ہمارے یہاں سب بہت اچھے ہیں یا سب ہی بُرے
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
ہماراتوآوے کا آواہی بگڑاہواہے...
آج میراخیال یہ ہے کہ یقیناموجودہ حالات اور واقعات کے تناظرمیں ہماری نئی
نسل اِس قسم کے مخمصوں اور اندیشوں میں مبتلاہوچکی ہوگی کہ’’ کیا ہمارے
یہاں سب ہی بہت اچھے ہیں ....؟یا پھر سب ہی بہت زیادہ بُرے ...؟اور اِس کے
ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچنے اور کہنے پہ مجبور ہوگئی ہوگی کہ ’’ ہمارے یہاں تو
آوے کا آواہی بگڑاہواہے‘‘۔
جبکہ آج اِس میں یقیناکوئی شک نہیں ہے کہ اگرہم اپنے مُلک اور معاشرے میں
موجود اردگرد کے ماحول اور رکھ رکھاؤ کا جائزہ لیں تو ہم یہ کہے بغیر نہیں
رہ سکتے ہیں کہ ہماراتو آوے کا آواہی بگڑاہواہے، حکمران ، سیاستدان ،
حکومتی وزراء و مشیرانِ خاص ، پارلیمنٹ کے ممبران اورمذہبی و سیاسی جماعتوں
کے قائدین و عہدیداران اور کارکنان، قومی و نجی اداروں کے سربراہان و
ملازمین اور عوام سب ہی اپنے مفادات اور اقرباء پروی کی لت میں یوں
مبتلاہیں کہ یہ سب کے سب اپنے دین و دھرم کی دی گئیں تعلیمات اور اپنے
اکابرین کے دیئے گئے سبق کوبھی بھول بھال کر اُ س ڈگرپر چل نکلے ہیں کہ اَب
جہاں سے واپسی یہ سب اپنی موت سمجھتے ہیں اوریہی وہ المیہ ہے جو میرے دیس
اور معاشرے میں لاقانونیت وکرپشن اورغیر اخلاقی و سماجی بُرائیوں اور
اقرباء پروی کو پروان چڑھانے کی بڑی وجہ ہے۔
اِن دِنوں میرے مُلک میں سیاسی اور سماجی حوالوں سے چارسو پھیلی خودغرضی
اور مفاد پرستی کی ہلچل ہے، جس کسی کو دیکھو وہ اپنے ذاتی و سیاسی مفادات
کے خاطر اپنا کوئی نہ کوئی دلفریب اور دلکش نعرہ لگاتااور اپنے پیچھے عوام
کے جُھنڈ کے جُھنڈ اور ریوڑ لے کر چل رہاہے، اَب ایسے میں آگے اور پیچھے
چلنے والوں کا صرف ایک یہی مقصدہے کہ زندہ رہو، اور زندگی کے مزلے لوٹو،
اِس کے لئے خواہ کچھ بھی کرناپڑے کرجاؤ،خواہ اپنی منزل اور مقصدکو پانے کے
لئے مُلک اور قوم کو ہی داؤ پر لگانے پڑے تو اِس سے بھی دریغ نہ کرو، اپنی
منزل اور عزمِ خاص تک پہنچنے کے لئے ایک اِنسان ہی کیا خواہ سیکڑوں ،
ہزاروں، لاکھوں اور کڑورں بے گناہ اور معصوم اِنسانوں کی جانوں کا نذرانہ
بھی دیناپڑے تو دے ڈالو مگر اپنی منزل اور مقصد کو حاصل کرلواور اِسے
انقلاب اور تبدیلی کا نام دے کر اپنے کان اور آنکھیں بندکرلو،اوراگرکوئی
تنقید یابحث وتکرارکرے تو پھر اِس پر بس زبان سے دولفظ یہ کہہ دو کہ’’
انقلاب اور تبدیلی کے لئے یہ سب کچھ تو ہوتاہی ہے، اوراِس راہ میں جان
نچھاوڑ کرنے والوں کے نام تاریخ میں سُنہرے حروفوں میں لکھے جائیں گے‘‘
دامن جھٹک کر آگے بڑھ جاؤ۔
اَب اِس منظر اور پس منظر میں مجھے حضرت شیخ سعدی ؒ کی کتاب ’’حکایات
گُلستان سعدیؒ ‘‘ میں پڑھی ہوئی ایک حکایت یاد آگئی ہے میں چاہتاہوں کہ
اِسے یہاں بیان کروں حضرت نے اپنی حکایت میں ایک واقعہ یوں بیان کیاہے کہ
’’ ایک بادشاہ ایسی مہلک بیماری میں مبتلاہوگیاکہ شاہی حکیم کے پاس اِنسان
کے پتّے کے سوا کوئی علان نہیں تھا،حکیم نے اِس اِنسان کی چند مخصوص
