علاج و معالجہ سے قاصر ہواس کی کھوکھلی تقاریر کا کیا
فائدہ؟ دیپک کمار کے علاوہ مرنے والوں میں وادیٔ کشمیر کا ایک جوان محمد
شفیع بھٹ بھی تھا۔ ان دونوں کے علاوہ دیگر آٹھ ریاستوں کے ۱۲ جوان تھے
لیکن ان میں سے کسی کا تعلق گجرات سے نہیں تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ
گجرات نے ملک ایک مہاتما دو وزرائے اعظم اور دو نائب وزرائے اعظم تودئیے
لیکن ایک بھی قابلِ ذکر فوجی نہ دے سکا ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ریاست یا تو
امبانی ، اڈانی اور مفت لال جیسے سرمایہ دارتیار کرتی ہے یا ۵۶ انچ کا سینہ
رکھنے والے سیاستدان لیکن دشمن سے سینہ سپر ہونے والا بہادر جوان یہاں پیدا
نہیں ہوتے۔
وزیر اعظم نے کشمیر میں جب یہ اعلان کیا کہ آپ لوگ مجھے ووٹ دو تاکہ میں
’’اچھے دن لا سکوں‘‘ تو لوگوں کو لگا کہ وہ بھی کوئی لطیفہ سنا نے جارہے
ہیں اس لئے کہ گزشتہ ۶ ماہ میں سب سے زیادہ لطائف اسی اچھے دن والے فقرہ یا
نعرہ پر گھڑے گئے ہیں۔ویسے جھارکھنڈ میں تو وزیراعظم نے لطیفہ سنا ہی دیا۔
وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اس ریاست کی تشکیل کے بعد کسی نے اس کی ترقی کی
جانب توجہ نہیں دی اب میں دوں گا۔ مودی جی کو نہیں معلوم کہ تشکیل ریاست کے
بعد ۱۴ میں سے ۹ سال بی جے پی وہاں حکومت کرچکی ہے اب وہ بتائیں کہ ان کی
اپنی جماعت نےریاست کی ترقی سے صرفِ نظر کیوں کیا؟ اور اگر پہلے اس جانب
توجہ نہیں دی تو آگے کیسے دیں گے؟دوسرا لطیفہ انہوں نے یہ سنایا کہ اگر اس
ریاست میں کوئلہ نکل آتا ہے وہ مرکزی خزانے سے ۲۰ ہزار کروڈ روپئے دیں گے۔
یہ اعلان نہایت معنیٰ خیز ہے یعنی اگر کوئلہ نہ نکلے تو نہیں دیں گے گویا
اس رقم کا تعلقووٹ سے نہیں کوئلے سے ہے۔
وزیر اعظم کو ممکن ہے اس بات کا علم نہ ہو کہ ان کی مجوزہ امداد کے بغیر
جھارکھنڈ سے لاکھوں ٹن کوئلہ تو نکل رہا ہے ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ
یہ ۲۰ ہزار کروڈ کی خطیر رقم کسے دی جائیگی؟ کیا ان غریبوں کو جو جلسہ میں
زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ؟ جی نہیں یہ رقم گوتم اڈانی جیسے کسی سرمایہ
دار کو دی جائیگی تاکہ وہ زمین کے اندر سے یہ کالا سونا نکالے اور حکومت کو
چالیس ہزار کروڈ میں فروخت کرکے اپنے وارے نیارے کرلے۔ وزیر اعظم کا ایسا
ہے کہ وہ جاپان جوہری تکنیک حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں تو بولیٹ ٹرین لے کر
لوٹ آتے ہیں۔ آسٹریلیا میں جوہری ایندھن لینے کیلئے جاتے ہیں کوئلے کی
کان میں سرمایہ کاری کر آتے ہیں ۔تیل دراصل کوئلے سے بہتر ایندھن ہے اس
لئے کہ اس کی کان کنی پر کم خرچ آتا ہے اس کے استعمال سے فا ئی آلودگی
بھی کم ہو تی ہے اس لئے اس کی روک تھام پر سرمایہ خرچ نہیں ہوتالیکن چونکہ
کوئلہ سستا ہوتا تھا اس لئے ان مشکلات کو انگیز کیا جاتا تھا۔ اب صورتحال
بدل گئی ہے آج کل تیل کا بھاؤ اس قدر کم ہو گیا ہے کہ ایسے میں کوئلے کی
دلالی میں ہاتھ کالے کرنا بے سود ہے لیکن جو شخص اپنے آپ کو عقلِ کل
سمجھتا ہو اسے بھلا یہ بات کیسے سمجھائی جاسکتی ہے؟
وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے درمیان فی الحال
