اس سے میری شناسائی کافی پرانی تھی، کشمیری نژاد اس
پاکستانی دوست کو میرے خیالات سے شدید اختلاف تھامگرہمارے یہ نظریاتی
اختلافات کبھی ہماری دوستی میں آڑے نہیں آئے۔ ایک کرنٹ آفیئر ورکشاپ میں
،میں مدعو تھا۔ مجھے ''گلگت بلتستان اور کشمیر کی آئینی پوزیشن '' کے عنوان
پراپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا۔ میں نے حمد و ثناء کے بعد مختصر وقت
میںحاضرین کو گلگت بلتستان اور کشمیر کی اصل آئینی و جغرافیائی پوزیشن سے
آگا ہ کیاکہ دور ماضی میں گلگت ایجنسی اور ریاست کشمیر کا کیاتعلق رہا
ہے۔قیام پاکستان کے بعد اب تک کیا صورت حال رہی ہے، اقوام متحدہ میںپاکستا
ن قضیہ کشمیر کو کن بنیادوں پر لے گیاہے اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ قضیہ
کشمیر کے حوالے سے چار اہم ادوار گزرے ہیں۔ ایک دور 1947 سے1971 تک کا ہے ۔
اس دور میں پاکستان بہت مضبوط پوزیشن میں تھا۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی 1948ا
ور 1949کی قراردادوں کی بنیاد پرہم اخلاقی اور قانونی طور پراچھی پوزیشن
میں تھے۔ یہ ایک مستحکم دستاویزتھی۔ اس وقت تک مسئلہ کشمیر بین الاقوامی
مسئلہ تھا۔ اس کے بعد شملہ معاہدہ ہوا تو اس میںہماری پوزیشن کمزور تھی ۔
ہم نے اس معاہدہ میں کشمیر کے حوالے سے جاندار مؤقف نہیں اپناسکے۔ اس
معاہدہ میںہم نے تمام تنازعات کی بات کی اور مسئلہ کشمیر کو ضمن میں شامل
کیااس کا بااستقلال اس معاہدہ میں ذکر نہیںتھا تو ہندوستان کو موقع ملا تو
اس نے اپنے آئین میں تبدیلی کرکے کشمیر کواپنا جغرافیائی حصہ قرار دیا ۔ایک
دور1972 سے 1985تک کا ہے اس دور میں ہماری حالت بھیگی بلّی کی سی تھی۔1885
کے بعد کشمیری مجاہدین نے خود میدان میں نکل کرمسئلہ کشمیر کو زندہ
کیا۔1985سے2001تک کی مجاہدین کی قربانیوں نے مسئلہ کشمیر میں روح پھونک دی
تھی تاہم ہم نے یہ کہہ کر اس سے روح نکال دی کہ کشمیر میںہماری طرف سے
دراندازی ہورہی ہے۔چوتھا دور 2001سے تاحال تک کا ہے اس دور میں توہمارا آوے
کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ہم نے اپنا سب کچھ جنگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا۔اب
ہم قضیہ کشمیرکو لیکر جہاں کہیںبات کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ
تمہارا انڑنل کیس ہے خودباہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرو یوں ہم بین الاقوامی
تعاون سے محروم ہوگے۔ہمیں مسئلہ کشمیر کو سمجھنے کیلئے اقوام متحدہ کی
قراردادوںکاٹیکسٹ اور شملہ معاہدہ کامتن بغور پڑھنا ہوگا۔ یہ واضح رہے کہ
گلگت بلتسان کشمیرکاآئینی اور جغرافیائی حصہ ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس
حوالے سے ہمارے لوگ ہمیشہ حقائق سے صرف نظر کرکے من گھڑت اساطیر کادفتر
کھول دیتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج کا نوجوان تاریخی حقائق سے بے
بہرہ نہیں۔
میرے یہ دوست بھی سامعین کی اگلی نشستوں پر انگشت بداندںبیٹھے تھے جب میں
نے بات ختم کی تو یہ اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کہا کہ حقانی صاحب معاہدہ
کراچی کیا ہے ؟ اس کی وضاحت کیجیے۔اصولی طو ر پر میرا ٹائم پو را ہو چکا
تھا مگر سامعین کے اصرار وپرمجھے دوبارہ پورا وقت دیا گیا۔میں نے عرض کیا
کہ ''جناب والا ''معاہدہ کراچی'' میر ی دھرتی کی محرومیوں کا شاخسانہ
ہے۔میری آزادی کا گلا گھونٹ ہے۔ میری ترقی میں حائل دیوار چین ہے۔ میری
سوچ، فکر،تخیّل اورتصور پر قدغن ہے۔یہ ایک غیر قانونی ،غیرآئینی، غیر
اخلاقی اور غیر انسانی معاہدہ ہے جس کو مہذب دنیا تو کیا تیسری دنیا کا
کوئی فرد بھی تسلیم نہیں کرسکتا۔جعلسازی، فراڈ، دھوکہ،مکر، فریب،فرعونیت،
دجّالیت،شیطانیت اور خیانت کاعظیم شاہکار ہے۔ بس دوستو! یوں سمجھو کہ ''
معاہدہ کراچی'' اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، عالمی برادری، ٹرانس
پیرنسی انڑ نیشنل ،تمام انسانی حقوق کی آرگنائیزیشنز،جنیوا کنو نشن،عالمی
امن کے ٹھکیداروں،مہذب دنیا کے علمبر داروں ،نام نہاد عالمی لیڈروں،حقائق
سے بے بہرہ قلم کاروں،اندھے دانشوروں،غلط ریکارڈ پیش کرنے والے سرکاری
فرشتوںکے منہ پر ایک زور دار طمانچہ اوربین الاقوامی اصول و ضوابط اور
قوانین کی خلاف ورزی کی ایک بدترین اور غلیظ ترین مثال ہے۔''
میں نے مجمع پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی۔تمام مجمع حیران و پریشان میرا منہ
تک رہا تھا۔ خامو شی طاری تھی۔ہر ایک انگلی منہ میں دابے ورطہ حیرت
میںمبتلاتھا۔میرا یہ دوست دوبارہ کھڑا ہو ا اور کہنے لگا جناب والا بات
واضح نہیں ہوئی ہے۔یہ معاہدہ کب ،کہاں اور کس کے درمیان ہوا ہے؟ اور اس میں
کیا خاص بات ہے؟میں گویا ہوا کہ ''میرے دوستو!!! یہ معاہدہ 28اپریل1949کو
کراچی میں ہوا ہے جس میںگورنمٹ آف پاکستان کے ایک وزیرمشتاق احمد
گورمانی،آزاد کشمیر کے پہلے صدر سردار ابراہیم اور قائد کشمیر چوھدری غلام
عبّاس شریک تھے۔ جس خطہ کے بارے معاہدہ ہو رہاتھا اس کا کوئی فرد اور
نمائندہ نہیں تھا بلکہ ان کے علم میں بھی نہیں تھا کہ ہماری قسمت کے فیصلے
کون ،کہاں اور کیسے کررہاہے۔اس نام نہاد معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان اور اس
کے تمام ملحقہ علاقہ جات کو ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت کر دیے گئے۔اور
کمال بات یہ ہے کہ وہ آدمی بھی اس علاقے کاباسی نہیں تھا۔اس پہلے پولیٹیکل
ایجنٹ کا نام سردار عالم تھا۔دوستو! اس معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ
''All Affairs of Gilgit Ladakh under Control of Political Agent''
آپ نے اس بات کا خوب اندازہ لگایا ہوگا کہ ہمارے محسن،ہمارے ہمدرد،غم گسار
اور خیر خواںہمارے بارے کتنے متفکر تھے کہ گلگت بلتستان سے لاکھوں میل دور
کراچی میں بند کمروں کے اندر ہماری غیر موجودگی میں ہماری قسمت کا کیا خوب
فیصلہ کیا۔ناطقہ سر بگریباں ہے کیا کہیے!''
میرے ایک دوست مفتی امان اللہ کی شادی تھی ۔شادی میں شرکت کی خصوصی دعوت دی
گئی تھی تو ہم تین ساتھی کراچی سے ٹنڈو الہ یار روانہ ہوئے۔ ٹنڈو الہ یار
اندرون سندہ کا مشہور شہر ہے، وہا ں کے لوگ بہت ملنسار اور مہمان نواز
ہیں۔ٹنڈوالہ یار میں معروف مدرسہ دارالعلوم اشرف آباد ہے جو قیام پاکستان
کے قبل کا قائم شدہ ہے۔پاکستان کی دینی تحریکات میں اس مدرسے کا بڑا حصہ
ہے۔ اسی شہر کے وسط میں ہندوں کا مشہور راما پیر کا مندر ہے جہاں ہندوں
کاسالانہ میلہ لگتا ہے جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ یہاں ہندوں کی بڑی
تعداد رہتی ہے جو آزادی سے اپنی پوجاپاٹ میں مصروف ہے ۔جنوبی ایشاء میں
ہندوں کا سب سے دوسرا بڑا سالانہ مذہبی میلہ یہی لگتا ہے۔اندرون اور بیرون
ملک سے لاکھوں لوگ کشاں کشاںیہاں کھنچتے چلے آتے ہیں ۔شادی کے رسومات جاری
تھے ہم لوگ کھانے کی ٹیبل میں بیٹھ گئے۔مجھے صحافی ہونے کے ناتے کچھ خاص
مہمانوں کے ساتھ بٹھا دیا گیاتھا۔کراچی سے استاد محترم مولانانورالبشر صاحب
بھی تشریف لائے تھے ،۔ انکے ساتھ سعودی عرب سے آئے ہوئے کچھ مہمان بھی تھے،
استاد محترم نے میر ا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ'' ان کا تعلق شمالی علاقہ
جات سے ہے ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ ہے ۔حکومت اور بھی سہولیات دے
رہی ہے مگر یہ لوگ شاکی ہیں اور اپنے آپ کو پاکستانی بھی نہیں سمجھتے ہیں
باقی تفصیل یہ خود بتائیں گے''
تمام حاضرین میری طرف متوجّہ ہوئے ، کچھ فوج کے ریٹائرڈ آفیسرزبھی تھے۔ میں
نے عرض کیا کہ'' درست بات یہ ہے کہ ہم پاکستان اور پاکستانیوں سے شاکی نہیں
بلکہ گزشتہ 60 سال سے پاکستان ہم سے شاکی ہے،ہمیں ارباب پاکستان نے ایک منٹ
کیلئے بھی تسلیم نہیں کیا ہے ۔ ہم پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا گیا ہے ۔ مجھ
سے میرا سب کچھ چھین لیا گیا ہے اور سوائے چھچھوری ہڈیوں کے کچھ نہیں دیا
ہے۔ اگر ساٹھ سا ل بعد میںپاکستان کو اس کا چہرہ اس کاآئینہ میں دکھاتا ہوں
تو تسلیم کرنے کے بجائے وہ سیخ پا کیوں ہوتا ہے۔ یہاں تک شناختی کارڈ کا
تعلق ہے تو اس کی کوئی وقعت نہیں'' میںجیب سے کارڈ نکال کر ٹیبل پر پٹخ
دیا۔تمام لوگ انگشت بدنداں تھے، ایک صاحب مجھے ٹکٹکی باندہ کر دیکھ رہے تھے
۔ کہنے لگے کہ'' بیٹا آپ نے کافی سخت الفا ظ استعمال کیے ہیں۔آپ ہمارے
مہمان ہیں اس لیئے ہم آپ کے خیالات کااحترام کرتے ہیں تاہم آپکی بات واضح
نہیں ہورہی ہے۔ ذرا تفصیل سے وضاحت کیجئے''تب میں نے تفصیل سے انکو اصل
صورت حال سے آگاہ کیا۔ میں نے عرض کیا کہ ''جناب پھر ذرا دل تھام کر چند
حقائق سن لیں۔جناب والا ! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کا خطہ
قدررتی وسائل،قسم ہاقسم معدنیات،جنگلات،گلیشئیر، صاف شفاف آبشاروں، آبی
ذخائر، خشک میوہ،سلاجیت، جنت نظیر حسین و جمیل وادیوں اور بلند و بالا
پہاڑوں کا دیس ہے۔ دفاعی حوالے سے حساس، جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم
اور سیاحتی حوالے سے نہایت خوبصورت،دلچسپ،دلربا اور جاذب النظر ہے۔ 27469
مربع میل پر محیط یہ علاقہ1947ء تک ڈوگرہ راج کے زیر تسلط تھا۔پاکستان کی
آزادی کے بعد یکم نومبر 1948ء کو گلگت بلتستان کے غیور مسلمانوں نے اپنی
مدد آپ جہاد کر کے یہاں سے ڈوگرہ راج کو چلتا کر دیااور غیر مشروط طور پر
پاکستان کے ساتھ اسکا الحاق کردیا، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ گلگت
بلتستان کے لوگ باسیان پاکستان سے زیادہ پاکستان سے مودّت و محبت کرتے
ہیں۔اگر اس جذبے ومحبت میں صداقت نہ ہوتی توکبھی بھی اس طرح الحاق نہ کرتے،
مگر اے کاش............ ! بدلے اور صلے میں مملکت خداداد کے نا عاقبت اندیش
حکمرانوں نے اہل علاقہ کو اپنا سمجھ کر گلے سے لگانے کے بجائے '' معاہدہ
کراچی '' کے ذریعے دیوار سے لگایا اور انہیں ایف سی آر(F.C.R) جیسا کالا
قانون تحفے میں دیا گیا جو طویل عرصے میں بڑی جدوجہد کے بعد ختم کردیاگیا۔
اس خطہ زمین نے پاکستان کے زیر کنٹر ول ہونے کی بنیاد پر پاکستانی کہلانا
چاہا تو اقوام متحدہ(U.N.O) نے ڈنڈی مار دی، جغرافیائی لحاظ سے کشمیر بننا
چاہا تو شاہان وقت کی مرضی شامل نہ ہوئی اور اُنکے مذموم مقاصد مانع ٹھہرے،
پانچواں صوبہ کر اپنا الگ تشخص قائم کر نا چاہا تو کچھ اپنوں کی کا
رستانیاں اور کچھ غیروں کی ریشہ دوانیاںرکاوٹ بنیں۔ اس عالم وجود میں اپنی
الگ ریاست بنا کرجینے کا سوچا تو سوچنے والے ''غدار'' ٹھہرے۔ گواس دھرتی بے
آماں کے ساتھ مختلف ادوار میں ہر قسم کا ظلم و جبر جاری رہااور سیاسی و
آئینی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ بھٹو دور میں ایک نام
نہاد '' قانون ساز کونسل'' وجود میں آئی جس کا کردار فقط زبانی خرچ تک
محدود تھا جبکہ تمام انتظامی اختیارات اور امور چیف ایگزیکٹیو کے پاس ہوتے
جو وفاق سے ہوتا۔مشرف دور میں اس انتظامی ڈھانچے میں کچھ تبدیلی کر کے
''قانون ساز اسمبلی '' کا نام دیا گیااور زرداری حکومت نے '' سیلف گورننس
اینڈ امپاورمنٹ آرڈیننس 2009 '' کے نام سے ایک انتظامی پیکیج متعارف کروایا
اگرچہ اس میں کافی حد تک اہل علاقہ کو اختیارات سونپ دیے گئے ہیںمگر حقیقت
یہ ہے کہ انتظامی پیکیج کاعدالتی و آئینی تحفّظ نہیں ہے نہ گلگت بلتستان کی
اسمبلی و کونسل کے پاس مکمل اختیارات کا سر چشمہ ہے اور نہ اپنی مرضی سے
سیاسی و انتظامی فیصلے کر سکتے ہیں۔ اس خطے کی تقدیر کے فیصلے اور نفاذ
قوانین کی نکیل اب بھی صاحبان بست وکشاد اور ارباب اسلام آباد کے ہاتھوں
میں ہے ۔وہی سپید و سیاہ کے مالک ہیںاور انہی کی منشاء و مرضی کے مطابق
تمام سیاسی وآئینی اورانتظامی امور طے پاتے ہیں۔وارے ! کیاانصاف۔۔۔۔۔۔؟
وارے ! کیااپنائیت۔۔۔۔؟
اس وادی جنّت نظیر کی سرحدیں بیک وقت چین،بھارت،افغانستان،تاجکستان،چترال
اور کشمیر سے ملتی ہیں ۔ اس میں سات اضلاع اور سولہ تحصیلیں ہیںاور چھوٹے
بڑے کم و بیش 1000 گائوں آباد ہیں۔ دنیا کی اہم ترین چوٹیاںکے ٹو،
نانگاپربت،کوہ ہمالیہ،کوہ قراقرم، کوہ ہندوکش،پامیراور شنگھریلا،
دیوسائی،فیری میڈو، راما جھیل،گیٹی داس، ہنزہ جیسی خوبصورت جگہیں اس خطے کے
حصہ میں آئی ہیں۔ دفاعی حوالے سے لدّاخ سیکٹر،کارگل،سیاچن اور گلتری باڈرز
شامل ہیں جو ملک کے حساس ترین باڈرز شمار ہوتے ہیںاور ان باڈروں پر گلگت
بلتستان کے عظیم مجاہدین کی قربانیاں سب پرروز روشن کی طرح عیاں ہیں اور
پتھر پر لکیر ہے مگر کوئی نگاہ بصیرت ، عقل سلیم اور اپنے پہلو میں نرم دل
رکھنے والا تو ہو.........!اس سب کے باوجود بھی ہم سے کہا جارہا ہے کہ
وفادار نہیں، تو سن لو! جگر تھام کرکہ تم بھی دلدار نہیں''
قارئین جب میں یہ تمام تقریر دلخراش جھاڑ کر خاموش ہوا توان سب کی زبانیں
گنگ اور مہر بلب تھے۔ جو لوگ ابتدائی کلمات سن کر پیچ و تاب کھا رہے تھے وہ
میرے غم گسار بن گئے تھے۔ میں نے کچھ توقف کے بعد دوبارہ عرض کیا کہ''جناب
والایہاں تک قومی شناختی کارڈ کی بات ہے تو اس کارڈ میں بڑی رازیں
مضمرہیں۔میں نے کہا کہ ایک سبز ہلالی کارڈ اپکے پاس ہے اور ایک میرے پاس،اپ
اپنا کارڈ نکال کر دیجیے ۔میں بھی رکھتا ہوں پھر میں بتاتا ہوں کہ اصل بات
کیا ہے۔اپ اس کارڈ سے پاکستان کا صدر ،وزیر اعظم اور اٹارنی جنرل بن سکتے
ہیں مگر میں نہیں بن سکتا،اپ اس شناختی کارڈ سے پاکستان کے چیف جسٹس بن
سکتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ میں اس کارڈ سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے ا
نصاف کی بھیک بھی نہیں مانگ سکتا۔ایوان بالا اور ایوان زرّیں کا رکن بھی
نہیں بن سکتا۔عجیب تفاوت ہے نا ہمارے کارڈوں میں؟''وہ سب لم یمج میری باتیں
سن رہے تھے بالآخر انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ اگریہ سچ ہے تو واقعتا
ناانصافی ہے ۔ اور یہ ناانصافی معاہدہ کراچی کی مرہون منّت ہے ہمیں بارہا
اس معاہدہ کے بھینٹ چڑھایاگیا ہے۔ اس کی کوکھ سے کتنے شگوفے پھوٹ چکے
ہیںکبھی پاک چین سرحدی معاہدہ ہوتا ہے کبھی شملہ معاہدہ ہوتاہے اور کبھی
اعلان لاہور ہوتا ہے تو کبھی کارگل میں گُل کھلائے جاتے ہیںمگر دیوی کیلئے
عقیدت کا بھینٹ ہم ہی بنتے ہیں اور قربانی کے بکرے کی سعادت بھی ہم جیسے
خوش نصیبو ں کوحاصل ہوتی ہے۔ واہ ''دیو ی کا بھینٹ'' ۔۔۔۔۔۔واہ''قربانی
کابکرا''
یہاں ایک بات یاد رہے کہ معاہدہ کراچی آڑ میں آج جو لوگ غیروں کے اشاروں پر
ناچتے ہیں اور ڈالروں کے بل دھرتی ماں کو بیچتے ہیں وہ قابل مذمت نہیں قابل
اصلاح بھی ہیں۔ اور وہ لوگ تو قابل نفرت اور گرفت ہیں جو واشنگٹن میں بیٹھ
کر ،یاجاکردھرتی ماں کا سودا کر رہے ہیں۔ کیا گلگت بلتستان اور پاکستان کے
ارباب اقتدار اور صاحبان بست کشاد کے پاس ایسے بد نما کرداروں سے نمٹنے کے
لیے وقت نہیں ہے؟ شاہد۔۔۔۔۔نہیں؟
نوٹ: یہ تحریر 2008کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ حقانی |