پنجاب کے کسان سخت پریشان ہیں ۔
موجودہ اور سابق حکمران سیاسی جماعتیں مفلوک الحال کسانوں کے معاشی قاتلوں
کا کردار ادا کررہی ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کیلئے قیمتی زر مبادلہ کمانے
والے پھٹی کے کاشتکاروں اور زمیندار وں کا ناطقہ بند کررکھا ہے ۔ کپاس کی
خریداری کا ذمہ دار ادارہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) مختلف
حیلوں بہانوں سے کسانوں کو تنگ کررہا ہے ۔غیر ضروری اعتراضات لگا کر
خریداری نہ کرنے کے بہانے تراشے جارہے ہیں ۔موسم کی وجہ سے پھٹی تیزی سے
خراب ہورہی ہے ۔کسانوں کی قیمتی فصل کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔ٹی سی
پی والے اژدھوں کی طرح رشوت کیلئے منہ کھولے بیٹھے ہیں جس کے باعث کسان
معاشی بدحالی اور ہولناک مالی بحران کا شکار ہیں کیونکہ کپاس اگانے پروہ
سخت محنت کے ساتھ ساتھ قرضے لے کر کھادا ور ادویات کے استعمال کے علاوہ
مہنگی بجلی و ڈیزل سے آبپاشی کرکے فصل کوننھے بچوں کی طرح پالتے ہیں لیکن
اسے اپنی ساری محنت اور سرمایہ کاری ضائع ہوتی نظر آتی ہے اس کیلئے قرضوں
کی ادائیگی بھی مشکل ہوجائے گی۔پہلے مکئی اور مونگی اور اب کپاس کا ریٹ کم
کرکے کسانوں کو لوٹا جارہا ہے ۔بڑی ملوں اور اداروں پر جن سود خور
صنعتکاروں اور سرمایہ دار طبقات کا قبضہ ہے وہ سبھی موجودہ اور سابقہ
حکمرانوں کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کسانوں کے معاشی قتل کے ذمہ
دار بیشتر افرادکا ن لیگ ، ق لیگ ، پی پی پی اور پی ٹی آئی سے تعلق ہے ۔تمام
حکمران طبقات نے مقتدر ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو نوازنے کیلئے منصوبہ
بندی مکمل کرلی ہے ۔ کسانوں سے کپاس کم قیمت پر اینٹھنے کے بعد سود
خورطبقات اس کی برآمدگی کرکے اربوں روپے کمائیں گے ۔ چاول کی فصل کی قیمت
بھی حکمرانوں نے 2300روپے من مقرر کی تھی اور 1300 روپے میں خریدا گیا ۔اس
طرح سے حکمرانی مگرمچھوں نے ہر کسان کی جیب سے 1000 روپے فی من نکال کر ہڑپ
کرلئے ہیں۔ ادھر شوگر مل مافیا بھی گنے کا ریٹ بڑھانے کی بجائے ڈیڑھ سوروپے
فی من سے بھی کم کرکے کسان دشمنی پر اتراہوا ہے جبکہ حکومت نے گنے کا ریٹ
انتہائی کم180روپے مقرر کررکھا تھا مگر شوگر مافیا مختلف حیلے بہانوں سے
غیرقانونی طور پر کسانوں سے کاٹ بھی وصول کررہا ہے اور اب تو انہوں نے
کسانوں سے گنا خریدنا بند کردیا ہے۔ گنے کادھوپ میں سوکھنے سے وزن کم
ہوجائے گا۔اور یہ صنعتکار طبقہ چاہتا بھی یہی ہے۔کسانوں کو تو 250روپے فی
من کا ریٹ دیا جانا اشد ضروری ہے مگر انہیں سال کی محنت کے بعد بھی ان کا
حق نہیں دیا جارہا ۔ کسانوں کا استحصال کرنے والوں کو آہنی ہاتھوں سے نہ
نمٹا گیا توہر طرف احتجاجی ایجی ٹیشن حکومت کو بہا لے جائیں گے۔مل مالکان
نے حکومتی نوٹیفیکیشن کوڑے دان میں پھینک ڈالا ہے اور اگر امسال صحیح قیمت
نہ مل سکی تو آئندہ کسان گنا کاشت ہی نہیں کریں گے ۔ برسر اقتدار ٹولہ میں
شامل جاگیردار طبقات کی جیبوں میں کسان دشمنی کا ایجنڈا ہوتا ہے ۔گنے کی
قیمتوں میں کمی نے اس امر کو ثابت بھی کردیا ہے کہ ستر فیصد زراعت پیشہ
آبادی سخت پریشان ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ گندم کی بوائی وقت پر نہیں
ہوسکے گی اور اس کے نتائج یہ نکلیں گے کہ آئندہ سال میں گندم کی پیداوار
میں 35 فیصد کمی آجائے گی پھر یہی حکمران گندم درآمدگی پر کمیشنیں کھائیں
گے اور حرام مال کھا کر مزید پیٹو بن جائیں گے۔کسانوں مزدوروں کی تحریک کسی
بھی سیاسی جماعت کی تحریک سے بہت بڑی ہوگی جس کی کوئی برسراقتدار طاقت
مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ایسی صورت حال میں اﷲ اکبر تحریک کے پروگرام کے مطابق
اگر ملوں کو فوراً منتخب مزدور یونینوں کے حوالے کیا جائے جو کو سود خور
صنعتکار کو دس فیصد منافع دینے کے پابند ہوں تو یہ ہی صرف اس مسئلہ کا حل
ہوسکتاہے ۔ پاکستان کے مزدور اور کسان مل کر ملوں کو نہایت احسن طریقے پر
چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ موجودہ و سابق حکمرانوں، مک مکائی اپوزیشن،
آپس کی سرپھٹول ،قتل و غارتگری، ہڑتالوں ، جلسے جلوسوں اور دھرنوں نے ملکی
معیشت کا پہیہ جام کرڈالا ہے۔ آئندہ بیلٹ کے ذریعے ان تمام نام نہاد سیاسی
جماعتوں سے عوام جان چھڑا کر اﷲ اکبر تحریک کو برسر اقتدار لائیں گے تاکہ
ان کے تمام مسائل گھر کی دہلیز پر ہی حل ہوسکیں اور مہنگائی، بے روزگاری ،
دہشت گردی، فرقہ واریت اور ناانصافی کے باب کا مکمل سدباب ہوجائے۔ |