کاموں کی تقسیم کچھ اس طرح ہے کہ اول الذکر انتخابی جلسوں میں عوام کا دل
لبھاتے ہیں اور موخرالذکر عوام کی مشکلات کو سلجھاتے ہیں اس لئے چھتیس گڑھ
کادورہراج ناتھ نے کیا اور واپس آکر پارلیمان میں اس پر بیان بھی دیا۔ اس
حملے کو بزدلانہ قرار دے کر اس کی مذمت کی ۔ علاج اور وردی کے مسئلہ پر
انہوں نے وزیراعلیٰ سے گفتگو کی اور کہا کہ جو بھی اس ذمہ دار ہو گا اس پر
کڑی کارروائی کی جائیگی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ڈاکٹر رمن سنگھ کو سخت
سست کہتے یا ا ن پر کارروائی کرتے لیکن یہ بی جےپی کی سنسکرتی کے خلاف ہے
کہ کسی اپنے آدمی کی سرزنش کی جائےچاہے وہ سادھوی نرنجن جیوتی
ہویاڈاکٹررمن سنگھ۔ راج ناتھ سنگھ نےہلاک شدگان کے وارثین کو ۳۸ لاکھ و
زخمیوں کو ۵۶۰۰۰ ہزار کی امداد کا اعلان کیا ۔ ملک کی خاطر جان لڑانے والوں
کیلئے کیا حکومت کے پاس یہی کچھ ہے جبکہ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ نکسلیوں
سے لڑنے والے ۱۴ میں ۱۰ جوان ملیریا کے شکار تھے ۔ اس حملے کے بعد مزید ۱۱
ہزار جوانوں کو بستر ضلع میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا حالانکہ ۳۱ ہزار نفری
حفاظتی دستہ وہاں پہلے سے موجود ہیں ۔
چھتیس گڑھ ریاست کی تشکیل کے بعدسے گزشتہ ۱۵ سالوں میں وہاں ایک ہزار سے
زیادہ فوجی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں بی جے پی والوں
اپنے اس بیان پر نظر ثانی کرنی چاہئے کہ سارے مسلمان تو دہشت گرد نہیں لیکن
سارے دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں۔جو لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ بی جے پی
کی حکومت میں جنگجو تحریکوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں انہیں یاد رکھنا
چاہئے کہ چھتیس گڑھ میں سب سے بڑا حملہ اپریل ۲۰۱۰ میں ہوا تھا جس میں ۷۶
فوجی جوان ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت اٹل جی وزیراعظم تھے اور لوہ پروش اڈوانی
جی وزیر داخلہ تھے۔اس علاقہ میں فوجیوں کے حوصلے اس قدر پست ہیں کہ ابھی
حال میں بستر ضلع کے اندر تعنیات حفاظتی دستوں کے ۱۸ جوانوں کو نکسلی حملے
کے وقت پیٹھ دکھا کر بھاگنے کے الزام میں معطل کردیا گیا ۔ دیپک کمار کو جن
لوگوں نےدم توڑتے دیکھا ہے ان کے حوصلے کس قدر شکستہ ہوئے ہوں گے اس کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
کشمیر اور جھارکھنڈ کی سیاسی صورتحال میں یہ فرق ہے کہ جھارکھنڈ کے اندر بی
جے پی آج بھی سب سے بڑی جماعت ہے مگر اکثریت سے محرومی اور دیگر جماعتوں
کی عدم حمایت کے سبب بی جے پی اقتدرا سےدور ہے اس لئے اسے صرف اپنے ارکان
اسمبلی کی تعداد میں اضافہ درکار ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس کا
اتحاد انتخاب سے قبل ٹوٹ چکا ہے جس کے سبب بی جے پی کی راہ آسان ہو گئی
ہے۔ اس کے برعکس وادیٔ کشمیر میں بی جےپی کو کبھی بھی قبل ذکر کامیابی حاصل
نہیں ہوئی ۔ جموں کے اندر فی الحال وہ کانگریس کی جگہ لے کر ایک بڑی جماعت
بن چکی ہے اور اس میں شک نہیں کہ ان دہشت گردانہ حملوں سے جموں کا ہندو ووٹ