نشانیاں بھی بتائیں،بادشاہ کے حکم سے ایسے اِنسان کی تلاش فی الفور شروع
ہوئی،بالآخرڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک زمیندار کے لڑکے کو اِن نشانیوں کا حامل
پایاگیا، بادشاہ کے کارندوں نے بہت سی دولت دے کر لڑکے کے ماں باپ کو راضی
کرلیا اور قاضی نے بھی اِس کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا، کیوں کہ سلطنت
چلانے اور بادشاہ کی سلامتی کے لئے ایساکرناضروری قرارپایاتھا،اِس نقطے کے
پیشِ نظر کسی ایک شخص کا خون جائز ہے،جب جلاد نے بھی نوجوان کوقتل کرنے کا
ارادہ کرکے اپنی ساری تیاری مکمل کرلی تواِنہی لمحات میں لڑکاآسمان کی طرف
دیکھتے ہوئے بڑبڑایااور مسکرانے گا‘‘،حضر ت شیخ سعدیؒ کہتے ہیں کہ’’ بادشاہ
حیران ہواکہ موت کو سامنے کھڑادیکھ کر یہ لڑکاکیوں مسکرایاہے..؟اِس حالت
میں ہنسنے کا کیا موقع ہے..؟بادشاہ نے لڑکے کو اپنے قریب بُلایااور بے سبب
ہنسنے کی وجہ معلو م کی۔لڑکے نے جواب دیاکہ: ’’ اولاد ماں باپ کی پیاری
ہوتی ہے اگر کوئی اُن کی اُولاد کی جان کے درپے ہوجائے تو وہ دعویٰ قاضی کے
آگے لے جاتے ہیں اور بادشاہ سے اِنصاف چاہتے ہیں جبکہ مجھ بدنصیب کے ماں
باپ دولت لے کر میرے خون پر راضی ہوگئے، قاضی نے بھی آ پ کی سلطنت چلانے کے
لئے آپ کی جان بچانے کے خاطر تُرنت میرے قتل کا فتویٰ بھی دے دیااورآپ نے
بھی اپنی صحت یابی میرے ہلاک ہونے میں دیکھی، اَب مجھے خداہی سے پناہ مل
سکتی ہے‘‘۔
آگے کروں کس کے جاکے تیری فریاد
مانگوں ہوں تیرے ظلم کی تجھ سے ہی داد
’’ ایسے بے گناہ کے خون سے میرامرجاناہی بہترہے‘‘ یہ کہہ کربادشاہ نے اِس
لڑکے کا ماتھاچوما اور بہت سامال وزردے کر اِسے رخصت کیا خداکا
کرناایساہواکہ یہ کرنے کے چند ہی دِنوں بعد بادشاہ کی بیماری بھی دورہوگئی
اور اِس نے شفابھی پالی۔ حضرت شیخ سعدی ؒ نے اپنی اِس حکایت میں یہ نکتہ
بیان کیاہے کہ اپنی جان بچانے اور اپنے مفادات کے خاطر کسی کی جان لینااور
مُلک اور قوم کی سلامتی کو داؤ پر لگانا اِنسانیت نہیں ،ایساقاتل بادشاہ
ہونے کی صورت میں دنیا کے قانون سے تو شاید بچ جائے، لیکن خدائی قانون سے
نہیں بچ سکتاہے ایساشخص ایک نہ ایک دن ضرورسزا پائے گا۔
اور اِسی کے ساتھ ہی آج میں اپنے کالم کا اختتام دانا ؤں کے اِن ا قوال پر
کرناچاہوں گا کہ ’’ اے پاکستانیوں ! ہوش میں آؤ گناہ اور جرائم چھوڑو،
نیکیوں میں لگو، خلوص کے ساتھ نیک عمل کرواور نیکیوں میں ترقی کرتے چلے جاؤ
تاکہ تمیں دنیا میں عزت اور عظمت حاصل ہواورتم دوزخ سے محفوظ ہوجاؤ‘‘ اور
’’ کتنااچھا ہو کہ...!! ہم اچھابننے کی کو شش اِس طرح کریں جس طرح خُوب
صُورت بننے کے لئے کرتے ہیں‘‘ اور اِسی طرح بھرتری ہری کا کہنا ہے کہ ’’
سُورج خود بخود پھول کِھلادیتاہے، چندرماآ پ ہی آپ پانی برسادیتاہے، یکدم
اُسی طرح نیک اِنسان بھی بغیرکہے خودبخوددوسروں کی بھلائی کے کام کرتاہے‘‘
تو پھر ہمیں بھی اپنے اندر خودبخود متحد ہومنظم ہونے کا جذبہ
بیدارکرناہوگااور اپنے مُلک اور معاشرے میں اپنا آوے کاآوابگڑے رجحان کو
ٹھیک کرنا ہوگا۔ |
|