تقسیم ہونے کے بجائے یکمشتبی جے پی کی جھولی میں گرجائیگا ۔ اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دہشت گرد اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں؟ اور اگر انہیں
پتہ ہے کہ اس میں فی الحال بی جے پی کا سیدھا فائدہ ہے تو آخر اس موقع پر
وہ لوگ یہ حملے کیوں کررہے ہیں؟نیز کس کے اشارے پر کررہے ہیں ؟ اس سوال کا
جواب حملہ آوروں کی شناخت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے ایک نہایت دلچسپ اداریہ بی جے پی کے ترجمان کمل
سندیش میں شائع ہوا ۔ اس میں راجیہ سبھا کے رکن اور پارٹی کے نائب صدر
پربھات جھا نے لکھا کہ ان آشرموں کی گہری تفتیش ہونی چاہئے جو عقیدے کی
بنیاد پر دہشت گردی کا مرکز بن گئے ہیں۔ اندھی عقیدت کی بنیاد پر ہونے والا
استحصال اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ہنوز تاریک دور میں جی رہے ہیں ۔ اس
اداریہ اس طرح کےتمام آشرم پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے اور
رام پال جیسے لوگوں پر بغاوت کا مقدمہ چلانے کی بات کہی گئی ہے۔ اسی کے
ساتھ کانگریسی حکومت پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ست لوک آشرم کو ایک
اسلحہ خانہ میں تبدیل ہونے کی اجازت دی۔ پربھات جھا صاحب کو شاید نہیں
معلوم کہ ہریانہ ہی میں ایک آشرم ڈیرہ سچا سودہ بھی ہے۔ اس کے سربراہ پر
قتل و غارتگری کے کئی الزامات ہیں اور اس نے گزشتہ انتخاب میں بی جے پی کی
حمایت کی جسے بصد شوق قبول کیا گیا۔ کمل سندیش میں اعلان کیا گیا کہ رام
پال کے آشرم کو خالی کرانے میں ایک قطرہ خون نہیں بہا جو خلاف واقعہ بات
ہے اس میں نہ صرف عام شہری بلکہ حفاظتی دستوں کے لوگ بھی مارے گئے ۔
اس دوران ایک اوردلچسپ واقعہ گجرات کے اندر رونما ہوا جہاں وزیر اعظم کے
حلقۂ انتخاب بڑودہ میں پولس نے وشو ہندو پریشد کے چار کارکنان کو حافظ
سعید کا پتلا جلانے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ یہ لوگ حافظ سعید کے اس
بیان پر غم وغصہ کا اظہار کررہے تھے جس میں انہوں نے کشمیریوں کو اپنا
بھائی قرار دیا اور کہا کہ انتخابات کو استصواب کا متبادل نہیں قرار دیا
جاسکتا ۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت کو پاکستان سے گفتگو بند کرکے جنگ
کرنی چاہئے ان کے رہنما بھگوان بھرواڈ نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی گرفتاری
پر جو اس کے خیال میں سچے دیش بھکت ہیں حکومت کی پرزور مذمت کی ۔ اب کمل
سندیش کو چاہئے کہ ان دیش بھکتوں کو بھی نصیحتکرنے کیلئے ایک اور اداریہ
لکھے۔بردوان فساد کے بعد وہاں سے قریب ۲۵ میل پر واقع سمولیہ مدرسے کو دہشت
گردی کا اڈہ قرار دیا گیا ۔ این آئی اے نے وہاں اسلحہ کا پتہ لگانے کیلئے
تالاب تک کو خالی کردیا لیکن ناکام و نامراد لوٹے اور بالآخر سارے الزامات
بے بنیادثابت ہوئے اس کے برعکس ست لوک آشرم میں اسلحہ کا ڈھیر اور تربیت
یافتہ کمانڈو کو ساری قوم نے ٹی وی پر دیکھا۔ جو لوگ کل تک مدرسوں کو دہشت
گردی کا اڈہ بتاتے تھے ان کی جانب سے آشرم اور مٹھوں کو دہشت گردی کا مرکز
قراردیا جانا اور ان پر پابندی کا مطالبہ یقیناً ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ |